Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

96 کے ورلڈ کپ میں کینیا سے اپ سیٹ شکست اور برائن لارا کی معافی

96 کے ورلڈ کپ میں برائن لارا آٹھ رنز بنا کر رجب علی کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہوئے۔ (فوٹو: اے پی)
ونود مہتا انڈیا کے ممتاز صحافی تھے۔ اروندھتی رائے بھی ان کی مدیرانہ صلاحیتوں کی قائل ہیں۔
صحافتی سرگرمیوں سے ہٹ کر انہوں نے کتابیں بھی لکھیں۔ ان کی خود نوشت ’لکھنؤ بوائے: اے میموئر‘ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں تھوڑا ذکر کرکٹ کا بھی ہے۔ ان دنوں ورلڈ کپ کا دور دورہ ہے اس لیے ہم نے ایک ایسے واقعے کا انتخاب کیا ہے جس کا تعلق 1996 کے ورلڈ کپ سے ہے۔
سنہ 2023 کے ورلڈ کپ میں ہم بڑے بڑے اپ سیٹ دیکھ رہے ہیں۔ مثلاً افغانستان ورلڈ کپ کی فاتح ٹیموں انگلینڈ اور پاکستان کو ہرا چکا ہے۔ سنہ 1996 میں سب سے بڑا اپ سیٹ کینیا کا ویسٹ انڈیز کو چت کرنا تھا۔
ونود مہتا اس زمانے میں آؤٹ لک کے ایڈیٹر تھے۔ اس جریدے میں انیرُدھ بہل سٹنگ سپیشلسٹ اور تحقیقاتی رپورٹر تھے۔ ویسٹ انڈیز سے جیت کی خوشی میں کینیا کے ڈریسنگ روم میں جشن بپا ہوا تو اس میں انیرُدھ بہل کو بھی شرکت کی دعوت ملی۔ کینیا کے کئی کھلاڑیوں سے ان کے دوستانہ مراسم تھے جن میں سے بعض ہندوستانی نژاد تھے۔
برائن لارا حریف ٹیم کے کھلاڑیوں کو مبارک باد دینے کی غرض سے ڈریسنگ روم میں گئے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ادھر کوئی صحافی بھی ہو گا۔ ونود مہتا کے خیال میں لارا نے انیرُدھ بہل کو غالباً کینیا کا کوئی کھلاڑی ہی تصور کیا۔
صحافی موقعے پر موجود نہ ہو تو بھی خبر نکال لاتے ہیں یہاں تو ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ کی صورت تھی۔ خبر رپورٹر کے پاس چل کر آئی۔ لارا نے کھلاڑیوں سے کہا:
’تم لوگوں سے ہارنا بری بات نہیں، تم تو سیاہ فام ہو، تم سمجھ ہی رہے ہو میں جو کہہ رہا ہوں، اگر ہم جنوبی افریقہ سے ہارتے تو یہ کلی طور پر ایک مختلف معاملہ ہوتا۔ تمہیں علم ہی ہے کہ پھر وہ گوروں والی چیز منظر میں شامل ہو جاتی ہے۔ ان سے ہار ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوتی۔
برائن لارا کے یہ الفاظ انیرُدھ بہل نے آؤٹ لک میں رپورٹ کیے تو طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ لارا پر نسلی تعصب کا الزام لگا۔ بین الاقوامی میڈیا نے مذمت کی۔ لارا نے معافی مانگی۔ البتہ ساتھ میں یہ ضرور کہا کہ ان کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔

ویسٹ انڈیز سے جیت کی خوشی میں کینیا کے ڈریسنگ روم میں جشن بپا ہوا تو اس میں انیرُدھ بہل کو بھی شرکت کی دعوت ملی۔ (فوٹو: سکرول)

اس بات کا جواب ونود مہتا نے آؤٹ لک کے نمائندے انیرُدھ بہل کا یہ وضاحتی بیان نقل کر کے دیا کہ ’کینیا کے کھلاڑیوں اور کپتان نے ڈریسنگ روم کے جشنِ فتح میں مجھے مدعو کیا تھا۔ میں جب ڈریسنگ روم میں داخل ہوا تو لارا پہلے سے گفتگو کر رہے تھے۔ کیا مجھے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے یہ کہنا چاہیے تھا کہ میں صحافی ہوں؟
ویسٹ انڈیز کے مینجر ویزلے ہال نے انیرُدھ بہل کو ’سیکرٹ جرنلسٹ‘ ٹھہرایا اور ان کے فعل کو بزدلانہ قرار دیا۔ یہ بات ایسے وقت میں نکلی جس کے چند روز بعد ویسٹ انڈیز نے جنوبی افریقہ کے خلاف میچ کھیلنا تھا۔
ونود مہتا نے کتاب میں برائن لارا کو ویسٹ انڈین کپتان لکھا ہے جبکہ اس ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے کپتان رچی رچرڈسن تھے۔
لکھنؤ بوائے: اے میموئر‘ سے فقط اتنا ہی، اب ہم آگے بڑھتے ہیں اور ایک نظر ویسٹ انڈیز اور کینیا کے میچ پر ڈالتے ہیں جسے بین الاقوامی کرکٹ کے بڑے اپ سیٹ مقابلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 
سنہ 1996 میں کینیا کی ٹیم پہلی دفعہ ورلڈ کپ میں حصہ لے رہی تھی۔ اس نے دو ورلڈ کپ مقابلوں کی فاتح اور ایک بار فائنل کھیلنے والی ویسٹ انڈیز ٹیم کو ہرا کر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ویسٹ انڈیز ٹیم ورلڈ کپ میں پہلی دفعہ کسی ایسوسی ایٹ ممبر سے میچ ہاری۔ کنییا نے پہلی دفعہ ٹیسٹ سٹیٹس کی حامل ٹیم سے ون ڈے میچ جیتا۔ کینیا نے پہلے بیٹنگ کی اور 166 رنز بنائے۔
سب سے زیادہ 37 رنز ’ایکسٹرا‘ کے تھے۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم یہ آسان ہدف حاصل نہ کر سکی اور 93 کے سکور پر ڈھیر ہو گئی۔ حریف ٹیم سب سے زیادہ برائن لارا کی وکٹ کی متلاشی تھی۔ لارا آٹھ رنز بنا کر رجب علی کی گیند پر وکٹوں کے پیچھے کیچ آؤٹ ہوئے۔ مائیکل ہینڈرسن نے لارا کی غیرذمہ داری کے حوالے سے لکھا کہ انہوں نے ’بگڑے ہوئے بچے‘ کی طرح وکٹ گنوائی۔
اس شکست پر ویسٹ انڈیز کے سابق کھلاڑیوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ اسے ویسٹ انڈین کرکٹ کی پستی کی انتہا قرار دیا۔ یہ اس ٹیم کی ناکامی تھی جس میں برائن لارا، کرٹلی امبروز اور کورٹنی والش جیسے عظیم کھلاڑی شامل تھے۔
کینیا کے کپتان مورس اوڈمبے عمدہ بولنگ پر مین آف دی میچ قرار پائے۔ انہوں نے کہا کہ ’ویسٹ انڈین کھلاڑی ان کے لیے دیوتا سمان رہے ہیں اور یہ جیت ایک خواب کی مانند لگ رہی ہے۔ اوڈمبے نے اس جیت کو ورلڈ کپ جیتنے کے مترادف گردانا۔‘
سنہ 1992 کے ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ سے میچ ہارنے کا لارا کو بڑا رنج ہوا تھا جس کی وجہ نسلی تعصب نہیں تھا بلکہ اس سے ٹیم سیمی فائنل کی منزل سے دور ہو گئی تھی۔ 1996 کے ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں جنوبی افریقہ کے خلاف برائن لارا نے شاندار سینچری سکور کی۔ مین آف دی میچ ٹھہرے اور پرانا حساب چکتا کر دیا۔

ونود مہتا کی مدیرانہ صلاحیتوں کی اروندھتی رائے بھی قائل ہیں۔ (فوٹو: امیزون)

ویسٹ انڈیز سیمی فائنل میں پہنچ گیا جہاں اس کا مقابلہ آسٹریلیا سے تھا۔ اس میچ میں آسٹریلیا نے 207 رنز بنائے۔ ایک مرحلے پر لگ رہا تھا کہ ویسٹ انڈیز میچ آسانی سے جیت جائے گا۔ 52 گیندوں پر اسے 43 رنز چاہیے تھے۔ آٹھ وکٹیں ہاتھ میں تھیں۔ لیکن پھر اس کی وکٹیں یکے بعد دیگرے گرتی چلی گئیں اور وہ پانچ رنز سے میچ ہار گیا۔ کینیا سے شکست کا داغ اور سیمی فائنل میں ہار نے ویسٹ انڈین کپتان رچی رچرڈ سن کے کیریئر کا خاتمہ کر دیا۔

شیئر: