Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ملازمین کی یومیہ پیداوار ایک گھنٹہ ہے؟

 اخراجات میں کمی نہ کرتے تو آئندہ3 سال میں دیوالیہ ہوجاتے، یہ بات ہم سے کئی گنا کم آمدنی والے ممالک نے بھی نہیں کہی
 
عبد الرحمن الطریری
 
 
وزیر شہری خدمات خالد العرج کے انٹرویو کی صدائے بازگشت ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔انہوں نے انتہائی متنازعہ بات کہہ دی کہ سعودی کارکن کی یومیہ پیداوار ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں۔یہ انتہائی لچکدار بیان ہے جس کے متعلق مزید وضاحت کی ضرورت ہے نیز سعودی کارکن کی پیدوار ہرمحکمے اور ادارے میں مختلف رہتی ہے۔ کئی اداروں اور محکموں میں خود شہریوں کا شکوہ رہا ہے کہ ظہر کی اذان کے ساتھ ہی سرکاری ملازمین غائب ہوجاتے ہیں۔
 
وزیر شہری خدمات کی بات سے جو منفی تاثر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ گویا وہ شہریوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ بونس اور الاؤنس کی کمی کا رونا چھوڑ دیں کیونکہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں اتنا دیں گے جتنا تم ہمیں دوگے۔ میں عرض کروں کہ پیداوار کا تعلق تنہاکارکن سے نہیں بلکہ کارکن سمیت دیگر عوامل پر بھی ہے۔پیداوار کے بنیادی تعلق کا اولین نکتہ ذمہ داری کے لئے مناسب شخص کے تعین پر ہے۔ مناسب ماحول کی فراہمی اور پیداوار کی مناسبت سے معاوضہ بھی اسی سے متعلق ہے۔ان تمام باتوں سے اہم خود وزیر ہے جو دوسری اور تیسری صف کی قیادت کے انتخاب کا ذمہ دار ہے مگر ایک سوال جو ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ محترم وزیر شہری خدمات نے یہ نہیں بتایا کہ کیا وزراءکی تنخواہوں میں 20فیصد کمی کی وجہ بھی پیداوار ہے۔
 
نائب وزیر اقتصاد ومنصوبہ بندی نے بھی اپنے طور پر شہریوں کو ٹی وی پروگرام کے ذریعہ کچھ پیغامات ارسال کئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بجٹ کا 90فیصد حصہ تنخواہوں کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے۔گویا سعودی شہریوں نے بجٹ کبھی پڑھا نہیں یا انہیں بجٹ کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ سعودی شہریوں سے سطحی بات نہ کی جائے کہ شہریوں میں شعور کی سطح کافی بلند ہے۔نائب وزیر اقتصاد ومنصوبہ بندی نے انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر ہم نے اخراجات میں کمی کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو آئندہ3سال میں دیوالیہ ہوجاتے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے جو ہم سے کئی گنا کم آمدنی والے ممالک نے بھی نہیں کہی۔ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ سعودی عرب کی معیشت 20مضبوط ترین ممالک میں شامل ہے۔آج بھی سعودی عرب کی معیشت انتہائی مستحکم ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سعودی عرب کے حجم کو دیکھ کر بات کی جائے۔
 
(بشکریہ: عکاظ)
 

شیئر: