Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب کے سکولوں میں ’بچوں کے انتخابات‘، سٹوڈنٹس کونسلز کیسے کام کریں گی؟

سکولوں میں طلبہ کی یونین سازی کو ’سٹوڈنٹس کونسل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ملکی سطح پر تو آپ نے انتخابی عمل دیکھ ہی لیا ہو گا لیکن اب اسی طرز پر سکولوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
سرکاری سکولوں میں انتخابی مہم، کاغذات نامزدگی، کاغذات کی منظوری اور مسترد ہونے کا پورا عمل دہرایا جائے گا۔ حکومت پنجاب کی جانب سے تمام چیف ایگزیکٹیو آفیسرز کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق پنجاب کے تمام سرکاری سکولوں میں طلبہ کی یونین سازی کی جائے گی جسے ’سٹوڈنٹس کونسل‘ کا نام دیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت، سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق سٹوڈنٹس کونسل کے انتخابات 16 مئی کو ہوں گے۔ ان انتخابات کے لیے انتخابی شیڈول اور ضابطہ اخلاق بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے ہم نصابی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور طلبہ میں قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے سٹوڈنٹس کونسل کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ یہ کونسلز صدر، نائب صدر، جنرل سیکریٹری، فنانس سیکریٹری اور چھٹی جماعت اور اس کے اوپر والی کلاسز کے نمائندگان پر مشتمل ہوں گی۔
ان الیکشنز کے نتیجے میں طلبہ فیصلہ سازی، انتظامی معاملات پر دسترس، گفت و شنید پر عبور اور ساتھی طلبہ کے ساتھ مشاورت جیسے امور سے واقف ہوجائیں گے اور انہیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں بروئے کار لائیں گے۔ یوں سکول کی سطح پر بچے ووٹ کی اہمیت اور طاقت سے بھی آگاہ ہوجائیں گے اور مسائل کی نشاندہی سے لے کر ان کے حل تک تمام مراحل خود اپنے تجربے سے گزار سکیں گے۔
اس حوالے سے ایک تفصیلی دستاویز بھی جاری کی گئی ہے جس میں ان انتخابات کے مقاصد، سٹوڈنٹس کونسل کے آغاز کے بارے معلومات، انتخابات کے طریقہ کار، اہلیت، ضابطہ اخلاق، ذمہ داریاں اور مدت کے اختتام سے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
مراسلے کے مطابق یہ انتخابات مڈل، ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولز میں تین حصوں میں ہوں گے۔ جن کے ہر حصے میں چار عہدوں پر صدر، نائب صدر، جنرل سیکریٹری اور فنانس سیکریٹری کے الیکشن کا انعقاد کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ہر کلاس میں سے ایک ایک کلاس سے نمائندہ منتخب کیا جائے گا۔ ایک اُستاد کو باقاعدہ الیکشن کمشنر نامزد کیا جائے گا اور سکولوں میں بیلٹ پیپرز اور بیلٹ باکس رکھے جائیں گے۔ جس کے لیے اپنے اپنے پولنگ ایجنٹس ہوں گے اور انتخابات میں حصہ لینے والے طلبہ انتخابی مہم بھی چلا سکیں گے۔
وزارت تعلیم نے سٹوڈنٹس کونسل کے لیے انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے انتخابی شیڈول بھی جاری کر دیا ہے۔ جس کے مطابق کاغذات نامزدگی 8 تا 10 مئی جمع کرائے جا سکیں گے۔

سکولوں میں طلبہ الیکشن کے عمل سے آگاہ ہوں گے۔ (فوٹو: بشکریہ سکول ایجوکیشن ساؤتھ پنجاب)

اس کے بعد سکروٹنی کا عمل 11 مئی کو ہو گا جبکہ اسی دن انتخابی نشانات بھی الاٹ کیے جائیں گے۔ 12 مئی کو امیدوار پوسٹر سازی کر کے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کریں گے جو 15 مئی تک جاری رہے گی۔ جس کے بعد 16 مئی کو باقاعدہ پولنگ ہو گی۔ اسی دن نتائج کا اعلان بھی کیا جائے گا۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر مانیٹرنگ تعلیم پنجاب ملک غلام فرید نے تمام تفصیلات سکولوں کے سربراہان اور ایجوکیشن افسران کو جاری کر دی ہیں۔ پولنگ کا عمل مکمل ہوتے ہی تمام منتخب نمائندے حلف اٹھائیں گے۔ یہ سلسلہ ہائیر سیکنڈری سکولوں میں ہر سال گرمی کی چھٹیوں کے بعد دہرایا جائے گا۔
ڈائریکٹر مانیٹرنگ برائے تعلیم پنجاب کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز کے مطابق انتخابات میں وہی بچے حصہ لے سکیں گے جنہوں نے گزشتہ سال امتحانات میں پہلی پانچ پوزیشنز میں سے کوئی بھی پوزیشن حاصل کر رکھی ہو۔ اس کے علاوہ امیدوار کے لیے 80 فیصد حاضری، سکول میں اچھا برتاؤ رکھنا بھی ضروری ہو گا۔ منتخب نمائندوں کی ذمہ داریوں میں ہم نصابی سرگرمیوں، مضمون نویسی، پینٹنگ اور کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد شامل ہے۔ یہ نمائندے دیگر طلبہ کو کتب بینی کی طرف راغب کریں گے اور انہیں آن لائن میگزین سے آگاہ کریں گے۔
اس کے علاوہ سکول کے نظم و ضبط میں انتظامیہ کی مدد کرنا، سکول کے مسائل حل کرنا اور ان میں مدد کرنا، سکول کی بہتری کے لیے منصوبے تجویز کرنا اور انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانا بھی منتخب نمائندوں کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔
سرکاری سکول کے ایک طالب علم مصطفیٰ کی خواہش ہے کہ وہ بھی ان الیکشنز میں حصہ لے۔ وہ نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے سکولوں میں الیکشنز سے متعلق اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے لیے تو یہ صرف الیکشنز ہی ہوں گے لیکن اس کے بعد جو کچھ ہم سیکھیں گے وہ سب سے اہم ہے۔ اس طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ جو کچھ ہم میڈیا پر دیکھتے ہیں وہ حقیقت میں کیسے ہوتا ہے؟
ماہر تعلیم تیمور بانڈے کا کہنا ہے کہ سکول کی سطح پر انتخابات منعقد کر کے جمہوری اقدار اور انتخابی عمل بچوں کو سکھا کر اسے نارمل بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے اُردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس طرح کی سرگرمیاں طلبہ کی طاقت اور ان کی آواز کی ترویج کے لیے ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں سٹوڈنٹس کونسل پہلے سے منتخب ہوتی آرہی ہیں لیکن اب یہ سرکاری سکولوں میں بھی شروع ہو رہا ہے جو کہ خوش آئند ہے اور اسے مزید آگے لے جانا چاہیے۔‘

انتخابات میں پہلی پانچ پوزیشن لینے والے بچے ہی حصہ لے سکیں گے۔ (فوٹو: بشکریہ سکول ایجوکیشن ساؤتھ پنجاب)

تیمور بانڈے نے انہی انتخابات کی بنیاد پر سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’جمہوریت کا اصل حسن طلبہ یونینز میں ہے۔ جب یہی بچے سکول، کالج اور جامعات سے ہوتے ہوئے سیاسی عمل کا حصہ بنیں گے تو اس کا فائدہ ہی ہو گا۔‘
لاہور کے ایک سرکاری سکول کے طالب علم مظہر علی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم تو اس بات پر خوش ہیں کہ سکول میں کئی دن تک ایک مثبت سرگرمی ہو گی اور ہم سب اسی میں انگیج رہیں گے۔ اس طرح ہمیں بھی اندازہ ہو جائے گا کہ ہماری بھی قدر ہوتی ہے اور ہماری بھی آواز سنی جاتی ہے۔‘
اس حوالے سے تیمور بانڈے بتاتے ہیں کہ سکول میں مختلف سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں جن میں طلبہ کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول ’سکولوں میں ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ ہر جگہ سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں۔ سکولوں میں سکول مالک، اساتذہ، والدین اور طلبہ ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے طلبہ کو نظر انداز کیا جاتا ہے جبکہ یہی سب سے اہم سٹیک ہولڈر ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ سکول کا ماحول کیسا ہے، اُستاد کس طرح پڑھاتا ہے، سکول میں کیا فائدہ نقصان ہو رہا ہے؟  اس لیے انہیں سٹیک ہولڈر بنا کر پیش کرنا نہایت ضروری ہے جو ان انتخابات سے ہو سکتا ہے۔‘
ایک اور طالب علم دانش ظفر جو خود ان انتخابات میں حصہ لینے کے خواہشمند ہیں، نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم پہلے سے اس عمل سے واقف ہیں کیونکہ ہماری کلاسز میں ایک مانیٹر یا ہیڈ بوائے ہوتا ہے۔ اس کی بھی کافی پاور ہوتی ہے لیکن اب باقاعدہ اہلیت دیکھ کر طلبہ آگے آئیں گے تو بہتری کی اُمید کی جا رہی ہے۔‘
تیمور بانڈے کے مطابق ’سکولوں میں عموماً ہر کلاس کا ہیڈ بوائے ہوتا ہے اور نجی اداروں میں پھر ڈرامیٹکس، ڈیبیٹس اور دیگر چیزوں کے صدور ہوتے ہیں لیکن سرکاری سکولوں میں ان انتخابات کا منعقد ہونا خوش آئند ہے۔ یہ غالباً پہلی بار ہو رہا ہے کیونکہ اس سے قبل اگر ہوتا بھی تھا تو ایک طالب علم کو منتخب کر دیا جاتا تھا، یہ سلیکشن ہوتی تھی لیکن اب باقاعدہ بچوں کے الیکشنز ہوں گے۔‘

شیئر: