Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عبادت کی لذت ، رزق حلال سے مشروط

 

محمد کبیر بٹ۔ ریاض

 

اسلا م مکمل نظام ِ زندگی اور کا مل ضا بطۂ حیا ت ہے ۔ اس دینِ حنیف نے انسانوںکو زندگی گزا رنے کیلئے جو رہنما ئی فرما ئی ہے، اس سے زندگی کا کو ئی پہلو مستثنیٰ نہیں ، حتیٰ کہ نبی نے کھا نے پینے اورقضائے حاجت سے لے کر رزق کمانے، خرچ کرنے اور تجارت اور کا رو با ر سے لے کر سیا ست اور نظام حکو مت تک ہر معا ملے میں پو ری رہنما ئی فرما ئی ہے ۔ اس مختصر تحریر کے ذریعے ہم صرف کھا نے پینے کے شرعی آداب کا جا ئزہ پیش کریں گے ۔ رمضان المبارک میں اجتما عی افطا ریوں کا بڑے پیمانے پر اہتما م ہو تا ہے جن میں مشا ہدہ کیا گیا ہے کہ لوگوں کی اکثریت کو کھا نے پینے کے شر عی آدا ب کا علم نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "اے لو گو ! زمین میں جتنی بھی حلا ل اور پا کیزہ چیز یںہیں انہیں کھا ؤاور شیطا نی را ہ پر مت چلو، وہ تمہا را کھلا دشمن ہے۔" (البقرہ 168 )۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے: "اے ایمان وا لو!جو پا کیزہ چیزیں ہم نے تمہیںدے رکھی ہیں،انہیں کھا ؤ پیو اور اللہ کی شکر گزری کرو ، اگر تم اسکی عبادت کرنیوالے ہو ۔"(البقرہ172 )۔ ان آیا تِ بینا ت میں اہل ایما ن کو سب سے پہلی تا کید کی گئی ہے کہ وہ حلا ل اور پا کیزہ رزق کا انتخا ب کریں اور حرا م سے بچیں ۔ جن حرا م اشیا ء سے اللہ تعالیٰ نے انسا نوںکو منع فرما یا ہے، وہ تجربے اور مشاہدے سے بھی ثا بت ہو چکا ہے کہ انسان کی اخلا قیات اور اس کے اعمال کو بربا د کر کے ر کھ دیتی ہیں اور آخرت کی بربادی تو یقینی ہے ہی ۔آج معاشرے میں اخلاقی بے راہ روی اور جرائم کی کثرت کا بہت بڑا سبب رز ق حر ام کی فراوانی ہے۔ حرام دوطر ح کے ہوتے ہیں : ایک وہ چیز یں جن کا وجود ہی شریعت کی رو سے حرام قرار پایا ہے، جیسے سود، خنزیر ، شراب ، مرداراور حرام جانور وغیرہ ۔ حرام کی دوسری قسم وہ ہے جس میں آدمی رزق کے ذرائع اور وسائل میں حرام راستوںکو اختیار کرتا ہے۔ مثلاًرشوت ، جھوٹ اور بد دیانتی ، دھو کا دہی ، چوری،ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی، بھتہ خوری، ناجائزٹیکس، حرام اشیاء کی خرید و فروخت ، قحبہ گری، فحاشی کے جملہ ذرائع اور وسائل اور کام چوری وغیرہ ۔ اللہ کے نبی نے فرمایا: " لوگوں پر ایک وقت ایسا آ ئے گا کہ آدمی کو اس کی پرواہ نہیں ہو گی کہ اس کا رزق حلال ہے یا حرام۔" (بخاری )۔ یعنی حلال و حرام کی فکر ہی ختم ہو جائیگی جیسا کہ آ ج کل ہم دیکھ رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں کیلئے شدید وعید سنائی گئی ہے: "جس کو اس بات کی پرواہ نہ ہو کہ اس کا رزق حلال کا ہے یا حرام کا تو اللہ کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ وہ جہنم میں کس دروازے سے داخل ہوتا ہے۔" اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تمام باطل ذرائع سے رزق کے حصول سے منع فرمایا ہے: "اے ایمان والو !آپس میں ایک دوسرے کے مال حرام اور ناجائز طریقوںسے مت کھائو ۔" مسند احمد میںنبینے فرمایا : " حرام سے پلنے والا جسم جہنم ہی کے لائق ہے۔" آپ نے ہدایت فرمائی ہے کہ اگر تم حرام سے بچنا چاہتے ہو تومشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرو ، یعنی جس چیز کے حلال یا حرام ہونے کیلئے واضح دلیل نہ ہو بلکہ اس کے متعلق شبہ پڑجائے ،اس کو بھی چھوڑدو جیسا کہ سلف صالحین کا طریقہ تھا۔ کھانے پینے کے معاملے میںاسراف کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا: " کھائو اور پیو مگر اسراف (فضول خر چی)مت کرو ،بے شک فضول خرچی کو اللہ پسند نہیں کرتا۔ فضول خرچی یہ ہے کہ انواع و اقسام کے کھانے دستر خوان پر جمع کر لئے جائیں اور پھر ان کھانوں کوکوڑے میںپھینک دیا جائے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میںبڑی مقدار میںکھاناضائع کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور رزق جیسی عظیم نعمت کی بربادی ہے ۔ جو لوگ قحط جیسی مصیبت کا شکار ہیں ان سے ہمیں عبرت حاصل کرنا چاہیے ۔ مندرجہ بالا سطور میں طعام و شراب کے متعلق جو رہنمائی ہمیںملتی ہے ،اس کا خلاصہ یہ ہے :رزق حلال کمانا اور کھانا،حرام سے بچنا ، اللہ کی نعمتوں کی شکر گزاری کرنا اور کھانے پینے کے معاملے میں اسراف (فضول خرچی) سے بچنا ، آخری بات یہ بتائی گئی ہے کہ صرف اس رب کی عبادت کرو ۔ عبادت اور رز ق کا تعلق لازم اور ملزوم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پس تم اس گھر (بیت اللہ )کے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھوک میں کھانا دیا او ر حالت ِخوف میں امن و امان کی نعمت عطا فرمائی ۔" عبادات کی لذت اور قبولت کے ساتھ ایمان کی حلاوت رزق حلال سے مشروط ہے ۔ نبی نے فرمایا : " حرام کا لقمہ کھانے والے کی40دن تک کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔ " اور فرمایا: "جس نے 10 درہم کے کپڑے بنائے جن میں ایک درہم حرام کا تھا ،جب تک اس کے جسم پر ہوں گے ،اس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہو گی۔" (مسند احمد)۔ حضرت سعدؓ نے سوال کیا مجھے کوئی ایسی تدبیر بتائیں کہ مستجاب الدعوات (جس کی دعائیںقبول ہوتی ہیں ) بن جائوں۔ آپنے فرمایا: "حلال رزق کھائو اللہ تمہاری دعائیں قبول فرمائے گا۔"(طبرانی) ۔ اس سے ثابت ہواکہ رزق حلال نہ صرف عبادت ہے بلکہ تمام عبادات کی قبولیت کا دارومدار بھی رزق حلال پر ہے۔ نبینے فرمایا : " مسلمان ایک آنت سے کھاتا ہے اور کافر اور منافق7 آنتوں سے کھاتا ہے ۔" (بخاری و مسلم)۔ ایک کافر نبی کے ہاں مہمان تھا ،وہ7 بکریوں کا دودھ پی گیا اور جب مسلمان ہوا تو صرف ایک بکری کا دودھ اس کیلئے کافی ہو گیا ۔ اس موقع پراللہ کے نبینے مندرجہ بالا ارشاد فرمایا۔ شاہانِ عجم میں سے کسی نے ایک ماہر طبیب کومدینہ طیبہ روانہ کیا، وہ طویل عرصے تک اپنے مطب میں بیٹھا کسی مریض کا انتظار کرتا رہا۔ کوئی بیمار اس کے پاس دوا لینے نہ آیاتو لوگوں سے دریافت کیا:تم لوگ بیمار نہیں ہوتے ہو ؟ لوگوں نے جواب دیا : چھوٹا موٹامسئلہ ہو جائے تو گھرو ں میں ہی اس کا علاج کرلیا جاتا ہے۔ پھر لوگوں نے اسے بتایا کہ ہم لوگ اس وقت کھا نا کھا تے ہیں جب شدید بھو ک لگی ہو اور بھو ک با قی رکھ کر کھا نے سے ہا تھ کھینچ لیتے ہیں اس نے بو ریا بستر سمیٹا اور چلتا بنا ۔ یہ تھا ان کی صحت کا را ز ۔ آج منہ کے چٹخورے اور بسیار خوری بہت سے امرا ض کے سبب ہیں ۔ نبی نے فرما یا : "آدمی کو چند لقمے اس کی کمر سیدہی رکھنے کیلئے کا فی ہیں۔ " ابن ما جہ کی روا یت ہے: "جوشخص دنیا میں زیا دہ کھائے گا قیا مت کے دن انتہا ئی بھوکا رہے گا ۔" مسند ویلمی کی روا یت ہے: "بھوک سے زیا دہ کھا نے وا لوں کو اللہ تعا لیٰ نفرت کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔" نبی کا یہ بھی فرما ن ہے: "جن چیزوں کو انسا ن خوب بھرتا ہے اُن میں سے سب سے بُراوہ پیٹ ہے جس کو خوب بھرا جائے۔" آپ کی ہمیں یہ ہدا یت ہے کہ اپنے پیٹ کے 3حصے کیے جا ئیں ، ایک حصہ کھا نے کیلئے دوسرا حصہ پینے کیلئے اور تیسرا حصہ سا نس لینے کیلئے ۔ دو پہر کے کھا نے کے بعد قیلولہ کر نا بھی سنت ہے اگر چہ تھو ڑی دیر کیلئے ہی کیوں نہ ہو ۔ یو نان کے ڈا کٹر وں کی تحقیق یہ ہے کہ دو پہر کے کھا نے کے بعدکچھ دیر کیلئے آرا م کرنا امرا ض قلب سے بچنے کا ذریعہ ہے ۔ ان احادیث سے ہمیں کھا نے پینے کے معا ملے میں رہنما ئی ملتی ہے کہ کھا نا اس وقت کھا یا جا ئے جب بھو ک لگی ہو اور پیٹ بھر کر کھا نے سے گر یز کیا جائے ۔تجربے سے یہی ثا بت ہو تا ہے کہ کم کھا نا جسما نی سکون اور راحت کا با عث ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ بعض لو گ شا دی بیا ہ اور دیگر تقریبا ت کے مو قع پر کھا نے میں بخل اور سخت حرص کا مظا ہر ہ کر تے ہیں ۔ جہا ں انوا ع و اقسا م کے کھا نے لگا کے لو گو ں کو فری ہینڈ دے دیا جاتا ہے وہا ں لو گ تکے اور کبا ب وغیرہ کی پلیٹ بھر تے ہیں حتیٰ کہ کھا کر پلیٹ میں چھوڑ کر اٹھتے ہیں ۔ یہ اسلا می آ دا ب ِطعا م کی کھلی خلا ف ورزی اور خلا ف سنت عمل ہے جس سے بچنا چاہیے ۔ نبیاور صحا بہ کرا مؓہمیشہ سا دہ غذا ئیں استعما ل فرما تے تھے ۔ گھی یا تیل بہت کم استعما ل کر تے تھے۔ آج بھی پا ک وہند کے کھانوں کے مقا بلے میںعربوں کے کھا نوں میں گھی یا تیل او ر مرچ مصالے بہت کم استعما ل ہو تے ہیں۔ خیرالقرون کے لو گ بغیر چھنے ہوئے آٹے کی روٹی استعما ل کر تے تھے جو صحت اور ہا ضمے کیلئے بہت ہی مفید ہے ۔ آ ج مختلف بیما ریوں کی وجہ سے جب ڈاکٹر تیل اور گھی اور مرچ مصا لحے کے استعما ل سے منع کرتے ہیں تو مجبو راً یہ چیزیں چھوڑنی پڑتی ہیں جن کا فا ئدہ کم ہی ملتا ۔ اگر صحت یا بی کی حا لت میں سا دہ غذا اور خورا ک پر تو جہ دی جا ئے تو اس کا زیادہ اور دہرا فا ئدہ حا صل ہو تا ہے ۔استغنا ء اور قنا عت اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے جس کا آج کل فقدان ہے ۔ اللہ کے نبی دعا کرتے تھے کہ یا اللہ ایک دن کھا نے کو دے کھا کر تیرا شکر کروںاور ایک دن فا قہ دے تا کہ صبر کر کے تیری رضا حا صل کرو ں۔آ پ کے گھر میں کئی دن تک چو لھا نہیں جلتاتھا اور دودھ یا کھجو ر وغیرہ پر گزا رہ ہو تا تھا ۔ ایک جنگ کے دو را ن مجاہدینِ اسلا م کے پا س کھا نا ختم ہو گیا حتیٰ کہ لشکر کے سا لا ر نے اعلا ن کر دیا کہ جس کے پا س کھا نے کی جو بھی چیز ہے لے آ ئے ۔سب کچھ جمع کیا گیا اور کئی دن تک رو زا نہ ہر مجا ہد کوایک کھجور اور پا نی روزانہ ملتا تھا ۔ اگر ہما ری طر ح کے بسیا رخور قسم کے پیٹو ہو تے تو بغیر کسی جنگ کے نیم مردہ وا پس لو ٹتے۔ قنا عت کا مطلب یہ بھی ہے کہ روکھی سوکھی ملے یا تر و تا زہ، ہر حال میں دل کی کیفیت ایک رہے اور شکر و صبر سے رب کی رضا حاصل کی جا ئے ۔ اللہ کی نعمتوں کی شکر گزا ری مو منین کا شیوہ ہے اور حقیقی شکرگزا ری یہ ہے کہ جس کا رزق کھا ئیں اسی کے گن گا ئیں ۔ حدیث میں آتا ہے ، اللہ تعا لیٰ فرما تا ہے: " میرا اور میرے بندوں کا معا ملہ بڑا عجیب ہے ،پیدا میں کرتا ہوں اور عبا دت دوسروں کی کرتے ہیں ۔ رزق میں دیتا ہوں اور نذرا نے دوسروں کے دیتے ہیں ۔" اصلی اور عملی شکر گزا ری رب کر یم کی اطا عت و فر ما بر داری کا عمل ہے اور اُس رب کا رزق کھا کر اس کی نا فر ما نی بہت بڑی نا شکری ہے ۔ کھا نے پینے کے معا ملے میں خود غرضی اور بخل سے بچنا چا ہیے صحا بہ کرا م ؓ اور خیر القرون کے مسلما ن خو د غرض اور بخیل نہیں بلکہ اپنی ذات پر دو سروں کو تر جیح دینے وا لے تھے ۔نبی نے صحا بہ کرا م ؓ کی جو تر بیت کی اس کا نتیجہ تھا کہ لو گ جو کچھ پکا تے اس میں پا نی زیادہ ڈا ل کر شوربہ کی مقدا ر میں اضا فہ کر تے تا کہ پڑوسی کو بھی ہد یہ بھیج سکیں اور کبھی ایسا بھی ہو تا تھا کہ ایک آدمی اپنے پڑوسی کو کو ئی ہد یہ بھیجتا، وہ آگے دوسروں کیلئے بھیج دیتا اور کئی گھروں سے ہو کر وہ ہد یہ بھیجنے وا لے کے پا س وا پس لو ٹ آتا ۔ ہر ایک یہ سمجھتا کہ شا ید میرا پڑوسی مجھ سے زیا دہ ضرورت مند ہو ۔ جنگ یر موک کا وا قعہ تو بہت سبق آموز ہے ۔زخمی سپا ہی پا نی ما نگتا ہے، ایک مسلمان سپا ہی پا نی لے کر اس کے پاس پہنچتا ہے تو دوسری طرف سے آوا ز آتی ہے:پیا س ،پیاس۔وہ حا لت نزع میں اسے اشا رہ کر تا ہے کہ دو سرے تک پا نی پہنچاؤ، اس طرح کئی لو گ اللہ کی را ہ میں پیا سے ہی حوض کو ثر تک پہنچ جا تے ہیں لیکن رہتی دنیا تک مثا ل قا ئم کر جا تے ہیں کہ مسلما ن حا لت نز ع میں بھی خود غرض اور نفس پرست نہیں ،ایثا ر و قربا نی کر نے وا لا ہو تا ہے ۔آ ج ہر طر ف چھینا جھپٹی کے مظا ہر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔جن کے پیٹ بھرے ہو ئے ہیں وہی سب سے زیا دہ بھو کے ہیں۔ بینک او رادارے دیوا لیہ ہورہے ہیں اور ما ل وا لوں کے ما ل میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔ خود غرضی اور بخل کی مثالیں نچلی سطح تک پہنچ چکی ہیں ۔ سعودی عرب میںاہل خیر حضرا ت نے مسا جد میں ٹھنڈے پا نی کا انتظا م کر رکھا ہے تا کہ مسا جد میں نما زی اس سے مستفید ہوں۔ تقریباًہر جگہ فریج پر لکھا ہو ا ہے یا گلا س کی 2تصویریں بنا کر ان پر کراس (×)لگا دیا گیا ہے اور ایک گلا س کی تصویرپر ٹِک کا نشان لگا ہوتا ہے جس کا صاف مطلب ہوتا ہے کہ ایک آدمی ایک گلاس لے کر جائے ۔ اکثر لوگ 2 یا3 گلاس لے جاتے ہیں اور بعض کو جیبوں میں ڈالتے بھی دیکھا گیا ہے ۔ یہ خود غرضی اور بخل کی بدترین مثال ہے ۔ ہر انسان کو یہ سوچنا چاہیے کہ شاید دوسرا مجھ سے زیادہ پیاسا ہو، اگر ایثار نہیں کرسکتے تو کم از کم دوسرے کا حق تونہ ماریں ۔ ہم اُس نبی کے امتی ہیں جن کے بارے میں سیدہ حلیمہ سعدیہ ؓ فرماتی ہیں کہ محمدؐ بن عبداللہ نے شیرخواربچہ ہوتے ہوئے بھی کبھی دوسری چھاتی کو منہ نہ لگایا اور ایک چھاتی سے آپ دودھ پیتے تھے ،دوسری سے سیدہ حلیمہ کے بیٹے پیتے تھے ۔ کھانے کا پہلا ادب یہ ہے کہ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھولئے جائیں ۔ ماڈرن لوگ جو ہاتھ کا استعمال کم اور کانٹے چمچے زیادہ استعمال کرتے ہیں، وہ ہاتھ دھونے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے حالا نکہ ہاتھ ہر حال میں استعمال کرنا ہی پڑتا ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ سنت کے مطابق عمل کیا جائے جس کی بڑی ہی خیرو برکت ہے اور اجر و ثواب بھی ۔ ترمذی شریف کی روایت ہے: ’’ کھانے سے پہلے ہاتھ منہ دھونے یا وضو کرنے والا کبھی مفلس و تنگ دست نہیں ہوتا۔ ‘‘ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کے بعد تو لئے یاٹشو سے صاف نہیں کرنے چاہئیں البتہ کھانے کے بعدہاتھ دھوکر صاف کیے جاسکتے ہیں ۔ ایک طبی جریدے ’’ میڈیکل ڈائجسٹ ‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ 14 سو سال قبل بیکٹیریا لوجی (علم جراثیم ) کا کوئی وجود نہ تھا۔ معلوم ہوتا ہے یہ تعلیم دینے والا ا س علم کا بہت بڑا ماہر تھا جس نے کھانے سے قبل ہاتھ دھو کر صاف کرنے سے منع کیا اور بعد میں صاف کرنے کی اجازت دی۔ہا تھ سے کھا نا بہتر اور افضل ہے، با عث بر کت اور ثوا ب بھی ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہ لیا جا ئے کہ کھا نے میں کا نٹے چمچے کا استعما ل کو ئی نا جا ئز فعل ہے۔ بعض چیزیں جیسے سویٹ وغیرہ تو چمچے سے ہی آسا نی سے کھا ئی جا سکتی ہے اس لئے ضرورت کے وقت اس کے استعما ل کی کو ئی مما نعت نہیں۔کھا نا شرو ع کر نے سے پہلے بسم اللہ ضرور پڑھیں۔اسکی بڑی ہی خیر و بر کت ہے بلکہ مسلمان کو ہر کا م بسم اللہ سے شروع کر نا چا ہیے ۔ (جاری ہے)

شیئر: