Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تارکِ نماز کافر ہے یا محض فاسق؟

کلمہ توحید کے نتیجہ میں جنت میں جانے والوں سے مرادوہ لوگ ہیں جنہوں نے اخلاصِ دل کے ساتھ یہ کلمہ پڑ ھا اور فرائض کو ترک نہیں کیا
 
محمد منیر قمر۔ الخبر
 
 بعض صحابہ وتابعین اور ائمہ وفقہاءنے یہ مسلک اختیار کیا ہے کہ بے نمازمشرک اور دین اسلام سے خارج ہے ۔ دوسروں نے کہا ہے کہ کافر (خارجِ اسلام) تونہیں البتہ تارکِ نماز فاسق ہے ۔ غرض اس مسئلہ میں علماءسلف وخلف میں اختلاف چلا آرہاہے اور موضوع کی اہمیت کے پیشِ نظر اس پر قد ر ے تفصیل سے گفتگو کرنا نہ صرف مناسب بلکہ ضروری لگتا ہے چنانچہ جمہور صحابہ کرام ؓتارکِ نماز کے کفر کانظر یہ رکھتے تھے جن میں سے علامہ ابن حزمؓنے محلّٰ میں حضرت عمرفاروقؓ ،عبد الرحمن بن عوفؓ ، معاذ بن جبلؓ اور ابو ہریرہؓ کے اسماءگر امی بطورِ خاص ذکر کئے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے : 
اورہمیں صحابہ کرامؓ میں سے ان صحابہ کا کوئی مخالف بھی معلوم نہیں۔ (بحوالہ مختصر الترغیب الشیخ مبارک التمیمی)
 
اِن الفاظ سے اس موضوع پر صحابہ کرامؓ کے اجماع کا اشارہ ہے اور علامہ ابن حزمؓکے ذکر کر دہ اسماءگرا می پر امام منذریؓنے الترغیب والترہیب میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ، حضرت جابر بن عبد اللہؓ اور حضرت ابو الدردائؓ کے ناموں کا اضافہ کیا ہے کہ یہ بھی تارکِ نماز کے کفر کے قائلین ہیں ۔ ایسے ہی تابعین وائمہ میں سے اما م احمد ، اسحاق ، عبد اللہ بن مبارک ، ابراہیم نخعی ، حکم بن عیینہ، ابو ایوب سختیانی ، ابو داﺅد طیالسی ، ابن ابی شیبہ اور زہیربن حرب بھی قائلینِ کفرمیں سے ہیں ۔ 
 
علامہ ابن قیمؓنے کتاب الصلٰوة میں علامہ ابن حزمؓکے حوالہ سے چند صحابہ کرام ثاور تابعین وتبع تابعین اور ائمہ دین میں سے قائلینِ کفر وارتداد کے نام لئے ہیں جن میں سے ان مذکور ہ حضرات کے علاوہ سعید بن جبیرؒ ، عامر شعبیؒ ،اوز اعیؒ اور مالکیہ میں سے عبد الملک بن حبیب ؒ کے نام بھی ہیں ۔ یہ بھی لکھا ہے کہ امام شافعی ؒکے مذہب کے پیر وکاروں میں سے بھی بعض اسی کے قائل ہیں حتیٰ کہ امام طحاویؒنے تو خود امام شافعیؒسے بھی تارکِ نماز کے کفر کا قول ہی بیان کیا ہے ۔امام شوکانیؒنے نیل الاوطار میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ کا اسمِ گرامی بھی اسی زمرے میں شمار کیا ہے جن کے نزدیک تارکِ نماز کافر ہے ۔
 
 اس سلسلہ میں دوسری رائے یہ ہے کہ تارکِ نماز کافر تونہیں بلکہ وہ فاسق ہے ۔امام ابو حنیفہ ، مالک اور شافعیؒکایہی مذہب ہے ۔ (نیل الاوطار) یہ اختلافِ رائے بھی اُس تارکِ نماز کے بارے میں ہے جومحض سستی ولا پر واہی کی بنا پر تارک ہو لیکن دل سے نماز کی فرضیت کاقائل ہو ۔ اگر کوئی تارکِ نماز اس کی فرضیت کا بھی منکر ہو تووہ کافر اور ملتِ اسلامیہ سے خارج ہے اور سید سابق نے فقہ السنہ میں اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ذکر کیا ہے ۔تارکِ نماز کے بارے میں شرعی حکم سے تعلق رکھنے والی اس بنیادی تفصیل کے بعداب آئیے جانبین کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔ 
 
قائلینِ فسق کے دلائل
تارکِ نماز کو کافر نہیں بلکہ فاسق قرار دینے والوں کاکہنا ہے کہ اس کے مسلمان ہو جانے کے بعد اس کے لئے اسلام کاحکم تو ثابت ہو چکاہے ۔ اسے اب ہم اسلام سے کسی یقینی خبر کے بغیر نہیں نکال سکتے یعنی کافر قرار نہیں دے سکتے جبکہ بعض احادیث ایسی بھی ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کاقائل ہو مگرسستی ولا پر واہی کی وجہ سے اس کاتارک ہو تو وہ کافر نہیںہو گا ۔
اس پر انہوں نے جن احادیث سے استدلال کیا ہے ان میں سے ایک و ہ حدیث ہے جو بخاری، مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا 
جس نے اس بات کی شہادت دی کہ اللہ کے سواکوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتاہے اور اس کاکوئی شریک نہیں اور حضرت محمد اس کے بند ے اور رسول ہیں اور یہ کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اللہ کے بند ے اور اس کے رسول ہیں اور اس کاکلمہ ہیں جسے اس نے حضرت مریم( علیہا السلام) کی طرف القا کیا اور وہ اس کی روح سے ہیں اور جنت حق ہے اور جہنم بھی حق ہے تو اللہ اُسے جنت میں داخل کر دے گا، وہ چا ہے کسی بھی عمل پر کیوں نہ ہو ۔  
 
اِسی طرح دوسری حدیث بھی صحیح بخاری ومسلماور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضرت معاذؓ ،نبی اکرم کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے کہ نبی اکرم نے حضرت معاذؓسے مخاطب ہو کر فرمایا 
اے معاذ ! اس پر انہوں نے 3 مرتبہ فرمایا : اے اللہ کے رسول ! فرمائیے میں حاضر وہمہ تن گوش ہوں (بغور سن رہاہوں) فرمانبرداری کےلئے تیار ہوں، تب آپ نے فرمایا 
جوبندہ اس کی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور حضرت محمد اس کے رسول ہیں ، اللہ اسے آگ پر حرام کر دیتا ہے ۔
حضرت معاذ ؓ کہنے لگے : کیا میں لوگوں کویہ بات بتانہ دوں تاکہ وہ خوش ہو جائیں ۔
 اس پر آپ نے فرمایا :تب تووہ اسی پر توکّل کر کے بیٹھ جائیں گے ۔ (اور عمل کرنے سے رُک جائیں گے)۔
چنانچہ پھر موت کے وقت حضرت معاذؓنے یہ بات بتائی اور وہ بھی کتمانِ علم کے گناہ سے ڈرتے ہو ئے کہ اگر میں نے یہ بات لوگوں کونہ بتائی توکہیں اس ارشادِ نبوی کو چھپا نے کاگنا ہ گار نہ بن جاو¿ں۔
 
اِسی موضوع کی ایک تیسری حدیث بھی ہے جو کہ صحیح بخاری میں ہے جس میں حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ارشادِ نبوی ہے
میری شفاعت پا نے والوں میں سب سے خوش نصیب وہ ہے جس نے اخلاصِ دل سے لا الٰہ الا اللہ کہا یعنی اس بات کی شہادت دی کہ اللہ کے سواکوئی معبودِ برحق نہیں۔
 
چوتھی حدیث نسائی وابن ماجہ ، مسند احمد اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو ذر غفاریؓسے مروی ہے کہ نبی اکرم نے رات کو قیام کیا جس کے دوران صبح ہونے تک ایک ہی آیت کودُہراتے رہے اور پھر فرمایا
میں نے اپنی امت کے لئے دعاما نگی ہے اور وہ قبول بھی ہوگئی ہے جس کا اگرلوگوں کو علم ہو جائے توان میں سے اکثر نماز چھوڑ بیٹھیں ۔
حضرت ابو ذرؓکہنے لگے :کیا میں لوگوں کو بشارت وخوشخبری نہ دے دوں؟ ۔
آپ نے فرمایا :ہاں (دے دو) ۔
اس پر وہ چل نکلے تو حضرت عمرفاروق ؓنے نبی اکرم سے مخاطب ہوکر عرض کیا :(اے اللہ کے رسول !) : اگر آپ نے لوگوں کویہ خوشخبری پہنچا دی تو لوگ عبادت گز اری سے ہاتھ کھینچ لیں گے ۔(یہ بات سن کر) نبی اکرم نے حضرت ابو ذرؓ کو واپس بلا نے کےلئے آواز دی اور وہ واپس لوٹ آئے ۔ اس قیام اللیل میں جو آیت آپ رات بھر دُہراتے رہے وہ سورہ المائدہ کی آیت 118 ہے جس میں ارشادِ الہٰی ہے 
اے اللہ! اگر تو انہیں عذاب دے تویہ تیر ے بندے ہیں اور اگر توانہیں بخش دے توتو بڑا غالب حکمت والا ہے۔
 
یہ اور ایسی ہی دیگر احادیث سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ نبی اکرم نے محض کلمہ¿ شہادت کے اخلاصِ دل سے پڑ ھنے پر اس کے جسم پر جہنم کی آگ حرام قرار دی ہے ، اسے بالآخر جنت کی بشارت دی ہے اور جس نے اس کلمہ¿ شہادت کے سواکوئی بھی عملِ خیر کبھی نہ کیا ہو گا، اسے بھی ایک نہ ایک دن بالآخر جہنم سے نکالے جانے کی خوشخبری سنائی ہے لہذایہ احادیث تارکِ نماز کی تکفیر میں اور اس کے دائمی جہنمی ہونے میں مانع ہیں بلکہ اس کے برعکس جس طرح عام کبیر ہ گناہوں کے مرتکب لوگوں کے لئے رحمت کی اُمید کی جاسکتی ہے ، اسی طرح ترکِ نماز بھی چونکہ فسق وگناہِ کبیر ہ ہے لہذا تارکِ نماز کے لئے بھی امیدِ رحمت کی جائے اور وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیںکہ 
کفر تونام ہے توحید کے انکار کانیز رسالت اور روزِ قیامت کے انکار کا ، نبی اکرم کے لا ئے ہو ئے دینِ برحق کے انکار کا جبکہ تارکِ نماز اللہ کی وحدانیت کااقرار کرتا ہے۔ حضرت محمد کے اللہ کا رسول ہو نے کی شہادت دیتاہے اور اس بات پر بھی ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قبروں والوں کو(حساب کےلئے) اُٹھائے گا۔ ایسے آدمی کے کفر کافیصلہ کیسے دیاجا سکتا ہے ؟ خصوصاً جبکہ ایمان توتصدیق کانام ہے جس کی ضدیاعکس تکذیب ہے یعنی ان امور کو جھٹلاناہے نہ کہ تصدیق کی ضد ترکِ عمل ہے ۔ سوایک تصدیق کرنے والے یعنی ما ننے والے پر ، تکذیب کر نے والے یعنی جھٹلا نے یا انکار کر نے والے کاحکم کیسے لا گوکیا جاسکتا ہے 
 
سابق میں ہم نے بے نماز کو کافر نہیں بلکہ کبیر ہ گناہ کامرتکب اور فاسق قرار دینے والوں کے دلائل پر مبنی نو احادیث ذکر کی ہیں جن میں سے اقرارِ توحید و رسالت والے کلمہ کی برکت سے لوگوں کو جہنم سے بالآخر نکالے جانے بلکہ جہنم پر حرام ہو نے اور جنت میں داخل کئے جانے سے استدلال کیا گیاہے ۔ یہ احادیث تو بلاشبہ صحیح ہیں اور قابلِ استدلال بھی البتہ اس مسئلہ میں یہ صریح نہیں اور نہ ہی وہ ز یرِ بحث مسئلہ میں واضح دلیل وحجت ہیں کیو نکہ امام شوکانی ؒنے نیل الاوطار میں لکھاہے 
 
تمام سلف وخلف ائمہ اسلام اور اشعریہ ومعتز لہ تک کااس بات پر اتفاق واجماع ہے کہ وہ احادیث جن میں لاالٰہ الاللہ کہنے سے جنت میں داخل ہوجانے کاذکرہے وہ احادیث اس بات یاشرط کے ساتھ مقید ہیں کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ فرائض وواجبات کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کرتاہو۔ ایسے کبیر ہ گنا ہوں کاارتکاب بھی نہ کیا گیا ہو جن سے توبہ نہ کی گئی ہو (یعنی اگر کوئی کبیرہ گناہ سرزد ہو اتواس سے توبہ کی جاچکی ہو ) اور اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ محض کلمہ شہادت کہہ لینا دخولِ جنت کا موجب نہیں لہذ ایہ احادیث مطلوبہ مسئلہ میں حجت نہیں بن سکتیں ۔
 
یہی وجہ ہے کہ سلف ِصالحین نے ان احادیث کی تاویل کی ہے ۔ چنانچہ سلف کی ایک جماعت جن میں سے ہی حضرت سعید بن مسیبؒ بھی ہیں ،ان کا کہناہے کہ ان احادیث میں مذکور حکم کااطلاق فرائض وواجبات اور اوامر ونواہی کے نازل ہو نے سے پہلے تھا ۔ یہی تاویل امام نوویؒنے شرح مسلم میں بھی کی ہے جبکہ اس تاویل کی تردید بھی امام نوویؒ اور شو کا نیؒ نے ذکر کی ہے کہ ان احادیث میں سے بعض کے راوی حضرت ابو ہریرہؓ ہیں اور ان کااسلام لا ناکافی تاخیر سے ہو اتھا ۔ وہ بالاتفاق غزوہ¿ خیبر کے سال 7ھ میں مسلمان ہو ئے تھے جبکہ اس وقت تک احکامِ شریعت مثلاً :نماز ، روزہ ، زکوٰة اور حج کے احکام کا نزول و استقرار ہوچکا تھا حتیٰ کہ حج کی فرضیت بھی راجح ترقول کے مطابق 5ھ، یا 6ھ میں نازل ہو ئی تھی، ویسے توایک قول 9ھ کابھی ہے مگررا جح پہلا قول ہی ہے ۔ 
 
 فتح الباری میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒنے علماءکے مختلف تشریحی اقوال میں سے ایک یہ بھی ذکر کیا ہے 
کلمة التوحید کے نتیجہ میں جنت میں جانے والوں سے مرادوہ لوگ ہیں جنہوں نے اخلاصِ دل کے ساتھ یہ کلمہ پڑ ھا اور پھر فرائض میں سے کوئی فریضہ ترک بھی نہیں کیا ۔
 
 
 

شیئر: