Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علمائے دين کو” مولانا“ کہنا کيسا ہے؟

 نبی اکرم نے حضرت زيد بن حارثہ ؓ کو مولانا کہہ کر پکارا، یہ دولفظ کا مرکب ہے جس کے متعدد معانی ہيں
 
ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی۔ ریاض
 
برصغير ميں علمائے کرام کو عموماً ”مولانا“ يا ”مولوی“ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ بعض حضرات نے لفظ ”مولانا“ کے متعلق يہ کہنا شروع کرديا ہے کہ مولانا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، لہٰذا کسی انسان کے لئے مولانا کا لفظ استعمال کرنا جائز نہيں حالانکہ ساری کائنات ميں سب سے افضل واعلیٰ اور سارے نبيوں کے سردار حضرت محمد مصطفی نے حضرت زيد بن حارثہ ؓ کو مولانا کہہ کر پکارا۔ آپ کا يہ فرمان حديث کی معروف کتابوں حتیٰ کہ صحيح بخاری ميں بھی موجود ہے۔ بعض نے کسی انسان کو مولانا کہہ کر پکارنے کو شرک تک کہہ ديا ہے۔ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شيخ عبد العزيز بن باز ؒنے ايک سوال کے جواب ميں کہا کہ نبی اکرم ، قبيلہ کے سردار، اپنے والد اور بادشاہ وغيرہ يعنی کسی انسان کے لئے مولانا کا لفظ استعمال کيا جاسکتا ہے، جو ان کی ويب سائٹ پر سنا اور پڑھا جاسکتا ہے۔
 
سب سے پہلے ”مولانا“ لفظ کے معنی سمجھيں۔ ”مولانا“دو لفظوں سے مرکب عربی زبان کا لفظ ہے۔ايک ”مولیٰ“ اور دوسرے ”نا“، يعنی مولانا ايک لفظ نہيں جيساکہ بعض حضرات سمجھتے ہيں۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے جس کی جمع ”موالی“ ہے، جس کے تقريباً 20 معانی ہيں، جن ميں سے چند معانی حسب ذيل ہيں
آقا، مالک، پرورش کرنے والا، دوست، آزاد کرنے والا، آزاد کيا ہوا غلام اور مہربان۔ 
 
لفظ ”مولیٰ“ کے معانی کے لئے دنيا کی مشہور ومعروف ڈکشنرياں ديکھی جاسکتی ہيں۔ ”نا“ عربی زبان ميں ضمير  ہے جس کے معنی”ہمارے“ ہيں۔ ”مولائی“ ميں ”ی“ ضمير ہے جس کے معنیٰ” ميرے“ ہيں۔ ”مولاکُم“ ميں ”کُم‘ ضمير ہے جس کے معنیٰ تمہارے ہيں۔ ”مولاہ“ ميں ”ہ‘ ‘ضميرہے جس کے معنیٰ ”اس کے“ ہيں۔ غرضيکہ مولانا کے معنیٰ ہيں: ہمارے آقا، ہمارے مالک، ہمارے قائد اور ہمارے دوست وغيرہ ۔جس طرح غلام اپنے مالک کو مولائی يا مولانا کہہ سکتا ہے، اسی طرح ايک شخص اپنے دينی رہنما کو مولانا کہہ کر پکار سکتا ہے۔ احاديث کی سند کا ذکر کرتے ہوئے بڑے بڑے محدثين (مثلاً امام بخاری ؒاور امام مسلمؒ) بعض راويوں کا تعارف اس طرح کراتے ہيں کہ يہ فلاں شخص کا مولیٰ ہے۔ مثلاً امام بخاریؒ راوی ”کريب“ کاتعارف ابن عباس ؓکے مولیٰ اور راوی ”نافع“ کا تعارف ابن عمر ؓکے مولیٰ سے کراتے ہيں۔ کتب ِحديث ميں اس طرح کی سےکڑوں مثاليں موجود ہيں۔ فقہ اور اصولِ فقہ کی مشہور ومعروف کتابوں ميں مولیٰ کا لفظ مختلف معانی ميں استعمال کيا گيا ہے۔ يقينا ہمارا حقيقی مولیٰ صرف اور صرف اللہ کی ذات ہی ہے ، جس کا کوئی شريک نہيں ليکن مولیٰ دوسرے معنیٰ ميں انسان کےلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
 
قرآن کريم ميں بھی مولیٰ کا لفظ مختلف معانی ميں استعمال ہوا ہے۔ صرف مولیٰ کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا اور متعدد ضميروں کے ساتھ بھی يہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ سورة الحج ،آيت 78  ميں 2جگہ مولیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے، ايک جگہ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جبکہ دوسری مرتبہ بغير ضمير کے اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔ قرآن کريم ميں مولیٰ کا لفظ دوسرے معانی ميں بھی استعمال ہوا ہے۔ سورة الدخان آيت 41 میں ہے: ”جس دن کوئی حمايتی کسی حمايتی کے ذرا بھی کام نہيں آئے گا اور ان ميں سے کسی کی کوئی مدد نہيں کی جائے گی۔ اس ميں مولیٰ” اللہ“ کے لئے نہيں بلکہ دوست کے معنیٰ ميں يعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح سورة الحديد، آيت15 میں ہے: ”چنانچہ آج نہ تم سے کوئی فديہ قبول کيا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کفر اختيار کيا تھا، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے، وہی تمہاری رکھوالی ہے اور يہ بہت برا انجام ہے۔“ اس ميں لفظ مولیٰ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جگہ يا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ غرضےکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کريم ميں يہ واضح کرديا کہ مولیٰ کے متعدد معانی ہيں۔ قرآن کريم ميں لفظ مولیٰ ”نا“ ضمير کے ساتھ 2جگہ سورة ا لبقرة آيت286 اور سورہ التوبہ آيت51 میں استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے يعنی ليکن اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ مولانا ايک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضميريں استعمال کی جاسکتی ہيں: مولائی، مولانا، مولاکم، مولاہ وغيرہ۔
 
سورة التحريم آيت 4 میں ہے:” اگر نبی کے مقابلے ميں تم نے ايک دوسرے کی مدد کی تو ياد رکھوکہ اُن کا ساتھی اللہ ہے اور جبرئيل ہيں، اور نيک مسلمان ہيں۔“اس ميں واضح طور پر لفظ مولیٰ ”ہ“ ضميرکے ساتھ اللہ، حضرت جبرئيل اور نيک لوگوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ غرضيکہ اللہ بھی مولیٰ، جبرئيل بھی مولیٰ اور تمام نيک بندے بھی مولیٰ ہيں۔ جب اللہ تعالیٰ نے عام مومنين کو مولیٰ کہا ہے تو ہم ”نا“ ضمير لگا کر علمائے دين کو مولانا کيوں نہيں کہہ سکتے ۔
 
 خلاصہ کلام يہ ہے کہ مولانا عربی زبان کا لفظ ہے اور يہ دولفظوں سے مرکب ہے، ايک مولیٰ اور دوسرے ضمير ”نا“۔ مولیٰ کے متعدد معانی ڈکٹشنریوں ميں موجود ہيں۔ قرآن کريم ميں بھی يہ لفظ متعدد معانی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ صرف لفظ مولیٰ بھی استعمال ہوا ہے اور اس کے ساتھ متعدد ضمير لگا کر بھی استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا علمائے دين کو مولانا کہنا بالکل صحيح ہے۔ 
 
(مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں)
 

شیئر: