Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسکول تعلیم کا ذمہ دار ہے، تربیت کا نہیں

دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ اخلاقیات کا سبق اسکول میں پڑھا یا جاسکتا ہے، اسکول میں تعلیم و تربیت ممکن نہیں
 
علی سعد الموسیٰ
 
حقیقی معنوں میں دیوالیہ پن کیا ہے؟ معاشی کساد بازاری ، شرح نمو میں کمی اور تجارت میں مندی کا دیوالیہ پن سے کوئی تعلق نہیں معاشرے اور قومیں اس وقت دیوالیہ ہوجاتی ہیں جب ان کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہوجاتا ہے۔ دیوالیہ ہونے کی اولین علامت کرنسی کی قیمت گرنا نہیں بلکہ معیار تعلیم کا گرنا ہے۔ آدھی صدی پرانی بات ہے ، اس دنیا میں سنگاپور نامی ایک دور دراز جزیرہ تھا۔ آج بھی اس کے عجائب گھر میں اس دور کی تصاویر موجود ہیں جب سنگاپور مہمل جزیرہ تھا جس میں ترقی وتمدن نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پھر جب سنگاپور ایشین ٹائیگروں کا مقابلہ کرنے اٹھاتو اس نے اپنے ملک میں صنعتیں نہیں لگائیں جو غیر ملکی ہنرمندوں سے چلائی جاتیں بلکہ اس نے نظام تعلیم پر اپنی قومی پیداوار کا دو تہائی حصہ صرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دو تہائی میں سے آدھی رقم ریاضی اور سائنس پر صرف کی۔ اس فیصلے پر پوری قوم دلجمعی سے 20برسوں تک ثابت قدم رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج سنگاپورمیں دنیا کا بہترین نظام تعلیم رائج ہے اور اس کی یونیورسٹیاں دنیا کی 20بہترین یونیورسٹیوں میں شامل ہیں۔ اب حیرتناک بات یہ ہے کہ آج سنگاپور نظام تعلیم پر اپنی قومی پیداوار کا صرف 9فیصد حصہ صرف کر رہا ہے۔ وجہ کیا ہے ؟ اس نے بنیاد تیار کرلی تھی۔
 
دوسری مثال لیجئے! فن لینڈ دنیا کا چھوٹا سا ملک ہے مگر اس چھوٹے ملک کے پاس دنیا کا دوسرا بہترین نظام تعلیم ہے۔ اس ملک نے جرات مندانہ فیصلہ کیا کہ اسکول میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے صرف 3گھنٹے چاہئیں۔ آج دنیا بھر میں اس ملک سے کم اسکول دورانیہ کسی کا نہیں۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس لئے کہ اسے بہت پہلے معلوم ہوگیا کہ اسکول میں بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت ممکن نہیں۔ اس نے حقیقت کا بہت پہلے اعتراف کرلیا کہ اسکول کا اصل مقصد بچوں کو معیاری تعلیم دینا ہے ، ان کی تربیت کے لئے اسکول کا دسواں نمبر توہوسکتا ہے مگر پہلا نہیں۔ اس کے برعکس فن لینڈ کے تعلیمی ماہرین کو اندازہ ہوگیا کہ اسکول بچوں کے اخلاق بگاڑنے میں اولین کردار ادا کرتا ہے۔ وہیں سے بچہ بدزبانی ، بدکلامی ، سگریٹ نوشی، انحطاط اور منشیات تک سیکھتا ہے۔ اخلاقی بگاڑ کی پوری فہرست کی تربیت بچہ طویل دورانیہ کی تعلیمی دن سے حاصل کرتا ہے۔
 
حقیقت یہی ہے کہ اسکول تربیت کا ذمہ دار نہیں نہ ہی بچوں کو اسکول سے اخلاقیات سکھائی جاسکتی ہيں۔ ہم سب اس بات کے گواہ ہیں کہ ہمارے اخلاقی بگاڑ کا آغاز اسکول سے ہی ہوا۔ ہم میں سے ہر ایک نے اسکول سے ہی مخرب الاخلاق سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ اسکول اور اساتذہ کوکوسنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسکول اور استاذ کا کام تعلیم ہے ، تربیت نہیں۔ ہم استاذ سے معیاری تعلیم کی توقع رکھیں، وہ کلاس کے 30بچوں کی تربیت نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اسکول کا پرنسپل 300بچوں کی تربیت کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا ۔ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ اخلاقیات کا سبق اسکول میں پڑھا یا جاسکتا ہے۔ اسکول میں تعلیم و تربیت ممکن نہیں۔ تعلیم کے نصاب میں اخلاقیات شامل کرنا عبث ہے کیونکہ تعلیم ریاضی، سائنس ، فزکس اور دیگر موضوعات کا نام ہے۔ جن جن معاشروں میں بھی تعلیم وتربیت کے ملاپ کے اس جھوٹ پر یقین کیا جارہا ہے ان کا حال سب کے سامنے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ان کا کوئی شمار نہیں۔ 
 
(بشکریہ: الوطن)
 

شیئر: