Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غیر ریاستی عناصر کو لگام لگانا ضروری

 
 
 
حکومت اور عسکری اداروں کو 2قدم آگے بڑھنا ہوگا
 
 
 
 
 
 
 
ارشادمحمود
 
 
 
 
 
 
 
سینیئر صحافی سیرل المیڈانے اپنے انگریزی اخبار میں ایک خبر کیا شائع کی کہ ایوانِ اقتدار کے چاروں ستون لرزنے لگے۔سیرل پر بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کرکے حکومت نے جگ ہنسائی کا خود ہی خوب ساماں کیا۔تردید پر تردید جاری ہورہی ہے لیکن تیر کمان سے نکل جائے توکف ِ افسوس ملنے کے سوا کوئی ترکیب کارگرنہیں ہوتی۔
سیرل المیڈا کی خبر نے یہ موقع ضرور پیدا کیا ہے کہ ریاستی ادارے اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں۔دیانتداری سے ملک کو درپیش مسائل کا تجزیہ کریں۔ان محرکات یا اسٹراٹیجک اثاثوں کے فوائد اور نقصانات کا ازسر نو جائزہ لیں جنکے سبب دنیا پاکستان سے بےزار اور الگ تھلگ ہوچکی ہے بلکہ اسے بعض اوقات دنیا کےلئے دردسر قراردیاجاتاہے۔
سرکاری بیانات پر یقین کرلیا جائے تو ہوسکتاہے کہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں حکومت اور عسکری قیادت کے مابین طالبان، جماعت الدعوة، جیش محمد اوردیگر امور پر کوئی بحث نہ ہوئی ہو لیکن اس کامطلب ہرگز یہ نہیں کہ پاکستان کو بطور ریاست ان مسائل کا سامنا ہی نہیں۔
چند دن قبل حکومت کی طرف سے بیرون ملک بھیجے گئے سفارتی نمائندوں کو واشنگٹن، لندن، برسلزاور دنیا کے تمام اہم دارالحکومتوں میں ایک ہی سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ پاکستان کی سرزمین کیوں افغانستان اور ہند کےخلاف استعمال ہورہی ہے اور مذکورہ بالاگروہ کس کی ایما پرڈنکے کی چوٹ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں؟اس اعتراض پربغلیں جھانکنے کے سوا سفارتی نمائندے اورکر بھی کیاسکتے تھے؟
پاکستان کو جس علاقائی اور عالمی تنہائی کا سامنا کرنا پڑرہاہے، اسکی ایک بڑی وجہ خارجہ پالیسی پر منتخب حکومت کا عدم کنٹرول ہے۔ عوامی مینڈیٹ کے باوجود وزیراعظم نوازشریف کےلئے حالات ایسے بنادیئے گئے کہ وہ بتدریج خارجہ امور میں مداخلت سے تائب ہوتے گئے ۔عالم یہ ہے کہ افغانستان، ایران،امریکہ، بنگلہ دیش سب پاکستان سے شاکی ہیں۔ ہندکےساتھ تعلقات روزاول سے ہی کشیدہ ہیں لہذا اس سے خیر کی توقع بعید ہے لیکن یہ باقی دنیا کو کیا ہوا؟ہر ایک ڈانگ لے کر ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے۔چین جو پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کررہاہے، باربارمشورہ دے رہاہے کہ اپنا گھرٹھیک کروگے تو باہر کی دنیا بھی خاطر میں لائےگی۔داخلی استحکام نہ ہو تو بیرونی دنیا کےلئے داخلی معاملات میں مداخلت کرنا سہل ہوجاتا ہے۔
سیرل کی خبر میں جن مسائل کا ذکر کیا گیا ہے، وہ امور مسلسل زیر بحث آتے رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ہو یا ن لیگ کی، سب کا ایک ہی موقف ہے کہ نان اسٹیٹ ایکٹرز کو فراہم کردہ سہولتوں اور سرپرستی سے سبکدوش ہونے کا وقت آگیا ہے۔پاکستان اب یہ بوجھ مزید برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
کل تک ن لیگ نہ صرف نان اسٹیٹ ایکٹرز(غیر ریاستی عناصر)کے ناز و نخرے برداشت کرتی تھی بلکہ اسکے کچھ لیڈران تنظیموں کےساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتے اور مخالفین پر اپنی دھاک جماتے تھے لیکن اب ن لیگ کی حکومت کوادراک ہوچکاہے کہ ریاستی عملدار ی اورملک کی معاشی ترقی کےلئے ان عناصر کو لگام دیئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ملکی ترقی مانگے تانگے کے قرضوں اور امداد سے ممکن نہیں بلکہ اس کےلئے کثیرغیر ملکی سرمایہ کاری اور مہارت درکارہے۔یہ سرمایہ کاری اس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک کہ امریکہ اورمغربی دنیا کے ساتھ تعلقات سازگار نہ ہوں۔دنیا کے مالیاتی اداروں میں اکثر ان کے اشارہ ¿ابرو کے منتظر ہوتے ہیں۔
خلیجی ممالک سے ہماری دوستی کے قصے بہت لیکن وہ بھی عالمی حالات اورماحول کونظراندازکرکے پاکستان کی مدد کو نہیں آسکتے ،وزیر اعظم نوازشریف اوروزیراعلیٰ شہبازشریف دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں اسی نوع کے سوالات انکا تعاقب کرتے ہیں۔اگر انہیں اگلے عام الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو ملک کے بڑے بڑے مسائل بالخصوص بجلی کی کمیابی، روزگار کے ذرائع میں اضافہ اور انفرااسٹرکچر کی تعمیر کےلئے بے پناہ مالی وسائل فراہم کرنا ہونگے۔یہ وسائل غیر ملکی سرمایہ کاری سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاری کی کنجی سیاسی استحکام اور سرحدوں پر امن کے ہاتھ میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ ان گروہوں کا کیا کیا جائے جو گزشتہ کئی عشروں سے ریاستی اداروں کی ناک کا بال اور ہاتھ کی چھڑی بنے ہوئے ہیں ؟ ٹکراو¿سے ملک کے اندر خلفشار پھیلنے کا اندیشہ ہے۔حکمت کا تقاضا ہے کہ مزید محاذ نہ کھولے جائیں، خاص کر اسوقت جب سرحدوں پر کشید گی ہولیکن ان تنظیمات کو کھلی چھٹی بھی تو نہیں دی جاسکتی۔ایسا کرنے سے دنیا کا عتاب نازل ہوتاہے اور وہ ہندکی ہمنوا بن جاتی ہے۔ ہند مظلومیت کی چادر تان کر کشمیر میں ظلم ڈھاتاہے اور دنیا خاموشی سے سب کچھ نظرانداز کردیتی ہے۔
ریاستی اداروں کےلئے دوٹوک فیصلہ کرنا سہل نہیں۔فی الحال ایک ہی راستہ نظر آتاہے کہ ان تنظیمات کے پَر پرزے کاٹے جائیں، جوعناصر سیاسی اورسماجی کاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں راستہ دیا جائے اور جو گروہ پُرتشدد کارروائیوں سے باز نہیں آتے اورریاست کی عملداری کو قبول نہیں کرتے انہیں قابو کرنے کےلئے تمام تر تدابیر اختیار کی جائیں۔طاقت کا استعمال سب سے آخری ہتھیار ہونا چاہیے لیکن ملک کے اندر کسی گروہ یا شخصیت کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اپنی ریاست قائم کرے۔ملکی قوانین کا مذاق اڑائے اور ریاستی اداروں کو جوتی کی نوک پر رکھے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت بہت سارے اچھے کام ہوئے جن کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔آج پاکستان میں امن و امان بحال ہوچکا ہے لیکن اب حکومت اور عسکری اداروں کو 2قدم آگے بڑھنا ہوگا اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کےلئے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔
سیرل المیڈا کی خبر نے ملکی سطح پر ان موضوعات پر بحث ومباحثے کا ایک غیر معمولی موقع فراہم کیا ہے جن پر عمومی طور پر اہل دانش گفتگو سے گریز کرتے ہیں۔پاکستانی ریاست کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں منتخب حکومتوں یا پارلیمنٹ کی بالادستی اور عسکری اداروں کے ساتھ تعلقاتِ کار میں توازن اور ان کے دائرہ¿ کار کے ازسر نو تعین کا مسئلہ مدتوں سے التواءکا شکارہے۔سرکاری سطح پر اس موضوع پر لب کشا ئی اس لئے نہیں کی جاتی کہ کئی اداروں اور پارلیمنٹ کے مابین کشیدگی پیدا نہ ہوجائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اداروں کی مضبوطی اور جمہوریت کے استحکام اورپارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتا جب تک ملک کے اندران موضوعات پر کھل کر،بغیر کسی ہیجان اور فتوے بازوں کے خوف کے بحث نہیں کی جاتی۔
سیرل المیڈا کی ذات یا انکے اخبار کی ساکھ پر انگلی اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سیرل ایک سقہ بند اور ذمہ دار صحافی ہیں۔اس اخبار کے بارے میں دوست دشمن سب کہتے ہیں کہ یہ ایک معتبر اخبار ہے جو خبر کی صداقت چانچے بغیر کچھ نہیں چھا پتا۔ یہ وہ خوبی ہے جسکی بدولت قارئین کی ایک بڑی تعداداس پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کرتی ہے۔اس لئے حکومت سے گزارش ہے کہ وہ اخبار سے سینگ اڑانے اور سیرل جیسے ذہین تجزیہ کاروں کی تضحیک کرنے کے بجائے اپنے منجھی تھلے ڈانگ پھیرے۔
******
 
 
 
 

شیئر: