Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رسول رحمتﷺ کے گھوڑے

جس نے جہاد فی سبیل اللہ کےلئے گھوڑا پالا اسے روزہ دار کے مثل اجر ملے گا اور جس نے گھوڑے  پر خرچ کیا تو اس کا خرچ صدقہ شمار کیا جائےگا
 
 پہلا حصہ
 
عبد الستار خان
 
جاہلیت میں عربوں کو گھوڑوں سے بہت زیادہ شغف تھا۔ وہ گھوڑوں کو اپنی اولاد پر فضیلت دیتے تھے۔ جس شخص کے پاس گھوڑا نہ ہوتا تو اسے قوم طعنے دیا کرتی تھی۔ عربوں کے معروف شاعر عنترہ نے ایک عرب قبیلے کو اپنے اشعار میں طعنہ دیا کہ تم کیسی قوم ہو جو گھوڑوں کو اہمیت نہیں دیتی۔ 
 
عربوں کے شرفاءاور قبیلوں کے سردار گھوڑوں کی خدمت خود کیا کرتے تھے۔ وہ یہ کام خدام اور غلاموں سے نہیں لیتے تھے۔ عربوں کے حکماءکہا کرتے تھے کہ
قبیلوں کے سردار اور شرفاءکےلئے 3 کام کرنے میں عار نہیں: والد، مہمان اور گھوڑے کی خدمت۔
گھڑ سواری اور دوڑ کے مقابلوں میں شرکت قابل فخر ہوا کرتی تھی۔ اس سلسلے میں وہ اپنے کارناموں کو اشعار میں ڈھالتے اور عکاظ جیسے بڑے میلوں میں ان اشعار کو دہرایا کرتے اور فخر کیا کرتے تھے ۔
 
اسلام نے بھی گھوڑوں کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے پالنے کی ترغیب دی۔ گھوڑوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی قسم کھائی ہے
قسم ہے ان (گھوڑوں) کی جو پھنکارے مارتے ہوئے دوڑ تے ہیں، پھر (اپنی ٹاپوں سے) چنگاریاں جھاڑتے ہیں۔ (العادیات1،2)۔
عربوں کی گھوڑوں سے محبت کی وجہ سے ہی قرآن مجید میں حبِ دنیا کی مثال اس طرح دی گئی
لوگوں کےلئے مرغوباتِ نفس، عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے،مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوشنما بنادی گئی ہیں مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں، حقیقت میں جو بہتر ٹھکانہ ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔( آل عمران14)۔
 
رسول اکرم نے بھی گھوڑوں کی تکریم میں فرمایا
جس نے جہاد فی سبیل اللہ کےلئے گھوڑا پالا اسے روزہ دار کے مثل اجر ملے گا اور جس نے گھوڑے کو کھلانے ، پلانے اور پالنے پر خرچ کیا تو اس کا خرچ صدقہ شمار کیا جائےگا۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا
بھلائی گھوڑوں کی پیشانی پر تاقیامت ثبت رہے گی۔
آپ نے گھوڑوں کی تذلیل و تحقیر کرنے سے سختی سے منع فرمایا۔آپ نے گھوڑوں کی دم کاٹنے سے ، خصی کرنے سے اور پیشانی کے بال کاٹنے سے بھی منع فرمایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گھوڑے کی فطرت میں اِترانا شامل ہے۔ ایسا کرنے سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
 
حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں معروف ہے کہ آپؓ اسلام سے قبل عکاظ میلے میں گھوڑوں کی دوڑ میں شامل ہوتے تھے۔ آپؓ قریش کے بہترین گھڑ سواروں میں تھے۔آپؓ کی قد وقامت کے بارے میں لکھا ہے کہ آپؓ گھوڑے پر اچھل کر اور جم کر بیٹھتے، سواری پر بیٹھتے تو پاؤں زمین سے ٹکراتے تھے۔
 
یہی وجہ ہے کہ عربوں نے جس طرح اپنی نسل اور نسب کا خیال رکھا ، اسی قدر گھوڑوں کی نسب ونسل کا بھی خیال رکھا۔ عربوں میں معروف ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام پہلے شخص تھے جو گھوڑے پر سوار ہوئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں ہمیں ملتا ہے کہ آپؑ کو گھوڑوں سے خاص شغف تھا۔ آپؑ کے پاس ایک ہزار گھوڑے تھے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو ورثے میں ملے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام فرمایا کرتے تھے
مجھے میرے والد سے ورثے میں عزیز ترین مال یہی گھوڑے ملے ہیں۔
دیگر متعدد روایتوں میں سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے ان کے گھوڑے پیش کئے گئے تو ان میں اتنے محو ہوگئے کہ اللہ کی یاد سے غافل ہوگئے۔ قرآن مجید میں اس بات کی طرف اشارہ ہے
قابل ذکر ہے وہ موقع جب شام کے وقت اس کے سامنے خوب سدھے ہوئے تیز رو گھوڑے پیش کئے گئے تو اس نے کہا کہ میں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے، یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہوگئے تو (اس نے حکم دیا کہ) انہیں میرے پاس واپس لاؤ، پھر لگا ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے۔( صٓ33-31)۔ 
 
گھوڑوں کا شغف رکھنے والے جانتے ہیں کہ دنیا میں مختلف نسل کے گھوڑوں کی اپنی اہمیت ہے مگر عربی النسل گھوڑا دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتا ہے۔ یہ خالص النسل گھوڑا بھی ماہرین کے نزدیک کئی درجے رکھتا ہے۔گھوڑے نہ صرف سواری کےلئے کام آتے ہیں بلکہ عربوں کی گھوڑوں سے محبت معروف تھی۔ وہ اپنے گھوڑوں سے اس قدر محبت کرتے تھے جیسے کوئی آدمی اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے۔ اسی شغف کی وجہ سے عربوں کے ہاں گھوڑوں کے کئی کئی نام ہےں۔ عربوں کے معروف علمائ، مفکرین اور دانشوروں نے گھوڑوں کی اقسام پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کتابوں میں ابن کلبی کی کتاب”انساب الخیل“ یعنی گھوڑوں کی نسلیں۔غندجانی کی ”گھوڑوں کے نام اور نسلیں“ ،اصمعی کی ”گھوڑوں کے متعلق شافی جواب“ ،ابن ہذیل اندلسی کی ”حلیة الفرسان“ معروف ہیں۔ ان بزرگوں کے علاوہ صاحبی،نمیری اندلسی، دمیاطی او رحال ہی میں سعودی عرب کے تاریخ دان حمد الجاسر نے بھی گھوڑوں کی انواع واقسام، نسلیں اور دیگر مختلف امور پر کتابیں تحریر کی ہیں۔ غسانی کی کتاب گھوڑوں کے متعلق مکمل انسائیکلو پیڈیا ہے جس میں ہر سوال کا جواب مل جائے گا۔ 
 
علامہ جاحظؒ نے لکھا ہے
عربوں کی طرح دنیا کی کوئی قوم نہیں جو گھوڑوں سے اتنا شغف رکھتی ہو، نہ ہی کوئی قوم دنیا میں ایسی ہے جسے عربوں سے زیادہ گھوڑوں کا علم ہو۔ گھوڑے کا عرب کی زندگی سے نہ صرف گہرا تعلق ہے بلکہ یہ ان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربوں کی زبان، شعر وادب میں گھوڑوں کا بہت زیادہ ذکر ہے۔گھوڑوں نے عرب شعراءکے خیال کی سیرابی کی تو انہوں نے گھوڑوں کی مختلف خصال وعادات کو شعر میں سمودیا۔
 
 گھوڑے نہ صرف سواری اور کھیل کے میدان میں استعمال ہوتے بلکہ اہم ترین جنگی سامان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عربوں کے دانشور اکثم بن صیفی نے اپنی قوم کو وصیت کی 
اے میری قوم! گھوڑے پالو اور ان کی تکریم کرنا سیکھو، یہ عرب کے قلعے ہیں۔
 
(جاری ہے)

شیئر: