Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وحدانیت کے اقرار پر سزا پانے والے ، اصحاب الاخدود

لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک قتل نہیں کرسکتا جب تک وہ کام نہ کرلے جس کا میں تجھے حکم دوں
 
عبد الستارخان
 
سورة البروج میں اصحاب الاخدود کا ذکر بڑی تفصیل سے ہے۔ اس علاقہ پر بنی حمیر نے صدیوں تک حکومت کی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یمن کے علاقے میں یہودیوں کی حکومت رہی۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس علاقے کی تاریخ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے 600 سال قبل شروع ہوئی ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے 600 سال بعد ا صحاب الاخدود کا واقعہ پیش آیا۔اس واقعہ کوتقریبا ڈھائی ہزار سال گزر چکے ہیں۔ یہاں کا حاکم ایک جادو گر کا خاص مرید تھا۔ وہ اس جادو گر کی ہر بات مانتا اور اس پر عمل کرتا تھا۔ بادشاہ عقیدہ کے اعتبار سے یہودی تھا مگر اسلام سے اتنا دور تھا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کھوبیٹھا تھا اور اپنی پوجا شروع کروادی تھی اور اپنے آپ کو خدا کہلوانے لگا تھا۔
 
اللہ رب العزت ہر دور میں اپنے بندوں کی آزمائش کرتا رہا ہے اور ہر دور میں دین کی تجدید ہوتی رہی ۔ ایک دن جادوگر بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میں اب خاصا بوڑھا ہوچکا ہوں اور کسی وقت بھی موت آسکتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ مجھے کوئی ذہین وفطین بچہ مل جائے جسے میں اپنا کالا علم منتقل کرسکوں تاکہ میرے مرنے کے بعد وہ میرا جانشیں بن سکے۔بادشاہ نے حکم دیا کہ کسی ذہین لڑکے کو منتخب کرکے اسے جادو گر کا شاگرد بنادیا جائے ۔ حکم کی تعمیل کی گئی اور ایک نہایت ذہین لڑکے کو جادو گر کے سپرد کردیا گیا۔ لڑکا صبح سویرے اپنے گھر سے جادو گر کے پاس جاتا اور ا س سے کالا علم سیکھتا ۔راستہ میں ایک راہب کا ٹھکانہ تھا۔ ایک دن وہ راہب سے ملا تو اسے اس کی باتیں بڑی اچھی لگیں۔ وہ راہب موحد اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا پیرو کار تھا۔ اس لڑکے نے کچھ وقت اس راہب کے ساتھ گزارنا شروع کردیا۔ وہ اس لڑکے کو عقیدہ¿ توحید کی تعلیم دیتا۔ اس طرح وہ کالا علم بھی سیکھتا رہا اورراہب سے علمِ ربانی بھی حاصل کرتا رہا۔کچھ عرصے بعد اسے یقین ہوگیا کہ جادوگر کا علم شیطان کا راستہ ہے جبکہ راہب کا راستہ رحمن کا راستہ ہے اورحقیقتاًیہی صراط مستقیم ہے۔ وہ اکیلے رب کی پرستش کرنے لگا۔
 
 ایک دن وہی نوعمر لڑکا بازار میں جارہا ہے۔ اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑے اور خوفناک جانور نے لوگوں کا راستہ روک رکھا ہے اور لوگ اس کی وجہ سے راستہ عبور نہیں کرسکتے۔لوگوں کی خاصی تعداد وہاں جمع ہے۔لڑکے نے دل میں سوچاکہ آج وقت ہے کہ میں دیکھوں گا کہ راہب کا معاملہ جادوگر سے بہتر ہے یا نہیں۔اس نے ایک پتھر اٹھایا اور کہنے لگا اے اللہ! اگر راہب کا معاملہ جادوگر کی نسبت تجھے زیادہ پسند یدہ اور زیادہ راضی کرنے والا ہے تو اس جانور کو ہلاک کردے تاکہ لوگ راستے سے گزرجائیں۔یہ دعا مانگ کر اس نے اس خوفناک جانور کو پتھر دے مارا،پتھر لگتے ہی دیوہیکل جانور ہلاک ہوگیا ،لوگوں کےلئے راستہ صاف ہوگیا اور وہ آنے جانے لگے۔
 
لڑکا بازار سے سیدھا راہب کے پاس پہنچا اور اسے سارا واقعہ سنایا۔راہب بہت خوش ہوا اور کہنے لگا :بیٹے اب تم مجھ سے بھی بڑھ کر ہو مگر عنقریب اور یقینا تم آزمائش میں ڈالے جاو¿گے ،اگر تم آزمائش میں ڈالے جاو¿ اورتمہیں حکمراں پریشان کریں تو میرے بارے میں ان کو نہ بتانا۔وقت گزرتا چلاگیا،لڑکے کی کرامات میں اضافہ ہوتا چلاگیا،اس کے پاس اندھے اور پھلبہری کے مریض آتے اور وہ ان کا علاج کرتا اور وہ اللہ کے حکم سے صحت یاب ہوجاتے۔اس طرح اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔
 
بادشاہ ِوقت کا ایک خاص درباری تھا،وہ آنکھوں کی بیماری میں مبتلاہوگیا اور ایک دن نابینا ہوگیا۔بادشاہ نے اس کا کافی علاج کرایا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ،کسی نے اسے اس لڑکے کے بارے میں بتایاتو وہ بہت سارے تحائف لے کر اس لڑکے کے پاس پہنچ گیا۔اس نے لڑکے سے کہا اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحائف اور سامان تمہار اہوگا۔ لڑکے نے جواب دیا
میں کسی کو شفا نہیں دے سکتا،شفا دینا صرف اللہ کا کام ہے،ہاں اگر تم اللہ پر ایمان لے آو¿تو میں اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں بینائی عطا کردے۔
بادشاہ کا خاص درباری اللہ پر ایمان لے آیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اسے شفا دے دی اور وہ دوبارہ دیکھنے لگا۔
اب وہ دوبارہ بادشاہ کے دربار میں جانے لگا۔بادشاہ نے جب دیکھاکہ اس کا خاص جانشین دوبارہ دیکھنے لگا ہے تو اس نے اس سے پوچھا کہ تمہاری بینائی کون واپس لایا؟
وہ کہنے لگا میرے رب نے مجھے دوبارہ بینائی عطا کی۔
بادشاہ جو خود کو ہی رب سمجھتا اورکہلواتا تھا ،گویا ہوا ،ارے میں نے کب تمہاری بینائی درست کی؟
خاص جانشین نے جواب دیا
بادشاہ سلامت آپ نے نہیں بلکہ میری نظر اس رب نے درست کی ہے جو میرا بھی اور آپ کا بھی رب ہے۔
 
بادشاہ کو شدید غصہ آیاکہ میرے علاوہ اور کون رب ہوسکتا ہے۔اس نے اپنے اس درباری کی اس گستاخی پر اسے سخت سزا دی اور اس پر تشدد شروع کردیا کہ وہ توحید سے انکار کردے مگر اس نے استقامت اختیار کی۔اس درباری کو سزا ئیں ملتی رہیں ۔وہ جاننا چاہتے تھے کہ یہ توحید کا سوتا کہاں سے پھوٹا اور آخر کار تشدد کے دوران جانشینِ خاص نے لڑکے بارے میں بادشاہ کو بتادیا۔بادشاہ اس لڑکے کو جانتا تھا اس نے اسے بلابھیجا۔لڑکا بادشاہ کے دربار میں کھڑا تھا ، بادشاہ اپنے جاہ وجلال اور تکبر کے ساتھ لڑکے سے مخاطب ہوا
ہاں تو اب تمہارا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ تم نے اندھوں سمیت جان لیوا بیماریوں میں مبتلا مریضوں کا علاج کرکے ان کو شفا دینی شروع کردی ہے۔
لڑکے نے بادشاہ کو جواب دیا میں کسی کو شفا نہیں دیتا ۔شفا دینا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے ۔
بادشاہ گویا ہوا:تو کیا میرے علاوہ بھی کوئی تیرا رب ہے۔
لڑکے نے جواب دیا ہاں میرا اور تیرا رب تو اللہ تعالیٰ ہے۔
بادشاہ نے لڑکے کو اندھیری کوٹھری میں ڈلوادیا اور اس سے تحقیق کی کہ اسے توحید کا درس کس نے سکھایا۔نہایت ظالمانہ تفتیش کے نتیجہ میں لڑکے نے مجبورا ًراہب کے بارے میں بتادیا۔
 
کچھ دیر میں بادشاہ کے کارندے راہب کو دربار میں پکڑ کر لاچکے تھے۔بادشا ہ نے اس کو توحید کے انکار کا حکم دیا۔ راہب نے بادشاہ کو صاف جواب دے دیا کہ وہ توحید سے کسی بھی صورت ہٹنے کےلئے تیار نہیں ۔وہ صرف تنہا ویکتا رب کی ہی عبادت کرتارہے گا۔بادشاہ نے حکم دیا کہ اس راہب کو آرے سے چیر دیا جائے،چنانچہ اس کے2 ٹکڑے کردیئے گئے۔
بادشاہ نے اس شخص سے بھی دین چھوڑنے کےلئے کہا جس کی آنکھوں کی روشنی لڑکے کی دعا سے واپس آئی تھی۔اس شخص نے بھی آنکھوں کی بینائی کے ساتھ شعور کی بھی بینائی پالی تھی لہٰذا بادشاہ کی بات ماننے سے صاف انکار کردیا۔اس کے سرپر بھی آرا رکھ کر چلادیا گیا اور اس کے جسم کے بھی دوٹکڑے ہوکر زمین پر جاگرے۔
 
اب بادشاہ نے لڑکے کو دین سے پھرنے کا حکم دیا ۔لڑکے نے صاف انکا ر کردیا۔بادشاہ کوسخت طیش آیا اور اس نے اسے اپنے سپاہیوں کے حوالے کرتے ہوئے حکم دیا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جاو¿، وہاں پوچھنا کہ یہ اپنے دین کو چھوڑتا ہے یا نہیں،اگر انکار کرے تو پہاڑ سے نیچے گرادو۔
 چوٹی پر پہنچ کر بچے نے دعا کی
 اے اللہ ،تو جس طریقے سے چاہے مجھے ان سے بچالے۔
دعا کرنے کی دیر تھی کہ پہاڑ لرزنا شروع ہوگیا اور سب کے سب سپاہی پہاڑ سے نیچے گر کر ہلاک ہوگئے جبکہ لڑکا صحیح سلامت واپس بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔
بادشاہ نے حیرانگی سے پوچھا: تو کیسے بچ گیا اور جنہیں میں نے تجھے پہاڑی سے گرانے کےلئے بھیجا تھا کیا انہوں نے تجھے گرایا نہیں؟
لڑکے نے جواب دیا: ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ میرے لئے کافی ہوگیا۔
اب بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے سمندر میں پھینک دیا جائے اور حکم دیا کہ اگر یہ عقیدہ¿ توحید سے انکار کردے تو واپس لے آنا اور اگر عقیدہ ¿ توحید پر قائم رہے تو سمندر میں پھینک دینا۔
 لڑکے نے سمندر میں پہنچ پر پھر وہی دعا کی:اے اللہ !تو جس طریقے سے چاہے مجھے ان سے بچالے۔
چنانچہ وہ سارے سپاہی غرق ہوگئے۔
 لڑکا پھر سے بادشاہ کے دربار میں پہنچا اور کہا کہ اللہ میرے لئے کافی ہے۔
لڑکا بادشاہ سے گویا ہوا،تو مجھے اس وقت تک قتل نہیں کرسکتا جب تک تو وہ کام نہ کرلے جس کا میں تجھے حکم دوں،اگر تونے وہ کام کرلیا تو مجھے قتل کرسکتا ہے۔
بادشاہ نے پوچھا وہ کیا کام ہے؟
لڑکے نے کہا :سب لوگوں کو ایک کھلے میدان میں جمع کر پھر مجھے ایک درخت کے تنے کے ساتھ لٹکااور میرے ہی ترکش سے ایک تیر نکال اور پھر یہ پڑھ
’ لڑکے کے رب ،اللہ کے نام سے۔
بادشاہ نے بسم اللہ رب الغلام پڑھتے ہوئے تیر کمان کے درمیان رکھا ،پھر لڑکے کی طرف پھینکا،تیر لڑکے کی کنپٹی پر لگا، لڑکے نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھا جہاں تیر لگا تھا اور پھر اس کی روح پرواز کرگئی۔
لوگوں نے یہ منظر دیکھا تو بے ساختہ کہہ اٹھے :ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔
 
بادشاہ سے اس کے حواریوں نے کہا دیکھ وہی ہوا جس سے تو ڈرتا تھا ۔اب تو سب لوگ اللہ پر ایمان لے آئے ہیں۔بادشاہ نے حکم دیا کہ تمام گلیوں کے د ہانوں پر خندقین کھودی جائیں،ان میں آگ جلادی جائے۔بادشاہ نے کہا کہ جو اپنے نئے دین سے باز آجائے تو اسے چھوڑ دو ورنہ اسے اس میں پھینک دو،لوگوں نے دوڑتے ہوئے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر ان خندقوں میں چھلانگیں لگانا شروع کردیں،ایک عورت اپنے شیر خوار بچے کے ساتھ آئی، وہ آگ میں چھلانگ لگانے سے جھجکی تو بچہ بول اٹھا:اماں !صبر کر ،تو یقینا حق پرہے۔
 
اس قصے کو بیان کرنے کے بعد ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ لڑکے کے قتل کے بعد اہل نجران نے لڑکے کے دین ،یعنی دینِ نصرانیت کو قبول کرلیا تو ذُونواس اپنے لشکر سمیت ان کے پاس آیا ،اس نے انہیں یہودیت قبول کرنے کی دعوت دی اورانکار پر قتل کی دھمکی دی، لوگوں نے یہودیت قبول کرنے سے انکار کردیا جس پر انہیں آگ میں جلایااور بعض کو تلوار سے ان کا قتل عام اور مثلہ کیا حتیٰ کے20 ہزار کے قریب انسان قتل ہوئے،چنانچہ ذُونواس اور اس کے لشکر کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیا ت نازل فرمائی ہیں
خندقوں والے ہلاک کئے گئے ،بڑی ایندھن والی آگ والے تھے جبکہ وہ ان (خندقوں کے کناروں )پر بیٹھے تھے اور وہ جو کچھ اہل ایمان کے ساتھ کررہے تھے اسے دیکھ رہے تھے اور انہوں نے ان (مومنوں)سے اس کے علاوہ کسی چیز کا بدلہ نہیں لیا کہ وہ اللہ پر ایمان لائے تھے جو بڑا زبردست ،نہایت قابل تعریف ہے،وہ ذات کہ اسی کےلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔(الاخدود)۔
 

شیئر: