Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم معاشرے کا قابل رحم طبقہ ، بیوائیں

نثار احمد حصیر القاسمی ۔ حیدرآباد دکن

اس مہذب دنیا اور آزادیٔ نسواں کی صدائوں کے بیچ آج بھی بیوائوں کو گوناگوں مصائب ومشکلات کا سامنا ہے۔ آخر کیوں عزیز واقارب اور اپنوں ودوسروں کی جانب سے ان پر زیادتیاں کی جاتی ہیں، ان کے ساتھ بد ترین سلوک کیا جاتا اور قساوت قلبی کا ثبوت دیا جاتا ہے؟ آخر کیوں لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ایک نہ ایک دن خود ان کی بہن ، بیٹی بھی بیوہ ہوسکتی ہے؟ لوگ یہ احساس کیوں نہیں کرتے کہ بیوہ ہونے والی خاتون اپنی زندگی کے ساتھی اور شریک حیات سے محروم ہوکر جس دردو الم اور گوناگوں مشکلات ومصائب سے دو چار ہوچکی ہے، یہی دردو الم اور غم واندوہ اس کیلئے کافی ہے اور مزید اس پر آلام ومصائب کا بوجھ ڈالنا انسانیت کیخلاف ہے، جسے اس کا کمزور جسم اٹھانے اور برداشت کرنے کا متحمل نہیں۔ کیا اس کے دل پر کاری ضرب لگنے کیلئے یہ کافی نہیں کہ اسے ’’بیوہ‘‘ کا لقب دے دیا جائے اور رحم وکرم سے نا آشنا معاشرہ اسے اسی لفظ سے یاد کرنے لگے؟ کیااس کیلئے یہی درد والم کم ہے کہ وہ اپنے یتیم بچوں کے چہروں پر مایوسی وناامیدی کی پرچھائیاں دیکھتی اور ان کے مستقبل کو تاریک دیکھ کر کانپتی رہے، کیا اس کیلئے یہی ملال کم ہے کہ وہ جب آج کا موازنہ کل سے کرتی ہے، تو اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب جاری ہوجاتا ہے، جو رکنے کا نام نہیں لیتا؟ کیا ماضی کی یادیں اس کے پیروں تلے سے زمین کھسکا نے اور اس کے دل کو پاش پاش کرنے کیلئے کافی نہیں ؟ کہ کل وہ اور اس کے بچے کیسے تھے اور کس قدر نعمت وخوش عیشی میں اور اپنی زندگی پر شاداں ومطمئن تھے، اور آج ان کے رکھوالے اور بچوں کے محافظ کے رخصت ہوجانے کے بعد کہاں پہنچ گئے ہیں؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بیوائوں کو صرف ہمدردی ورحم دلی ہی نہیں چاہیے بلکہ ہمیں ان کی عزت واحترام ، تعظیم وتوقیر اور بلند مقام ومرتبے کا احساس ہونا چاہیے ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کا سہار ا بنیں، ان کی طرف دست تعاون بڑھائیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق انہیں اور ان کے بچوں کو خوش کرنے کی کوشش کریں، ان کی زندگی کے سفر کو راحت وآرام سے پرسکون وخوش بخت بنائیں اور اگر وہ شادی کے قابل ہوں توان کیلئے مناسب شریک حیات کا انتظام کریں جو انہیں اور ان کے بچوں کا سہارا بنے اور ان کی زندگیوں کو خوشی سے بھر دے۔ ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ کسی بھی انسان کی زندگی ابتلا وآزمائش سے خالی نہیں ہوتی البتہ ان آزمائشوں کی نوعتیں مختلف ہوتی ہیں، اور اللہ کا نظام یکساں ہے اور وہ ہو کر رہتا ہے، اس میں کوئی تخلُّف نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا اوراس کے دستور کو منتقل ہوتا ہوانہیں پائیںگے۔‘‘(فاطر43)۔ چشم زدن میں بیوی کی زندگی کا سفر تبدیل ہوجاتا ہے۔اس دنیا سے شوہر کے رخصت ہوتے ہی بیوی بیوہ ہوجاتی ہے، انسانی زندگی میں جتنی بھی بلائیں ومصیبتیں اور امتحان وآزمائشیں آتی ہیں، اُن میں کسی عورت کیلئے یہ سب سے بڑی آزمائش ہوتی ہے، خاص طور پر جبکہ بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو بے پناہ چاہتا ہو اور دونوں ایک دوسرے سے حد درجہ الفت ومحبت رکھتے ہوں۔ شوہر کھودینے پر وہ محسوس کرتی ہے کہ اس نے اپنی سب سے محبوب وعزیز اور راستہ کے ہمراہی ورفیق کو بیچ راستہ میں ایسی جگہ چھوڑ دیا ہے جو اس کیلئے اجنبی اور منزل سے دور ہے جبکہ وہی اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا، اس کی پناہ گاہ تھا، جہاں وہ اپنی زندگی کے ہر موڑ پر اور مشکل گھڑی میں پناہ لیتی تھی، وہ اس کی عزت وآبرو کا محافظ تھا اور امن وسلامتی کا قلعہ اور اس کی محبت اور فریفتگی کا سرچشمہ تھا۔ اس آزمائش کی سختی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ اس کے پاس لڑکے اور لڑکیاں ہوں اور ان کی تربیت کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آگئی ہو اور کھانا پینا، لباس وپوشاک ، تعلیم وتربیت اور اس جیسی زندگی کی دوسری ضروریات کی تکمیل بھی اسکے فرائض میں شامل ہوگئی ہو۔ ان کی مصیبت اور درد واَلم اس وقت اور بھی دوبالا ہوجاتے ہیںجبکہ گھر والوں کا دل ان سے تنگ ہوجائے اور وہ ان سے بے رخی برتنے لگیں اور انہیں نظر انداز کرنے لگیں، یا بیوی عین جوانی میں بیوہ ہوجائے، جبکہ اس سے پہلے خود اس کے ماں باپ رخصت ہوچکے تھے، اور ان کا غم بھی اسے سہنا پڑا تھا، اور کوئی ایسا بھائی نہیں رہا تھا جو ان کی دیکھ بھال کرسکے۔ بیوہ ہونے والی عورت اگر اپنے میکے سے بھی بے سہارا ہو تو اسے یقینی طور پر احساس ہوتا ہے کہ اس کی زندگی تاریک ہوچکی ہے اور اس زندگی سے موت بہتر ہے۔ نہ سسرال والے اسے سہارا دینا چاہتے ہیں، نہ میکے میں ماں باپ یا بھائی ہے جو ان کے اور ان کے بچوں پر توجہ دے سکے، اور ان کی ضروریات کی تکمیل کرسکے، اور زندگی کے دبائو وبوجھ کو ہلکا کرسکے، یا ان کے میکے میں بھائی بہن اور دوسرے تو ہوں مگر وہ خود اپنی بیوی بچوں میں مست ہوں، بیوی کے غلام بن کر اپنے ماں باپ ، بھائی بہن کو نظر انداز کئے ہوئے ، اور سسرالی رشتہ داروں پر فدا ہوں، اور بہن کو مشکلات میں مبتلا دیکھنے اور بیوگی کی زندگی کا بوجھ اٹھانے کے باوجود ان کا سخت دل نرم نہ ہو، اور وہ بہن کو وحشت ناک ودشوار گزار زندگی کی راہ پر چلتے اور بھٹکتے ہوئے چھوڑ دے۔اس حالت میں یہ بیوہ محسوس کرتی اور یہ درد اسے ستانے لگتا ہے کہ وہ اس بھری دنیا میں تنہا ہے ، اس کا کوئی سہارا نہیں۔ ان بیوائوں کے خوف ودہشت میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے، جب وہ اپنے ارد گرد کچھ مریض دل لوگوں کو دیکھتی ہیں جو اس پر بری نظر ڈالتے اور شوہر کی وفات سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں، خاص طور پر جبکہ وہ دولت مند اور حسین وخوبصورت بھی ہو۔ آج ہمارے معاشرے کی صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی عورت جوانی میں بیوہ ہوجائے اور وہ حسین وخوبصورت بھی ہو، تو انسانی بھیڑئیے اس کے پیچھے اس طرح پڑ جاتے ہیں جیسے اس کے اندر انسانیت ہے ہی نہیں، اور نہ وہ اس قابل ہو کہ اس کی عزت واحترام کی جائے، اور اس کی آبرو کی حفاظت کی جائے۔ ہر کوئی ان بیوائوں پر بری نظر ڈالتا ہے، اسے یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کی بیوی یا اس کی بیٹی بہو، اور بہن بھی بیوہ ہوسکتی ہے، تو کیا اسے بھی ایسی نگاہ سے دیکھ سکتاہے۔ بیوائیں اپنی بے کسی وپاکدامنی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے بہت قریب ہوجاتی ہیں، اس لئے مردوں کو ان بیوائوں پر بری نگاہ ڈالنے سے بچنا اور اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی عمدہ بات کہی ہے: ’’پاکدامن رہو ، تمہاری عورتیں پاکدامن اور محفوظ رہیںگی، جو مسلمانوں کے مناسب نہیں ، اُس سے بچتے رہو، زناکاری وبدکاری قرض ہوتا ہے، اگر تم نے یہ قرض لیا تو اس کی ادائیگی تمہارے گھروں والوں پر ہوگی اور اسے تمہاری بیوی بچیوں یا بہنوں سے وصول کیا جائیگا۔ مردوں کی حرمت پامال کرنے والو اور محبت ومودت کے راستوں کو کاٹنے والو!تمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ معصیت کے ساتھ تم عزت کیساتھ کبھی نہیں جی سکتے ، اگر تم معزز وباعزت خاندان سے ہوتے تو تم کبھی مسلمان کی حرمت پامال نہیں کرتے، جو زنا کرتا ہے، اس کے ساتھ زنا کیا جاتا ہے، اگر تم عقلمند ہو تو یہ سمجھو کہ جو قوم میں2ہزار درھم کے عوض زنا کرتا ہے، اس کے گھروالوں کیساتھ ایک درھم میں زنا کیاجاتا ہے۔‘‘ (مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں)

شیئر: