Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسداد عصبیت ، اسلام کی اولین دعوت

 انسانوں کا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا فطری ہے، روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان نہیں ہو سکتاتھا
 
محمد فاروق خٹک۔ ریاض
 
قرآن کریم پوری نوع انسانی کو خطاب کرکے اُس عظیم گمراہی کی اصلاح کر تا ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے، یعنی رنگ ،نسل ،زبان ،وطن اور قومیت کا تعصب۔ قدیم ترین زمانے سے لے کر آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کرکے اپنے گرد چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا اور باہر پیدا ہونے والوں کوغیر قرار دیا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیادوں پر نہیں بلکہ اتفاقی بنیادوں پر کھینچے گئے ہیں۔ کہیں ان کی بنا پر ایک خاندان و قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا اور کہیں ایک جغرافیائی خطے میں یا ایک خاص رنگ رکھنے والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہوجانا پھر ان بنیادوں پر جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی کہ جنہیں اِس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو۔ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو بلکہ اس تمیز نے نفرت ،عداوت ، تحقیر و تذلیل اور ظلم وستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں۔اس کے لئے فلسفے گھڑے گئے ہیں، مذہب ایجاد کئے گئے ہیں،قوانین بنا لئے گئے ہیںاور اخلاقی اُصول وضع کئے گئے ہیں۔قوموں اور سلطنتوں نے اِس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پرعمل درآمد کیا ۔ عرب قوم پرستوں نے اپنے رشتے فرعونیت سے جوڑ لئے” دین اللہ کے لئے اور وطن سب کے لئے“جیسے نعرے ایجاد کئے۔ کچھ نے کفر و الحاد کو اپنی قومی وحدت کا نشان قرار دیا ۔ استعماری قوتوں نے جب بھی مسلمانوں کو غلام بنایا ہے تو تقسیم در تقسیم کی پالیسی اپنائی ۔ الجزائر کو بر بر اور عرب قومیت میں تقسیم کیا ، ترکی میں عرب اور تورانی کے نام سے نفرتوں کے بیج بوئے، شام و عراق میں بابلی و آشوری، لبنان میں رومی و یونانی اور وسطی ایشیا و افغانستان میںپشتون، ازبک ،تاجک ،ترکمن اورآذری و غیرآذری جبکہ وطن عزیر پاکستان میں بھی کچھ لوگ اپنے رشتے ناطے آریاو¿ں، بنی اسرائیل اور راجہ داہر سے ملا رہے ہیں اور اسی تعصب کی بنا پر ہم اپنا نصف ملک کھو بھی چکے ہیں۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیل کو خدا کا چیدہ مخلوق ٹھہرایا اور اپنے مذہبی احکام تک میں غیر اسرائیلیوںکے حقوق اور مرتبے کو غیر اسرائیلیوں کے مقام سے فروتر رکھا۔ ہندوو¿ں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی۔ اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے ،شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا، کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ستم ڈھائے ،ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ،آج اس صدی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کرکے ان کے ساتھ جو برتاو¿ کیا جارہا ہے، کس طرح انہیں غلام بنایا جا رہا ہے، انہیں لوٹا جارہا ہے اور اسی جذبہ قوم پرستی نے انسان کو انسان کے لئے درندہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت پچھلی عالمگیر جنگوں میں جو کرشمے دکھا چکا ہے،انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ نسل، رنگ، زبان، قوم قبیلے اور طن کا تعصب کتنی عظیم اور تباکن گمراہی ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کرکے نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں”لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔یقینااللہ سب کچھ جاننے والا باخبر ہے“ (الحجرات 13) تم سب کی اصل ایک ہے ،ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھی۔اس سلسلہ¿ تخلیق میں کسی جگہ بھی اُس تفرقے اور اُونچ نیچ کے لئے کوئی بنیاد موجود نہیں جس کے زعم میں تم مبتلا ہو۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے ،ایسا نہیں کہ مختلف انسانوںکو مختلف خداو¿ں نے پیدا کیا ہو۔ ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو،ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو اور ایک ہی ماں باپ کی تم اولاد ہو ۔
دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا ایک فطری امر ہے۔ ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو ہو ہی نہیں سکتا۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ساتھ ناگریز تھا کہ بے شمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آجائیں۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ، خدوخال ، زبانیں اور بود وباش بھی لامحالہ مختلف ہی ہو سکتی ہیں۔ ایک خطے کے رہنے والوں کو باہم قریب تر اور دور دراز خطوں کے رہنے والوں کو بعید تر تو ہونا ہی ہے مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہر گز نہیںکہ اس بنیاد پر اونچ نیچ ،شریف کمین ،برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کئے جائیں۔ ایک نسل دوسری نسل پراپنی فضیلت جتائے ،ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں ،ایک قوم دوسری قوم پر اپنی تفوق جمائے اور انسانی حقوق میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح حاصل ہو۔خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ اُن کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی ہو سکتی ہے۔ اسی طریقے سے ایک خاندان ،ایک برادری، ایک قبیلے اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک معاشرت بنا سکتے ہیںاور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مددگار بن سکتے ہیں مگر یہ محض شیطانی جہالت ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایاہے ا سے تفاخر اور تنافر کا ذریعہ بنایا جائے اور پھر نوبت ظلم و عدوان تک پہنچا دی جائے اور یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے۔
 
مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں
 

شیئر: