Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانیت نوازی ، اسلام کی بنیادی تعلیم

ہم نے مذہب کے آڑ میں جس تشدد کو رواج دیا ہے، ہماری کئی نسلیں اس سے متاثر ہوں گی
 
سعید الرحمن ۔ مکہ مکرمہ 
 
  ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں اور یہاں پر ایک انسان اپنی دنیا میں مگن دوسروں سے بے خبرہے۔ ہر ایک بشر نے اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے نجی معاملات میں دخل اندازی کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور کوئی بھی اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتا بلکہ دوسروں کو اس کی ذمہ داری بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ۔ 
میں اس کو معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان اور فرد سے شروع کرنا چاہتا ہوں ۔ایک فرد جو بالغ اور عاقل ہو معاشرے میں وہ اپنے کردار کو نبھا رہا ہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے پہلے اس کی ازواجی زندگی ہوتی ہے جو اس پر اثر اندز ہوتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں وہ ایک با مثال کارکردگی دکھائے اور خود اور اپنے بچوں کو دنیا کی نظر میں کامیاب ترین شخصیت کے طور پر جانا جائے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کےلئے وہ دن رات محنت کرتا ہے اور پیسہ اور نام کماتا رہتا ہے مگر ضروری ہے کہ وہ معاشرے کے طور طریقوں پر چلے اور روایا ت کو برقرار رکھتے ہوئے مذہبی فریضہ بھی ادا کرتا جائے جیسا کہ ہمیں معلوم ہیں کہ ہم سب روایتی اور مورثی مسلمان ہیں۔اسلام کو سمجھنا اور اسلام کی تابعداری کرنا 2 الگ معیار ہیں۔ اسلام کی تابعداری کرنا ہی ایک فلاحی معاشرے کو ترتیب دے سکتا ہے اور اگر ہر کوئی طریقے سے اسلام کو سمجھنا اور سمجھانا شروع کر دے تو یہی حال ہوگا جو ہمارے ملک پاکستان کا ہے۔ 
 
ہر گھر میں اپنے طریقے سے اسلام کی تشریح و تفسیرو ترویج جاری ہیں۔ ہم نے مذہب کے آڑ میں جو تشدد کو رواج دیا ہے ہماری کئی نسلیں اس رواج کی سزا سے متاثر ہوں گی۔مذہب کو استعمال کرکے سماجی زندگی کا گلا گھونٹنا ہمارے ہاں بہت بڑا المیہ بن چکا ہے ور اس پر کوئی مثبت قدم کے بجائے بزور قوت اس کا مقابلہ کیا جارہا ہے۔اسلام ہمیں ایک فلاحی معاشرے اور سماجی تعلقات پر مبنی زندگی فراہم کرتا ہے جبکہ کچھ لوگ اسلام کو اتنے محدود نظر سے دیکھتے ہیںکہ ان کو یہ الفاظ بھی برداشت نہیں ہوتے کہ سماجی زندگی کیا ہوتی ہے۔جو کتابوں میں لکھا ہے قرآن اور حدیث میں نہیں۔ وہ اس دنیا میں وجود نہیں رکھتی بلکہ اس طر ح کسی چیز کو اختیار کرنا یا اس سے مستفید ہونا گناہ ِکبیرہ سمجھے جاتے ہیں لیکن خود کسی ناکسی درجے میں اپنی اس بات سے انحراف کر رہے ہوتے ہیںاور اسی خوش فہمی میں وہ تشدد کی راہ اختیار کر تے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے خاندانی زندگی کو اس مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔اپنے اولاد کی تربیت اس طرح سے کرتے ہیں جیسے اس کی مرضی ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھنا بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ کس طرف جا رہے ہیںاور اپنے دل و د ماغ کو اتنا مطمئن کردیتے ہیں کہ کسی کی بات سننا گوارہ ہی نہیں کرتے اور ہمہ وقت مذہب اور دین پر مر مٹنے کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔مگر افسوس کہ یہ اکثر غلط استعمال ہوجاتے ہیں۔
 
اسلام دین فطرت ہے اور اسلام ہمیشہ اعتدال کو پسند کرتا ہے اسلام امن کا درس دیتا ہے اور دین اسلام کی روشنی میں سماجی زندگی کو پروان چڑھنے پر زور دیتا ہے، فلاحی اصولوں کی پرزور حمایت کرتا ہے مگر کیوں ہم خود کو دوسروں کے حوالے کرنے یعنی کسی عقل مند مداری قسم کے لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا بننے کیلئے خود اور اپنی اولاد کو پیش پیش رکھتے ہیں۔یہی بات ہے کہ پاکستان کے اکثر علماءنے حکمت پر زور دیا ہے اور سماجی ،فلاحی زندگی استوار کرنے پر زور دیا ہے مگر اس سے انکار کرنا بھی ممکن نہیں کہ ہم مذہبی اور مغربی دونوں قسم کے شدت پسند پائے
 جاتے ہیں اور تمام قوم کسی نہ کسی درجے میں ان2 شدت پسندوں کے نرغے میں آجاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے اور آنے والی نسل سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ان حالات کو بھول کر ایک صحت مند اور خوشحال زندگی گزارے گی بے معنی ہے۔ہر طرف سے مسئلے مسائل کا شکار خاندان کسی نہ کسی طریقے سے شدت پسندی پیدا کر رہا ہے۔ خواہ وہ دنیا دار کی صورت میں ہو یا دیندار کی صورت میں ہواسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ملک اور معاشرے کو اگر بچانا ہے تو اس پر آج سے بلکہ ابھی سے انفرادی طور پر کام شروع کرنا ہوگا۔اپنے اولاد کی صحیح تربیت پر توجہ دینی ہوگی،مذہب کوگلے لگاناہوگااور مذہب کو اصولی رہنما کے طور پر اپنا ہوگا مگر مذہب کو ذاتی مفاد کے استعمال سے روکنا ہوگا اور معاشرے کو صحیح معنوں مین نفرتوں سے پاک کرنا ہوگا۔ اس کےلئے بھائی چارے اور اخوت کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔مزدور سے لے کر بادشاہ تک کو ایک ہی سوچ کو پروان چڑھنا ہوگا کہ اس معاشرے کو بہترین بنانا ہے اور ہر کسی کو اپنے ہی کام سے کام رکھنا ہوگا۔
 
معاشرے کے اکائی فرد کو ٹھیک کرنا ہوگا اور اس کیلئے عملی طور پر کام کرنا ہوگا جس سے ہماری آنے والی نسل مستفیدہو سکے اور تشدد کے بیج کو اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سب اپنے آپ کو صحیح مسلمان ثابت کریں اور خود اور دوسروں کیلئے امن کا پیغام بن جائیں کیونکہ تشدد کبھی بھی کسی بھی صورت میں نتائج نہیں دیتی بلکہ انسانیت ہی اس دنیا کا سب سے پہلا قاعدہ اور قانون ہے۔ ہمارے بچوں کے ذہنوں مین پر تشدد واقعات اور حالات نقش ہوتی جا رہی ہیں اور بچوں کی ذہنی نشونما پر بہت گہرے اثرات چھوڑ رہی ہیں خواہ وہ مغرب پسندی کے حوالے سے ہو یا مذہب کے حوالے سے یا پھر معاشرے میں بڑھتی ہوئی جرائم کی وجہ سے ہو۔
 

شیئر: