Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم پرسنل لا بورڈ نے 3طلاقوں پر حکومتی سوالنامہ مسترد کردیا

نئی دہلی- - -  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے 3 طلاقوں سے متعلق مسئلے پر لا ء کمیشن کے سوال نامے کو فراڈ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ بورڈ کے چیئرمین ولی الرحمن اور دیگر نے پریس کلب میں جمعرات کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار اپنی ناکامیاں چھپانے کیلئے اس معاملے کو چھپا رہی ہے اور یکساں سول کوڈ پر اس نے داخلی جنگ چھیڑ دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کیلئے یونیفارم سول کوڈ صحیح نہیں کیونکہ ملک میں رنگ برنگی ثقافتیں پائی جاتی ہیں جن کو چھیڑنا فاش غلطی ہوگی۔ ان مختلف ثقافتوں اور ملکی تکثیریت کو ہم سب کو عزت کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ 3 طلاقوں سے متعلق لا کمیشن نے جو سوال نامہ جاری کیا ہے اور اس پر عوام کی رائے طلب کی ہے اس کا بائیکاٹ کیا جائیگا۔ بورڈ کے چیئرمین کے مطابق مسلمان آئین کے ذریعے کئے گئے ایک سمجھوتے کے تحت اس ملک میں رہ رہے ہیں جبکہ مودی حکومت اسلامی قوانین اور ملک کی رنگ برنگی ثقافت کو تباہ کرنے کے در پے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی تکثیریت کے احترام میں ہی قوم کی بقاء ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا یکساں سول کوڈ ملک میں رہنے والے افراد پر مسلط نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ مختلف عقائد، مذاہب ، برادریوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں لہذا حکومت ان پر واحد نظریہ نہیں تھوپ سکتی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں نے حکومت کی منشا پر سوال کھڑے کئے ہیں۔ پرسنل لا بورڈ کے رکن کمال فاروقی نے کہا کہ مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس کا مقصد خواتین کو حقوق فراہم کرنا نہیں بلکہ اس سے وہ سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بورڈ کی طرف سے حکومت کو پہلے ہی ایک مکتوب روانہ کیاگیا تھا کہ حلف نامہ دائر کرنے سے پہلے وہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم مسلم پرسنل لا بورڈ کا موقف بھی معلوم کرے۔ فاروقی نے کہا کہ بورڈ حکومت سے کوئی ٹکراؤ نہیں چاہتا لیکن اگر حکومت یکطرفہ فیصلہ کرے گی تو لوگوں کا ردعمل ایک فطری بات ہے۔ بورڈ بھی عدالت میں اپنا موقف پیش کرے گا اور یقین ہے کہ آئین میں جو گنجائش رکھی گئی ہے اسکے مطابق بورڈ کے حق میں فیصلہ آئیگا۔ بورڈ کے چیئرمین نے یہ بھی بتایا کہ یکساں سول کوڈ پر جو سوال اٹھائے گئے ہیں ان کا تعلق ہر برادری اور مذہب سے ہے ،انہیں صرف مسلمانوں سے ہی منسوب نہیں کیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہندوستان میں 200-300 پرسنل لاء نافد ہیں لہذا لاء کمیشن نے جو سوال نامہ جاری کیا ہے وہ مسلم پرسنل لاء تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیئے تھا۔

شیئر: