Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اميد ، مومن کا وصفِ خاص

اميد بندگی ہے ورنہ انسانی اعضا و جوارح اطاعت کےلئے آمادہ ہی نہ ہوتے، اميد نہ ہوتی تو ارادوں کے سمندرميں اعمال کی کشتی ہی نہ چلتی
 
محب اللہ قاسمی ۔ نئی دہلی
 
اميد کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ ہر شخص کے جذبات براہ راست اس سے جڑے ہوتے ہيں۔ اس کے بغير زندگی کے قافلہ کارواں دواں ہونا محال ہے۔ کہتے ہيں : نااميد ی کفر ہے اوراميد پر دنيا قائم ہے۔ يہ اميد ہی ہے جس کی بناپر تاجر اپنی دوکان کھولتاہے اورصبح سے شام تک وہیں دلجمعی کے ساتھ بيٹھتاہے ،اسے توقع ہوتی ہے کہ اسے اچھا منافع ملے گا۔
 
کسان زمين کھودکراس ميں بيج ڈالتا ہے اس اميد کے ساتھ کہ اس سے ڈھيروں غلے کی پيداوارہوگی۔ والدين اپنی اولاد کی تربيت کرتے ہيں کہ آئندہ وہ ايک اچھا انسان اورقوم وملک کا معمارہوگا۔ گويا کہ زندگی کے ہرشعبے ميں انسان کسی نہ کسی نوعيت کی اميد ضرور رکھتاہے اوراميدوں کے سہارے اپنے منصوبوں کوعملی جامہ پہنانے کی کوشش ميں لگا رہتاہے۔” اميد‘ ‘کی حقيقت کيا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
 
امید کوعربی زبان ميں ”رجاء“ کہتے ہيں :یعنی : کسی کام کے کاميابی سے پا جانے کی توقع ۔ اُس کی ضد مايوسی ہے۔
اميد کے 2اصطلاحی معنیٰ بيان کئے جاتے ہيں
ايک معنیٰ ہيں: اللہ تعالیٰ سے درگزراور مغفرت کی توقع رکھنا۔
دوسرے معنیٰ ہيں :زندگی ميں کشادگی وفراوانی کا انتظار اورمصائب وآلام سے نجات کی توقع ۔
 
علامہ ابن قيم نے پہلے معنیٰ کو اس انداز سے بيان کيا ہے
اميد دراصل بندگی ہے ورنہ انسانی اعضا و جوارح اطاعت کےلئے آمادہ ہی نہ ہوتے ۔ اسی طرح اس اميد کی خوشبو اگرنہ ہوتی تو ارادوں کے سمندرميں اعمال کی کشتی ہی نہ چلتی۔
يہ واقعہ ہے کہ اميد انسانی تخيلات ميں جان پيدا کرتی ہے۔ ان تخيلات کوعملی پيکر ميں ڈھالنے کا کام انسانی اعضاء وجوارح مل کرانجام ديتے ہيں ۔
 
اس کے مطابق ايک مومن کے اندر يہ دونوں اوصاف ہيں تويہ سمجھ لينا چاہے کہ اس کے دل ميں ايمان ہے ۔ قرآن کريم ميں اس کی اہميت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گيا
جولوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہيں ،نماز قائم کرتے ہيں اورجوکچھ ہم نے ان کو ديا وہ يوشيدہ اورعلانيہ طورپر خرچ کرتے ہيں وہ لو گ ايسی تجارت کے متوقع ہيں ،جس ميں کوئی خسارہ نہ ہوگا۔ ( فاطر30,29)۔
نيزفرمايا 
يا وہ جومطيع وفرماں بردارہے رات کے پہرميں سجدہ اورقيام کی حالت ميں ہوتا ہے اوراپنے رب سے رحمت کی اميد لگاتا ہے۔الزمر9
 
پھريہ بھی حقيقت ہے کہ انسان جوبھی عمل کرے اگراُس نے اللہ تعالیٰ سے اميد باندھ رکھی ہے تواللہ تعالیٰ اس کی اميد کے مطابق اسے عطا کرتاہے ۔ 
ايک مرتبہ اللہ کے رسول ايک نوجوان کے گھر پہنچے جومرضِ وفات ميں تھا۔ آپنے فرمايا
تمہيں کيسا محسوس ہوتا ہے ؟
اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! بہ خدا مجھے اللہ سے بہتری کی اميد ہے اوراپنے گناہوںکا خوف بھی ہے۔
آپ نے فرمايا:
اس مقام پر ايک بندے کے اندرجب يہ دونوں باتيں ہيں تواللہ اسے اميد کے موافق عطا کرے گا اوراس کو ان گناہوں کے خوف سے محفوظ کردے گا۔
ايک حديث قدسی ہے، جس کے راوی حضرت انس ؓ ہيں،اس کا ايک ٹکڑا يہ ہے:اللہ تعالیٰ کہتاہے
اے ابن آدم ! تونے مجھے باد کبا اورمجھ سے امبد باندھی مبں نے تبرے تمام گناہوں کو بخش دبا اورمبں بے نباز ہوں۔
نبی نے فرمايا
تم ميں بہتر شخص وہ ہے جس سے دوسرے خير کی اميد رکھيں اوراس کے شر سے محفوظ رہيں۔ (ترمذی:باب الفتن )۔
 
انسان کوچاہے کہ وہ اپنی زندگی ميں اميدوں کو ہميشہ جوان رکھے ۔يہی صفت اسے اپنے مشن کو جاری رکھنے ميں کامياب بناتی ہے۔ وہ نا اميد ی کو اپنے قريب بھی نہ آنے دے اس لئے کہ اس سے قلب بزدل اوربے جان ہو کر ايمان سے محروم ہونے لگتاہے ۔ نااميدی کی کيفيت ميں انسان عمل سے کوسوں دور ہوجاتا ہے۔ دوسرے لفظوںميں يوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ اميد کا دوسرا نام زندگی ہے اورنا اميدی کا نام موت ہے۔ اميد کے بغير انسان محض ايک ڈھانچے کی شکل ميں رہ جاتاہے ،جس ميں کوئی روح نہبں ہوتی۔ 
بہ امبد ہی ہے جوانسان کو نبک کام پر آمادہ کرتی ہے۔
 

شیئر: