Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قصہ ہیرو، ہیروئن اور ایکشن فلموں کا

 
محمد قمر اعظم۔ جدہ
 
ہیروئن کے کپڑے اچھے لیکن رقص جواب طلب ضرور تھے ، ہیرو ”وسیع و عریض رقبے“ کا مالک کہ ہیروشیما لگے ، ون مین آرمی تھا کہ بارڈر پر بھےجنا زےادہ مناسب تھا ہیروئن کو انڈے منگوانے ہوں یاٹنڈے ، روٹی پکوائی ہو یا ہنڈیا بھنوائی ، برکھا ہو رم جھم سے اور موبائل بجے چھم چھم سے ہر جگہ ہیرو کو دے ا ہم سے حال ہی میں ایک سینما ہال میں ایکشن فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا ہیرئن کے کپڑے اچھے تھے رقص لاجواب تو نہیں مگرجواب طلب ضرور تھے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ ہیروئن کے رقصوں کا جواب فلم کے کرتا دھرتا وں سے ضرور طلب کرنا چاہیے۔ ہیرو کی لفاظیاں قابل تعریف تھیں مکالمے بھی قابل داد، گانے ناقابل اشاعت اور کہانی ؟؟ وہ کہانی تو پتہ ہی نہیں چلی ۔کیا فلموں میں کہانی بھی ہوتی ہے ؟ کیمرہ مین کمال کا تھا، ایسی عکاسی کی ہے فلم کی کہ ہیرو کے چہرے کی جھریاں تک یاد ہوگئیں اور ہیروئن کا سراپا ازبر ہو گیا۔ زندگی بے حد خوشگوار تو کبھی بھی نہیں تھی مگر اب فلم دیکھ کر تو اور زیادہ دشوار لگنے لگی ۔ اپنی بزدلی کا احساس اور بڑھ گیا ہے بے اختیار دل پندرہ بیس آدمیوں کو مارنے کے لئے بے قرار ہو گیا۔فلم کے ہیرو کے پاس کسی ملک کی فوج سے بھی زیادہ اسلحہ تھا ۔وہ بلاشبہ ون مین آرمی تھا ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ ایسے نوجوانوں کو فلم میں ضائع کرنے کے بجائے بارڈر پر بھیج دینا زیادہ مناسب ہو گا اور وقوعہ سے قریباً تین یا چار لاکھ فوجی ہٹا لینے چاہیے کہ ہیرو اتنے ہی فوجیوں کے برابر تن تنہا خدمت انجام دے سکتا ہے ۔ 
 ولن غالباً ڈاکو تھا اس نے مذکورہ بالا فلم میں اتنے ڈاکے ڈالے جتنا کہ ایک اخبار والا کسی کے گھر میں اخبار بھی نہ ڈالتا ہو گا اور آپ کے دروازے پر پڑوس کی ماسی اتنا کچرا بھی روز نہیںنہ ڈالتی ہو گی۔حالانکہ میں ایک شریف شہری واقع ہوا ہوں اس کے باوجود فلم دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ ایک درخواست اعلیٰ حکام کے نام ارسال کروں کہ حضور والا !!! بندہ ناچیز کو قومی اسلحے میں سے چند کلا شنکوفیں ، چاقو چھریاں، ڈنڈے،لاٹھیاں، بندوقیں ، پستولیں اور اسلحہ و بارود عنایت کیا جائے تاکہ اپنے نام نہاد دشمنوں سے خود نمٹ سکوں۔ حکومت کو ایک عام شہری کی فضول سی جان کی حفاظت کے علاوہ بھی لاکھوں کروڑوں بڑے بڑے کام ہیں اور یہ انتہائی فضول اور غیر ضروری کام یقیناًحکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہو گا۔ عوام کو حکومت کی ذمہ داریوں کا زرہ برابر احساس نہیں اسی لئے ہر وقت عدم تحفظ کا رونا روتے رہتے ہیں۔ فلم کے ہیرو کو دیکھ کر ہمت نہیں پکڑتے جو خود نہ صرف اپنی حفاظت کرتا ہے بلکہ عوام الناس خصوصاً ہیروئن کی حفاظت کے لئے 24گھنٹے ڈیوٹی انجام دیتا ررہتا ہے۔
 صورتحال کچھ یوں بنتی ہے کہ ہیروئن کو کہیں جانا پڑے یا اس کادل ڈرے اسے سبزی اور دال منگوانی ہو یا قربانی کے بکرے کی کھال کھنچوانی ہو۔ اسے انڈے پکانے ہوں یا ٹنڈے منگوانے ہوں، گھر کی صفائی میں یا کپڑوں کی دھلائی میں ، روٹی پکوائی میں یا ہنڈیا بھنوائی میں۔وہ نکلے گھر سے یا ابا اُس پر برسے، برکھا ہو رِم جھم سے اور موبائل بجے چھم چھم سے اس کو اگر ولن چھیڑے یا وہ گر جائے کنویں میں گہرے ہر جگہ ہیرو کو دے دھم سے۔ گویا ہیرو اِک بلائے ناگہانی کی طرح ہر جگہ موجود ہے۔ فلموں کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ نو عمری میں مجھے فلمیں دیکھنے کا اتفاق کم کم ہوا مگر جتنی فلمیں بھی دیکھیں ان سے ذہن میں ایک تاثر پیدا ہو گیا کہ تمام زمیندار یا جاگیردار بدمعاش ہوتے ہیں اور غریب مزارعوں کی بیٹیوں پربُری بلکہ بے حد بُری نظر رکھتے ہیں۔ 
 اتفاق سے ایک بار ایک گاﺅں کے زمیندار انکل (والد کے دوست) سے ملنے گاﺅں جانے کا اتفاق ہوا چند روزہ قیام میں بڑی کوشش اور جاسوسی کی کہ ان کی یا ان کے بیٹے کی بدمعاشی پکڑ میںآجائے مگر تلاش وبسیار کے باوجود انکل زمیندار آدم بے زار، کام کی زیادتی کا شکار اور دِن رات زمینوں کی فکر میں خوار نظر آئے۔ ان کے صاحبزادے کے پاس نہ تو غنڈے دوستوں کے باعث ہجوم لوفر، نہ ان کے گلے میں مفلر،نہ ہی دل بہلانے کو کوئی مسخرہ یا جوکر، نہ نظریں گندہ جوہڑ، نہ بدمعاش نوکر ۔وہ غریب میڈیکل کا دبلا پتلا اسٹوڈنٹ تھا جسے کھانا کھانے تک کاوقت نہیں تھا۔ 
 ایک اور ستم بالائے ستم یہ کہ گاﺅں کے کنویں پر اور سڑکوں پر فینسی پریڈ کرتی ہوئی الہڑ مُٹیاریں بھی نہیں دکھائی دیں۔کئی دِن کنویں پر جا کر دیکھا ، کھیتوں کے چکر لگائے مگر مایوسی ہوئی، دل ایسا بے زار ہوا کہ اب گاﺅں جانے کا تو کیا گاﺅں دیکھنے کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں بھی خوب ہوں ،معلوم ہی نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہوں۔ پاکستانی قوم کی طرح بے نشاں منزل کا سُراغ ڈھونڈتے ڈھونڈتے خیالا ت کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا ہوں۔
 ہاں!! تو میں کہہ رہا تھا کہ میں ارباب اختیار کو اس بات کی یقین دہانی بھی کروانا چاہتا ہوں کہ میں ان کا دیا ہوا اسلحہ خدا نخواستہ چھپ کر استعمال نہیں کروں گا بلکہ ہیرو کی طرح پر ہجوم پبلک مقامات پر ہی کرونگا اور مجال ہے جو ولن اور اس کے ساتھیوں کے علاوہ بھی کوئی اور عام شہری ہلاک ہو جائے ۔ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک اور خیال ذہن کے اسکرین پر نمودار ہوا جس نے مجھے مایوس کر دیا۔ بھلا حکومت میری کیوں سنے گی؟ میں ہیرو تو نہیں ہوں اور نہ ہی روایتی پنجابی فلموں کے ہیرو جیسا ہوں پھر بھلا میری دال کیسے گلے گی۔دل تو یہ بھی چاہتا ہے کہ میں خود ہی کوئی فلم بنا ڈالوں۔ چار،پانچ پڑوسی ملک کی فلموں کے ٹوٹے اکھٹا کروں اور جوڑ جاڑ کر ایک دیسی فلم بنا ڈالوں۔ سی ڈیاں تو بہت ہیں میرے پاس۔
یادش بخیر!!! کسی زمانے میں (زمانہ قبل از تاریخ میں نہیں )ہمارے پنجابی فلموں کے ہیرو دراصل اتنے وسیع و عریض رقبے کے مالک تھے کہ ہیرو کے بجائے ہیروشیما لگتے تھے۔ ایک بار کسی ہیرو کا جی چاہا کہ تانگے میں سفر کرتے ہیں ، ایک تانگے والے سے پوچھا ”کیوں بھائی نکڑ تک پہنچا دو گے؟“ اس نے سراپے پر بھرپور نظر ڈالی اور بڑی راز داری سے بولا”چپکے سے بیٹھ جائیے گھوڑے کو پتہ نہ چلے“۔ میرے ذہن میں ایک بھر پور فلم کا پلاٹ ہے ( اب تو صرف فلموں کے پلاٹ ہی ہو سکتے ہیں اپنے کہاں؟) اگلے ہفتے قارئین گرامی کے ساتھ اس پر تفصیلی تبادلہ خیال کرونگا 
  ....... یار زندہ صحبت باقی 
٭٭٭٭٭٭

شیئر: