Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیک بیوی ، دنیا کی بہترین متاع

حدیث میں اچھی اور نیک عورت کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیا گیا ہے ۔عورت کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ جب اس کا خاوند اسے دیکھے تو متبسم چہرے سے اس کا دل خوش کر دے۔حضرت امِ سلمہؓ فر ماتی ہی کہ نبی نے فرمایا: ’’جو عورت اس حال میں وفات پائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی اورخوش ہو وہ جنت میں داخل ہو گی۔‘‘ اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ جس عورت کا خاوند اس سے ناراض ہو اسکی نماز قبول نہیں ہوتی(الحدیث)۔ بعض خواتین اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ہمارے معاشرتی رسومات سے متاثر ہو کر اپنے خاوند کو دوسرے نکاح سے روکنے کی کوشش کرتی ہیں جسکی وجہ سے بعض خاندان فتنے اور فساد سے دوچار ہوتے ہیں ۔

مسلمان خاتون کو سوچنا چاہیے کہ جس رب نے مردوں کو ایک سے زیادہ اور4 تک بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے ،وہ رب ہم سے زیادہ ہماری مصلحتوں اور ضروریات سے واقف ہے ۔یہ بات بھی درست نہیں کہ صرف اسی مرد کو دوسری شادی کرنی چاہیے جس کی اہلیہ بانجھ ہو یاکسی خطرناک مرض میں مبتلا ہو جائے ایسانہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرد کیلئے جو ایک سے زیادہ بیویوں کے حقوق ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اسے عام اجازت دی ہے لہذا جو خواتین مردوں کے دوسرے نکاح میں رکاوٹ ڈالتی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے ۔ عرض کیا جا چکا ہے کہ مرد اور عورت کے باہمی تعلق کو مضبوــط اور قائم رکھنے والی چیز دونوں میں باہمی الفت و محبت اور ایک دوسرے کیلئے جزبہ ایثار اور قربانی ہے لیکن اگر کبھی اس تعلق میں دراڑ یں پڑنا شرع ہو جائیں تو اسلام نے اس کیلئے راستے بھی تجویز کیے ہیں ۔مرد کو طلاق کا اختیار دیا گیا ہے لیکن اس سے پہلے اصلاحِ احوال کیلئے گھر کا سرپرست ہونے کی حیثیت سے یہ ہدایت کی گئی ہے اگر عورت مرد کے حقوق کی ادئیگی سے اعراض کرتی ہے یا خودسری اور بغاوت پر اتر آئی ہے تو ایسی صورت میں اسے نصیحت کی جائے اور ہر طرح سے سمجھانے کی پوری کوشش کی جائے۔اگر یہ طریقہ کارگر ثابت نہ ہو تو پھر عورت کو بستر پر تنہا چھوڑ دیا جائے یعنی ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے اس سے تعلقِ زن و شو نہ رکھا جائے۔ یقینا حکیمِ مطلق قادر وقیوم ذات نے جو تراکیب بتائی ہیں ان میں ہمارے لئے بڑے ہی فوائد ہیں ۔اگر یہ نسخہ بھی کارگر ثابت نہ ہو تو پھر ہلکی مار مارنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن چہرے پر مارنا سخت منع ہے اور ایسی ضرب جس سے ہڈی ٹوٹ جائے یا زخم آ جائے اس کی بھی ممانعت ہے ۔یہاں مارنے سے مراد دراصل ایسی ہلکی سزا ہے جو عورت کی انا کو مجروح کر کے اصلاح کی طرف مائل کرنے میں مدد دے۔

جو لوگ اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر عورتوں کو گالی گلوچ اور زدوکوب کرتے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسولکی نظر میں انتہائی ناپسندیدہ لوگ ہیں ۔ ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں کا مارتے ہیں وہ ہر گز اچھے لوگ نہیں ۔آخری چیز جس کی ہدایت اس کے بعد کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی طرف سے منصف مقرر کئے جائیں جو باری تعالیٰ کے خوف کے ساتھ دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد حق اورانصاف کے مطابق فیصلہ کریں۔کسی مرد کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ عورت کو لٹکائے رکھے ۔نہ طلاق دے اور نہ ہی اس کے حقوق ادا کرے ۔یاد رہے جو لوگ ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں وہ سخت گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایک اہم ہدایت اس باہمی تعلق کوجوڑے رکھنے کیلئے یہ بھی دی گئی ہے : ’’کوئی مومن کسی مومنہ عورت سے نفرت نہ کرے ،اگر وہ تمہیں نہ پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اسی میںتمہارے لئے خیرِکثیر رکھی ہو۔ ‘‘(القرآن)۔ حدیث سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اگر کسی عورت کی کوئی بات تمہیں نا پسند ہو توعفو درگزر سے کام لو ،کوئی دوسری پسندیدہ صفت بھی تو اس میں ہو سکتی ہے۔مرد اور عورت دونوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کوئی بھی انسان کامل نہیں ہوسکتا۔بعض مرد حضرات عورتوں کی کمزوریوں پر تو خوب نظر رکھتے ہیں لیکن اپنی سیاہ کاریوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں یہ بھی سخت نا پسندیدہ عمل ہے۔

شیئر: