Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لڑکی ڈیکوریشن پیس نہیں

 
تسنیم امجد ۔ ریاض
 
 
آج کل پریکٹیکل ہے اور مجھے دیر ہوجائے گی۔ نادیہ بے بسی سے بولی لیکن تائی اماں نے ڈانٹتے ہوئے کہا کہ بس ہمیں کچھ نہیں سننا، کسی کے سپرد کردینا کیونکہ آج پھر تمہیں دیکھنے کوئی آرہے ہیں۔ راستے بھر وہ پریشان رہی، عجیب مذاق بنارکھا ہے ایسا لگتا ہے دکانداری ہورہی ہے ، وہ بڑبڑارہی تھی۔ بکاو مال کی طرح پرکھنے چلے آتے ہیں یہ لڑکے والے، اماں بھی عجیب ہیں آو بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی، یہ پانچویں مرتبہ ہے ، اسے اپنے وجود سے نفرت سی ہونے لگی ، انہی سوچوں میں الجھی وہ کلاس روم کے سامنے پہنچ گئی، آج وہ لیکچر دینے کے قابل نہ تھی، طالبات کو پریکٹیکل نوٹ بک مکمل کرنے کے لئے کہہ کر وہ پھر سوچوں میں گم ہوگئی۔ لڑکے والوں کا لڑکی کو دیکھنے آنا اور پھر قبول یا مسترد کرکے چلے جانا ، برسوں کی روایت ہے ۔ اپنی تہذیب کی اولین بنیاد میں ہم نے ملاوٹ کرڈالی جس کے اثرات نے اب ہم ہی کو پریشان کر ڈالا ہے۔ لڑکی کو ڈیکوریشن پیس کی مانند لڑکے اور اس کے گھروالوں کے سامنے پیش کرنا، عزت نفس کا مذاق اڑانا ہے ۔ مسترد کئے جانے پر لڑکی کے دل پر کیا گزرتی ہے ، شاید اس کا اندازہ نہیں کسی کو۔
اس ر وش نے آجکل بیوٹی پالروں اور نفسیاتی ڈاکٹروں کی چاندی کردی ہے۔ لڑکے والوں کے معیار پر پورا اترنے کی کوشش میں عجیب کھچاو سا ہے ۔ خود غرضی نے سوچ کے دائرے تنگ کردئیے ہیں ، یہی تنگ نظری اس رویے کی جڑ ہے ، ہر دوسرا گھرانہ اسی قسم کے حالات سے دوچار ہے ، لڑکا تجارت کا ایک ذریعہ بن چکا ہے، اس کی تعلیم کا سودا کیا جاتا ہے ، اکثر والدین کو یہ کہتے سنا ہے آخر اتنا پڑھا یا ، لکھایا ہے اس خرچے کو وصول کرنا تو ہمارا حق ہے۔ اس طرح اکثر لڑکے 40کے ہوجاتے ہیں، والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنے معیار کی تلاش میں اپنا بیٹا بھی بوڑھا ہورہا ہے۔
مسترد کی جانے والی لڑکیوں کا کہنا ہے کہ عجیب کمتری کا احساس انہیں خود سر بنادیتا ہے۔ ذلت کا سا احساس ہوتا ہے ایسے محسوس ہوتا ہے
ٹوٹ کر زرد سے پتے میری جانب لپکے
ہاتھ پھیلا جو مرا شاخ ثمر کے آگے
ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ دونوں جانب سے ایسی حکمت عملی اپنا نا ضروری ہے کہ جذبات مجروح نہ ہوں، لڑکی دیکھنے کا اہتمام کہیں بھی کیا جاسکتا ہے ، کسی محفل یا اس کے مقام ملازمت پر،
سماجی ماہرین کی تحقیق نے بھی واضح کیا ہے کہ شادی بیاہ کے معاملات کو انا یا غیرت کا مسئلہ بنانا خود کو نئے مسائل سے دوچار کرنا ہے جو خود ساختہ ہیں، بے جوڑ رشتے اکثر لالچ کی بنیاد پر باندھے جاتے ہیں۔ 
آج ہماری تحریر کا مقصد والدین کو یہ احساس دلانا ہے کہ دور جدید میں ہمارا انداز زندگی یقینا بدل چکا ہے مسابقتی الجھنوں میں زندگی کا یہ انداز سادگی پر مبنی ہونا ضروری ہے ۔ گھر کے ماحول میں بچپن سے ہی روایات کے احترام کا سبق پڑھانا ضروری ہے ۔ شادی انسان کی زندگی کا اہم پہلو ہے ، ایک اچھے شریک حیات کی تلاش ہونی چاہیے ۔ کامیاب رشتوں اور شادیوں کیلئے ضروری ہے کہ زندگی سے مصنوعی پن کو ختم کرکے حقائق پر غور کریں، قناعت اور میانہ روی کا راستہ قلبی سکون کا باعث ہے۔ شادی 2 افراد کے باہمی تعلق کا نام نہیں بلکہ دو خاندانوں کے ملاپ کا نام ہے۔ مشرقی معاشرے میں خاندانوں کے مابین اچھے مراسم بھی کامیاب زندگی کی علامت ہیں ۔اکثر خاندانی رنجشیں جدائی کا باعث بنتی ہےں ۔ رشتوں کی جوڑ توڑ کے بعد لین دین بھی سر اٹھاتا ہے ، ہمارے گرد بیشمار قصے بکھرے ہیں۔حال ہی میں سگے تایا نے خون کا حق ادا کرتے ہوئے جہیز نہ لینے کا ڈھنڈورا پیٹا لیکن شادی سے ایک ہفتہ پہلے بھائی سے کہا، گھر میں سب کچھ ہے، لڑکی عیش کرے گی، بس تم ایک گاڑی دلوادو، تمہاری بیٹی ہی اس میں گھومے گی۔ بھائی بیچارے نے قسطوں پر اپنے نام کی مہنگی گاڑی نکلوادی۔ 
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ اپنے اور غیروں کے پلڑے یکساں وزن رکھتے ہیں۔ یوں لگتا ہے رشتوں کے پس پردہ مطالبات یا حسرتوں کی تکمیل ہونے جارہی ہے۔ آج کی بیٹی یقینا اپنے کیریئر کو تو اپنے تئیں سنبھال چکی ہے لیکن وہ اس معاشرے سے رویوں کی تبدیلی کی خواہاں ہے ، وہ اپنا حق مانگتی ہے، وہ جودین اسلام نے اسے دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ لالچ کی بنیاد پر قائم رشتوں سے بہتر یہی ہے ، تنہا زندگی گزار لی جائے۔ شادی سے پہلے والدین کواس کی فکر کھاتی ہے اور شادی کے بعد کے جھمیلے ان کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔ یہ رشتے ناطے ہی ہیں جو ذہنی سکون دے سکتے ہیں ، رشتوں کی سیاست پینترے بدل بدل کر ڈستی ، بھلا کہاں چین لینے دیتی ہے۔
******

شیئر: