Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی گومگوں سیاست

 
 
 
 
 
 
اسلام آباد کا دھرنا شروع کرکے اب انتخابی مہم کا آغاز کررہے ہیں
 
 
 
 
 
 
سید شکیل احمد 
 
 
 
 
 
ہند کی اس وقت اسٹراٹیجک پالیسی یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے پر دنیا کی توجہ ہٹ جا ئے اور عالمی رائے عامہ کو پاکستان کی بدنا می میں الجھا دیا جا ئے چنا نچہ یہ بات ہندکے مفاد میں ہے کہ پاکستان میں عدم استحکا م کی فضا قائم ہو ، سرمایہ کا ری بالخصوص بیر ونی سرما یہ کا ری متاثرہو ، سی پیک منصوبہ کالا باغ کی طر ح متنازعہ بن جائے ، پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیدیا جا ئے چنا نچہ کشمیر کے واقعات کو پاکستان کی مداخلت کے ساتھ جوڑنے کی سعی لا حاصل کی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کو عالمی سطح پر بھی انتھک توجہ کی ضرورت ہے اور سب سے زیادہ متحرک ہو نے کی بھی تاہم اگر اسلا م آبا د بند کر دیاجائے اور نظام حکومت تعطل کا شکا ر ہو جا ئے تو اس کا نقصان کس کو پہنچے گا ظاہر ہے کہ پاکستان کا ہی نقصان ہو گا کیو نکہ ایسے حالا ت میں بیر ونی سرمایہ کا ر اپنا ہا تھ روک لیں گے ، افراتفری کے اس دور میں دیگر ممالک بھی اس امر کے منتظر ہو ں گے، حالات میں بہتری ہو تو معاملا ت یا تعلقات کے امو ر پر کا م کیا جا ئے چنا نچہ اسی بنیا د پر مر شد عبدالحکیم لباس دار کا کہنا ہے کہ دھر نا نو از شریف کی حکومت کو بند کرنا نہیںہے بلکہ عالمی سطح پر پا کستان کو بند کر نا ہے۔ یہ مو جو دہ حکومت کے خلا ف دھر نا نہیں ہے بلکہ اس کے مقاصد وزارت عظمیٰ کو دھر نے کی سعی ہے جس میں نو از حکومت کا کچھ نہیں بگڑے گا بلکہ حکومت کو اقتصادی ، معاشی طورپر ناقابل تلا فی نقصان پہنچے گا خاص طورپر سی پیک کے منصوبے کو جھٹکا لگے گا۔
سی پیک منصوبے کو متنا زعہ اسی طور بنا نے کی مساعی کی جا رہی ہے جس طور کالا با غ ڈیم کو بنا یا گیا ہے ، اگر کا لا با غ ڈیم کو سیا سی طور پر متنا زعہ نہ بنایا جا تا تو اب تک پاکستان میں اقتصادی ، معاشی ، تجا رتی ، توانائی ، صنعتی اور زرعی انقلا ب آگیا ہو تا مگر اس کو ہند کے مفاد میںسبو تا ژ کر دیا گیا ۔ سرمایہ کا ری اور ترقی کی اولین شرط امن واما ن کا مثالی ہو نا ہے۔ایسے مو قع پر جب پا کستان میں رواں ما ہ ایک اہم تقرری ہو نے والی ہے اس وقت ایسی سیا سی فضا کو طوفان زدہ کرنے کا مقصد ایک ہی ہو سکتا ہے کہ اپنے عزائم کو سید ھے طو رپر حاصل کرنے کی بجا ئے اپنی مر ضی کے مطا بق حاصل کئے جا ئیں ۔
  عمر ان خان کی سیاست کا جا ئز ہ لیا جا ئے تو ایک ہی با ت سامنے آتی ہے کہ ان کی سیا ست کسی اصول کی پا بند نہیں کیونکہ اس میں قرار نہیں ہے ان کو جلد سے جلد وزارت عظمیٰ لینے کی خواہش ہے اور اسی بے قرار ی میں وہ گو مگو ں کی پوزیشن میں مبتلا نظر آرہے ہیں چنا نچہ اسلا م آبا د کا دھر نا شروع کرکے وہ اپنی انتخابی مہم کا آغا ز کر رہے ہیں۔ یہ انتخا بی مہم کی طر ز نو ہے وہ سمجھتے ہیںکہ وہ سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے جو چاہتے ہیں مگر دبا و¿ کے ذریعے چنا نچہ 2013ءکے انتخابات میں نو از شریف کی کا میا بی پر مبارک با د دینے کے بعد یکا یک ان کو دھاند لی کا خیال آیا اور ان کی سیا ست کا سب سے بڑا ایشو انتخابی د ھاندلی بن گیا جس میں انھو ں نے اپنے بھی اور قوم کے بھی اڑھائی سال گنو ا دیئے نہ عدالت کو اور نہ عدالتی کمیشن اور نہ ہی الیکشن کمیشن کو دھاندلی کے ثبوت فراہم کئے۔ دھاندلی کی چنگاری مدھم ہو جا نے پر ان کو پا نا ما لیکس کا ایشو مل گیا چنا نچہ دھاندلی کا ایشو پس پر دہ چلا گیا ،گویا عمر ان خان کے پا س کو ئی سیا سی پر وگر ام نہیں ہے بلکہ ایشو کی تلا ش رہتی ہے ، اگر کوئی منشور ہوتا کوئی پر وگر ام ہوتا تو قومی اسمبلی میں کوئی کار کر دگی دکھا تے ، وہا ں انھو ں نے مالی منعفت ہی حاصل کی ہے ۔
اس وقت خطے کا اہم ترین ایشو کشمیر میں ہو نے والے مظالم کا ہے جہا ںانسانی حقوق کو بری طر ح کچلا جا رہا ہے۔ اس بارے میں عمران خان نے رائیو نڈ محاصرہ سے پہلے کہا تھا کہ پہلے وہ رائیو نڈ کا محاصر ہ کر کے نو از شریف کو پیغام دیں گے اس کے فو ری بعد مو دی کو ایسا جو اب دیں گے کہ یا درکھیں گے۔ مو دی کو کیا جو ا ب دیا یہ خود عمر ان خان کو بھی نہیں معلو م نہ قوم کو خبر ہو ئی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ عمر ان خان کےلئے پا نا ما لیکس کے علاوہ کوئی دوسرا معاملہ اہم ہی نہیں ،کشمیر ایشو بھی ثانو ی ہے۔ عمران خان سے تو بہتر اے این پی رہی ہے جس کا پاکستان بند کے بعد سے ہند کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ٹھو س مو قف رہا ہے اور کشمیر پا لیسی پر بھی اس کا نکتہ نظر کبھی ڈھکا چھپا نہیں رہا، مگر اس مرتبہ پا رٹی کے رہنما و¿ں نے بھی اور سربراہ اسفند یا ر نے بھی دو ٹوک موقف کا اظہا ر کیا اور صاف طورپر پا کستان دشمنو ں کو سبق سکھا دینے کی بات کی ہے جبکہ تحریک کے رہنما و¿ں نے رسمی بات بھی نہیں کی ۔ 
انکل سام اور اس کے اتحا دیو ں بر طانیہ ، جر منی اور فرانس کا تجر بہ ہے کہ پاکستان میں سیا ستدانو ں کی حکومت سوفی صد دباو¿ قبول نہیں کیا کر تی اور امریکہ کے سائے سے نکلنے کے مو قع کو ضائع بھی نہیں کر تے چنا نچہ اعتبار نا اعتبار کی اس کیفیت سے نکلنے کی غرض یہ طاقتیں چاہتی ہیں کہ پاکستا ن کی باگ ڈور ایسی شخصیت کے ہاتھ میں ہو جو ان کے لیے قابل قبول ہو۔ عمر ان خان کے سابق براد نسبتی یہ فریضہ انجا م دے رہے ہیں کہ عمر ان خان مغربی طاقتو ں کے لئے قابل قبول بن جائیں چنا نچہ عمر ان خا ن سے رابطہ میں رہتے ہیں اور ان کی ہد ایت کے مطا بق عالمی مسائل پر قد م اٹھارہے ہیں چنا نچہ کشمیر پا لیسی پر وہ ہندکو نا راض نہیں کر نا چاہتے کیو نکہ اس کی نا راضی سے امریکہ اور بر طانیہ کی آشیر با د پسپا ہو جا نے کا امکا ن ہے ۔ علا وہ ازیں عمر ان خان اسلام آبا د کو بند کر کے انتخابی مہم کا آغاز کررہے ہیں مگر الیکشن اصلا حات کی طرف ان کی توجہ نہیں گو ڈھا ئی سال سے الیکشن اصلاحات کےلئے پار لیمانی کمیٹی قائم ہے مگر تحریک انصاف اس کے اجلا س میں شرکت نہیں کر رہی ہے جس کی وجہ سے یہ کا م تعطل کا شکا ر ہے ، اگر الیکشن کمیشن کےلئے نئے قوانین مر تب نہ ہوئے تو اگلے انتخابات بھی پر انے نظام ہی کے تحت ہو ں گے جس کی ذمہ داری بھی تحریک انصاف پر ہی عائد ہو گی ۔ جہا ں تک سی پیک منصوبے کی بات ہے تو ا س کےلئے عمر ان خان نے پر ویز خٹک کو ٹاسک سونپ رکھا ہے۔ صبح سویر ے ہی وہ اٹھ کر سب سے پہلے سی پیک منصوبے پر تبّر ا بھیجتے ہیںگو یا کے پی کے کا کوئی اور مسئلہ نہیں ہے ما سوائے اس سی پیک کے۔
٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: