Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رشتوں کی اہمیت ، قرآن وسنت کی روشنی میں

محمد کبیر بٹ ۔ ریاض

جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا ہے، اُن پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ قرابت داروں پر اپنا ما ل خرچ کریں ۔ جب یہ آیت مبا رکہ نازل ہوئی’’تم نیکی کے بلند معیار کو حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو ‘‘تو سیدناابوطلحہؓ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: "میرا فلاں باغ جس میں کھجوروں کے درخت اور میٹھے پا نی کا کنواں بھی ہے، میری سب سے محبوب ملکیت ہے ،میں اسے اللہ کی راہ میں دینا چا ہتا ہوں۔" آپ نے فرمایا: "اسے اپنے چچا زادوں میں تقسیم کردو۔ " سیدناابو طلحہ ؓ نے وہ با غ بخوشی اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دیا ۔ آپ نے فر ما یا: "جس کے قرا بت دار مستحق ہوں اور وہ دوسروں کو صدقہ خیرات دے، اللہ اس کے صدقے کو قبو ل نہیں فرما تا۔ " آج کل زیا دہ تر لڑا ئیاں جھگڑے اور فتنے فساد قریبی رشتہ دا روںاورپڑوسیوں کے درمیان ہوتے ہیں جن کے سا تھ احسا ن کی تاکید با ر با رکی گئی ہے ۔ ہم واقعی رشتہ داروں کو محروم رکھتے ہیں جبکہ با ہر صد قہ خیرا ت کرتے ہیں ۔ ہما را رویہ یہ ہوتا ہے کہ میرا فلاںرشتہ دار ہے تو مستحق لیکن اس نے میرے ساتھ ایسا ویسا کیا ،وہ تو میری پھوٹی کو ڑی کا حق دار بھی نہیں ۔ معمو لی با تو ں پر قطع تعلق کی قسمیں کھا ناا ور ایک دوسرے کی خو شی اور غمی میں شریک نہ ہو نا تو معمول بن چکا ہے بلکہ بعض تو را ستہ چلتے ہوئے ایک دوسرے سے سلا م دعا تک ترک کر دیتے ہیں ۔ نبی نے فرمایا : "جو شخص یہ چا ہتا ہو کہ اس کی عمر اور رِزق میں برکت ہو اسے چا ہئے کہ صلہ رحمی کرے۔ " او ر فرمان کا مفہوم ہے: "صلہ رحمی یہ نہیں کہ جو رشتہ دا ر تمہا ری آؤ بھگت کرے ،تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی معا ملہ کرو، جو تمہاری مدد کرے تم اس کی مدد کرو، یہ صلہ رحمی نہیں بلکہ برا بری اور ادلے کا بد لہ ہے۔ صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو تم سے تعلق تو ڑے، تم اس سے تعلق جوڑو،جو تمہیں تمہا ر ے حق سے محروم رکھے، تم اسے اس کا حق دو اور جو تمہا رے ساتھ ظلم وزیا دتی کرے، تم اسکا قصور معاف کردو ۔" کس قدر اعلیٰ اخلا ق کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ حضور کا اسوئہ مبا رک بھی ایسا ہی تھا کہ آ پ نے قرابت داروں کے ظلم و زیادتیوں کو فراخ دلی سے معا ف کر دیا جبکہ آپ انتقا م لینے کی پو ری قدرت رکھتے تھے ۔ جب کسی شخص سے کوئی غلطی سرزد ہو جا ئے تو اس کو معا ف کر دیناچا ہیے ۔ بعض لوگ معاف کرنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں جبکہ معاف کرنا اللہ تعالیٰ کی صفاتِ عالیہ میں سے ایک اہم صفت ہے اور یہ رسول کا اسوئہ حسنہ بھی ہے ۔معاف کرنے سے تو ہین نہیںبلکہ گناہ معاف ہوتے ہیں اور درجا ت بھی بلند ہو تے ہیں۔ نبی نے فرما یا: "جو شخص حق پر ہونے کے با وجود نزاع اور جھگڑے ختم کرنے کیلئے اپنے حق سے دستبر دار ہو جا ئے میں اس کیلئے جنت میں گھر کی ضمانت دیتاہوں ۔"(تر مذی )۔ معاف کرنے اور اپنے حق سے دستبر دار ہو نے کی جزا جنت میں گھر کی ضما نت اور وہ بھی اُن کی زبا ن مبا رک سے جن کے ہا تھ میں اللہ تعالیٰ نے جنت کی کنجی دے دی،زہے نصیب۔ رشتے داروں کے درمیان کھٹ مٹ ہوتی رہتی ہے، یہ کو ئی انو کھی با ت نہیں ۔ مسئلہ رویوں ،طرز گفتا ر اور اخلا قی تقاضوں کا ہے۔ جب کہیں نزاع ہو جا ئے تو دوسرے لو گو ں کی ذمہ دار ی بنتی ہے کہ وہ اپنے بھا ئیوں کے درمیا ن صلح صفا ئی کروادیں۔ فریقین کو بھی یہی تا کید کی گئی ہے کہ وہ آپس میںمعاملا ت درست کر لیا کریں ۔ معاملات کو بگا ڑتے یا بگڑتے دیر نہیں لگتی ۔ بعض اوقات کسی کے منہ سے نکلا ہوا ایک کلمہ تیر و نشتر بن کر کسی کے دل سے پا ر ہو جا تا ہے۔ پھراسکی اصلاح کیلئے بڑی محنت اور قربا نی درکا ر ہو تی ہے ۔نبی نے فرما یا : "کیا میںتمہیں بتا دوں کے نما ز،روزہ اور صدقہ خیرا ت سے بڑھ کر فضلیت والا کا م کون سا ہے ؟" صحا بہ کرام ؓ نے عرض کیا: ضرو ر بتا یئے۔ آپ نے فرما یا: " لوگوں کے درمیان صلح صفا ئی کرا نا کیونکہ تعلقات کا بگا ڑ مو نڈنے والی چیز ہے ،با لوں کو مونڈنے والی نہیں بلکہ دین کو مونڈنے والی۔" یہ حدیث مبا رک اس با ت کو وا ضح کرتی ہے کہ با ہمی لڑائی جھگڑا اور قطع تعلق دین وایما ن کا صفا یا کر دیتے ہیں۔بعض لو گ ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ اختیا ر کر لیتے ہیں جو بہت بڑا گنا ہ ہے اور بعض اوقات یہ رویہ غرور وتکبر کی وجہ سے بھی ہوتا ہے اور خوامخواہ اَڑ جانے کی وجہ سے بھی کہ میںتو حق پر ہو ں، یہی رویہ درا صل معاملا ت کی اصلا ح میں بڑی رکا وٹ بن جا تا ہے اور فریقین میں دوریاں بڑھتی چلی جا تی ہیں ۔ یاد رکھئے ،کو ن حق پر ہے اور کون غلط ، اسکا سو فیصد صحیح فیصلہ اس دنیا میں ممکن نہیں ۔ خود اللہ کے نبی بھی فریقین کے مقدمے کی سماعت اور فیصلے کے وقت فرما یا کرتے تھے: " میں بھی ایک انسان ہوں،تمہا ری بیان با زی اور شہا دتو ں کی بنیادپر فیصلہ کرتا ہوں،جس کے حق میں فیصلہ ہو اُس نے اپنی چرب زبانی سے اپنا حق پر ہو نا ثابت کردیا ہو لیکن عند اللہ وہ حق پر نہ ہو، اس طرح وہ اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بناڈالے گا، اس لئے با ہمی معا ملا ت میں اللہ سے ڈرو۔" (مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں)

شیئر: