Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیپلز پارٹی کا بھی لانگ مارچ؟

 
 
 
 
 
بلاول بھٹو زرداری کا مطالبہ ہے کہ حکومت پانامہ لیکس سے متعلق پیپلز پارٹی کا سینیٹ بل منظور کرے، پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی تشکیل دے
 
 
 
 
 
 
محمد اسلم محمود بٹ
 
 
 
پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت سے کئے گئے 4 مطالبات پر عمل درآمد نہ ہوا تو وہ اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی موت کے 9 برس گزرنے کے موقع پر ان کے گاوں گھڑی خدابخش میں اپنی تقریر کے دوران حکومت کیخلاف لانگ مارچ کا اعلان کریں گے۔ اتوار کو کراچی میں 18 اکتوبر 2007 ءکا وہ دن منانے کیلئے اس احتجاجی ریلی اور عوامی جلسے کا انعقاد کیاگیاتھا جب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی طویل غیر اعلانیہ جلاوطنی سے واپسی کے بعد کراچی ایئرپورٹ کے قریب کارساز پر ان کی استقبالیہ ریلی میں ان کے استقبالیہ ٹرک کے قریب خوفناک دہشت گرد حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں پیپلز پارٹی کے متعدد کارکن ہلاک ہوگئے تھے مگر مرکزی قائدین محفوظ رہے مگر اس واقعہ کے ڈھائی ماہ بعد 27 دسمبر کو اس دور کی قافلہ سالار بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے تاریخی لیاقت باغ میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ اس سانحہ کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تھی جو درپردہ حلقوں کی کوششوں کے باوجود ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنی 5سالہ مدت پوری کرسکی تھی مگر بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ سکی حتیٰ کہ اس واقعہ کو رونما ہوئے 9 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، بدستور کوئی پیشرفت نہ ہوسکی۔ 
کراچی کے علاقے لیاری میں بلاول بھٹو زرداری عوامی ریلی میں اپنی والدہ کا ایک مرتبہ تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے مگر ان کے قتل کے مقدمہ کے پراسرار التواءپر اظہار خیال کرنے سے قاصر رہے۔ ان کی تقریر سے کچھ دنوں پہلے پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھنے والوں کو اس صدمے سے گزرنا پڑا تھا جب انہو ںنے یہ موقف اختیار کیاکہ انہوں نے وزیراعظم نواز شریف کی وزیراعظم ہند نریندر مودی سے دوستی کا کبھی تذکرہ نہیں کیا اور وہ ملک کے منتخب وزیراعظم کو اپنا انکل خیال کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے لئے یہ امر سابق صدر آصف زرداری کی سیاست کا دور یاد کروانے کے مترادف تھا جس سے انہیں شدید صدمہ پہنچا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے دوران وزیراعظم نواز شریف کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور انہیں ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کا یار قرار دیا تھا اور ان کی حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کیا تھا۔
باور کیا جاتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کا یہ طرز عمل دیکھ کر تحریک انصاف بلاول بھٹو زرداری سے یہ توقعات وابستہ کر بیٹھی تھی کہ شاید وہ بھی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرسکیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ یہ اعلان پھر کردیا تھا کہ حکومت کیخلاف ان کے احتجاجی دھرنے میں ان کے روایتی کنٹینر پر اگلے دھرنے میں بلاول بھٹو بھی ہونگے۔ نئے حالات میں بدلتی صورتحال دیکھ کر عمران خان نے یہ بھی دعویٰ کردیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے اندر دھڑے بندی کا آغاز ہوگیا تھا اور ایک دھڑا پانامہ لیکس کے معاملے پر ان کے احتجاج میں شرکت کا خواہاں تھا حالانکہ اپنے گزشتہ دھرنوں میں انہوں نے پیپلز پارٹی خصوصاً اس کے قائد آصف زرداری پر کڑی نکتہ چینی کی تھی اور کرکٹ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک ہی بال میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو بولڈ کردیں گے۔ 
بلاول بھٹو زرداری نے ریلی سے اتوار کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت پانامہ لیکس سے متعلق پیپلز پارٹی کی جانب سے سینیٹ میں پیش کردہ بل منظور کرے، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی تشکیل نو کرے اور نیا وزیر خارجہ مقرر کرے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس سے متعلق اس کا پیش کردہ بل قومی اسمبلی میں زیر التواءہے اور یہ پیپلز پارٹی کے سینیٹ میں پیش کردہ بل سے زیادہ جامع ہے جبکہ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز اور وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ پہلے ہی سیکریٹری وزارت خارجہ اعزاز چوہدری کے ہمراہ اپنی ذمہ داریاں بخوبی طریقے سے انجام دے رہے ہیں جو وزیراعظم کا استحقاق ہے اس لئے بلاول بھٹو کی جانب سے پیش کردہ مطالبات پر عمل درآمد ممکن نہیں البتہ اس سلسلے میں حکومت کے پیپلز پارٹی سے مذاکرات ہوسکتے ہیں۔ 
سیاسی اور عوامی حلقوں میں باور کیا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ کسی بھی طور مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوگی اور اگر اس نے اس سلسلے میں حکومت سے مذاکرات کئے تو 2018 ءکے عام انتخابات میں عوام کو متاثر کرنے کیلئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا۔ اس موقع پر سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی حکومت پر کڑی نکتہ چینی کی اور دعویٰ کیا کہ بلاول ہی 2018 ءکے انتخابات میں وزیراعظم منتخب ہوسکیں گے۔ عوامی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ 18 اکتوبر کے سانحے میںجاں بحق ہونے والے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی یاد میں منعقدہ اس جلسے جلوس میں رقص و موسیقی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس موقع پر حمد و نعت کا اہتمام کیا جانا چاہئے تھا مگر یقین کیا جاتا ہے کہ گزشتہ برس جون میں فوج کے خلاف توہین آمیز کلمات کی ادائیگی اور فوجی جرنیلوں کو ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں دے کر آصف زرداری مبینہ طور پر اس قدر خوفزدہ ہیں کہ ان میں وطن واپس لوٹنے کی جرا¿ت نہیں ہورہی مگر وہ بیرون ملک بیٹھ کر اس جلسے جلوس میں شریک تھے اور شاید ان کی ہی خواہش پر بلاول نے وزیراعظم ہند نریندر مودی کو کڑی نکتہ چینی کا نشانہ بنایا اور انہیں ہندوستانی ریاست گجرات اور کشمیر کے مسلمانوں کا قصائی قرار دیا ۔ باور کیا جاتا ہے کہ انہو ںنے یہ بیان پاک فوج کی خوشنودی کیلئے جاری کیا کیونکہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہند ا یسے بھیانک مظالم کا ارتکاب کررہا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ 27 دسمبر کو اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر حکومت کے ساتھ کس طرح مخاطب ہوتے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ ان کے والد کی پالیسیوں سے پیپلز پارٹی کے کارکن پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں یا عملی سیاست سے ہی تائب ہوچکے ہیں۔ بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ اگر انہوں نے 27 دسمبر کو حکومت کیخلاف لانگ مارچ کیا تو حکومت کو بھی پتہ لگ جائے گا مگر عوامی اور سیاسی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ لانگ مارچ کی صورت میں خود بلاول کو پتہ لگ جائے گاکہ ان کے ہمراہ کتنے کارکن موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی جس کا کبھی پنجاب میں طوطی بولتا تھا اس صوبے میں مطلق زوال کا شکار ہوچکی ہے۔ تقریباً 3برس پہلے ان کے والد زرداری نے لاہور کا دورہ کیا تھا اور ہزاروں شکایتوں کے حامل پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ ہر برس لاہور کا دورہ کیا کریں گے اور پارٹی کی تنظیم نو پر توجہ دیں گے مگر اس کے بعد وہ سندھ او ر اپنے ذاتی مشاغل میں اس قدر الجھے کہ انہیں شاید اپنے وعدے یا د ہی نہیں رہے۔ پنجاب کی طرح بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے البتہ اندرون سندھ اسکی کچھ نہ کچھ سیاسی حیثیت برقرار ہے جو اس قابل نہیں کہ حکومت کیخلاف لانگ مارچ کا انعقاد کرسکے۔
بلاول بھٹو زرداری نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے متعلق کچھ دنوں پہلے کہے گئے الفاظ کو فراموش کرتے ہوئے کہا کہ اب بیرون ملک بیٹھ کر ٹیلیفون پر خطاب اور حکومت کو دھمکیاں دینے کا وقت گزر گیا ہے۔ الطاف حسین جن کا ماضی قریب میں سیاسی زوال شروع ہوچکاتھا اور ان کیخلاف ان کے سب سے زیادہ وفادار نائب ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی علم بغاوت بلند کرلیا تھا دوبارہ کراچی کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ ان کے خلاف لندن میں منی لانڈرنگ کا مقدمہ لندن پولیس کے شعبہ سراغ رسانی ا سکاٹ لینڈ یارڈ نے ختم کردیا ہے مگر ان کے کراچی کی سیاست میں دوبارہ ماضی جیسا کردار ادا کرنے کے امکانات دم توڑ چکے ہیں البتہ کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار کے درمیان مستقل رسہ کشی جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ 
ملک کے لئے سب سے ز یادہ اہمیت کا حامل عمران خان کا 30 اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے اور دوبارہ طویل ترین دھرنا دینے کا پروگرام ہے جو 2 نومبر تک ملتوی کردیا گیا تھا۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ سیاسی معاملات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں اور اب وزیراعظم نواز شریف کے پاس دو ہی راستے ہیں کہ یا تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیں یا پانامہ لیکس کے حوالے سے خود کو احتساب کیلئے پیش کریں البتہ اب آرمی چیف جنرل راحیل شریف پر قوم کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں جو نومبر کے آخر میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہورہے ہیں جنہوں نے اپنے عہدے میں توسیع قبول کرلی تو حکومت بھی 2018 ءتک اپنی مدت پوری کرسکے گی بصورت دیگر ملک میں سیاسی بحران شدید تر ہو سکتاہے۔ 
******

شیئر: