Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پھر ہم اپنے لئے بہت ہو گئے

وسعت اللہ خان

اگر میں اپنے اسکول کے دور (1967تا1976ء ) کو یاد کروں تو اس زمانے میں ہم بچوں کی دنیا میں بس چند گنے چنے ملک ہی تھے۔ ہندملک نہیں تھا دشمن تھامگر ہندوستان کا ذکر اچھے لفظوں میں ہوتا تھا کیونکہ ہمارے اساتذہ کے مطابق ہندوستان کے برعکس ہندوستان میں مسلمان زیادہ سُکھی تھے۔ ہم بچوں کو یہ کنفیوژن بھی رہتا تھا کہ انگریز کس ملک سے آئے تب تک ہمارے ننھے منے ذہنوں میں برطانیہ ایک الگ ملک تھا اور انگریز ایک الگ خانے میں تھے۔ وجہ شائد یہ تھی کہ صادق بازار میں ہر اتوار کو گورے صاحبوں اور میموں کی ایک بس بھر کے گڈو پاور پلانٹ سے آتی تھی اور سب دکاندار کہتے تھے کہ یہ روسی انگریز ہیں جو صرف اتوار کے اتوار آتے ہیںمگر فرنگی صرف پنجابی فلموں میں پایا جاتا تھا اور اسے اوئے فرنگیا کہتے تھے۔ امریکہ کے بارے میں اس وقت بھی طے نہیں تھا کہ وہ ہمارا دوست زیادہ ہے کہ دشمن زیادہ۔بہرحال کچھ نہ کچھ زیادہ ضرور تھا۔ چین اس لئے ہم بچوں کو ازبر یاد تھا کیونکہ چواین لائی وہیں کے تھے اور ہمارے کانوں میں اکثر پڑتا رہتا آج چو این لائی آ رہے ہیں، آج چو این لائی جا رہے ہیں۔

روس کا نام ضرور سنا تھا مگر اس پر کبھی کوئی زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہہ کے ٹال دیا جاتا کہ روس کیمونسٹ ہے اور کمیونسٹ ہونا اچھی بات نہیں۔ افغانستان کے بارے میں یہ تو معلوم تھا کہ وہ ہمارا ایک مسلمان ہمسایہ ہے مگر سب سے زیادہ تذکرہ ایران کا سننے میں آتاکیونکہ فارسی وہیں سے آئی تھی اور فارسی ہمارے اسکول میں بھی پڑھائی جاتی تھی۔ ماسٹر غلام صابر جب پنجابی لہجے میں ایں چیست پڑھاتے تھے تو مطلب فوراً سمجھ میں آجاتا۔ پھر ایک دن اسکول میں خبر پھیل گئی کہ ابو ظبی نام کا کوئی عرب حکمراں کسی تلور نامی پرندے کے شکار کے لئے بہت بڑی بڑی جیپیں لایا ہے اور ہر جیپ اندر سے برف کی طرح ٹھنڈی ہے۔ وہ بھی ٹھنڈے خیمے میں رہتا ہے اور جہاں سے بھی گزرتا ہے پیسے بانٹتا ہے۔

اس تذکرے کے کچھ مہینوں بعد ہم بچوں کو ریلوے اسٹیشن تک لے جایا گیا اور ہمارے ڈرائنگ ماسٹر جی نے کہا کہ جیسے ہی تم ابو ظبی صاحب کی بڑی سی سیاہ گاڑی دیکھو تو تالیاں بجانااور پھر ہم تب تک بجاتے رہے جب تک بہت سی لمبی لمبی سیاہ گاڑیوں اور بھوری بھوری جیپوں کا لمبا قافلہ گزر نہیں گیا۔ بعد میں ہم میں سے کچھ بچے کئی دن انتظار کرتے رہے کہ ٹیچر کو جو پیسے ابو ظبی والے سے ملے ہوں گے وہ ہم میں بھی بٹیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہیںہوا۔ اسی زمانے میں دادی حج کرکے آئیں اور مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف سے کھجوریں اور آبِ زم زم سے بھرا پلاسٹک کا بڑا جیری کین ، کچھ جائے نمازیں ، تسبیحات ، ایک بڑا تھرمس اور جاپانی ٹرانزسٹر لے کے آئیں۔بہت سی عورتیں مبارکباد دینے آئیں۔ ایک نے پوچھا سعودی عرب کیسا لگا ؟ دادی نے فوراً تصحیح کی ہم تو جدہ میں پانی کے جہاز سے اتر کے مدینہ منورہ و مکہ شریف گئے تھے سعودی عرب تھوڑا گئے تھے۔

حج کے 3برس بعد دادی کا انتقال ہوگیامگر آبِ زم زم کا کین تب بھی آدھا بھرا ہوا تھاکیونکہ دادی آئی ڈراپس والی نلکی میں آبِ زم زم بھر کے سادہ پانی سے بھرے گلاس میں احتیاط سے ٹپکا کر صرف مہمانوں کو ہی پلایا کرتی تھیں چنانچہ اس کین میں بچے ہوئے زم زم میں کفن بھگو کر دادی کو پہنایا گیامگر ہماری اماں نے یہ خالی کین بھی احتیاط سے اونچی جگہ رکھ دیا۔ آخر مکہ مکرمہ و مدینہ شریف سے جو آیا تھا۔ وہ تو جب1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد تیل بند ہوا تب ہم میں سے بہت سوں پر کھلا کہ شیر دل شاہ فیصل مدینہ منورہ اور مکہ شریف کے بادشاہ ہیں مگر سعودی عرب میں رہتے ہیں اور پھر جب آس پڑوس کے لوگ محنت مزدوری کے لئے وہاں جانے اور لدے پھندے سوٹ کیسوں کے ساتھ آنے لگے تب اندازہ ہوا کہ سعودی عرب تو بہت ہی خوشحال جگہ ہے۔ ہمارے گھر میں بچوں کے جو رسالے آتے تھے ان میں بہت سی کہانیاں ایسے شروع ہوتی تھیں کہ ’’ بہت دنوں پہلے ملک شام میں کوئی خدا ترس بادشاہ حکومت کرتا تھا…

مصر کے بارے میں پہلی مرتبہ پی ٹی ماسٹر محمد نواز نے بتایا تھا کہ وہاں فرعون رہتا تھا اور پھر قلو پطرہ نے بھی حکومت کی اور یوسف زلیخا کا واقعہ بھی مصر کا ہی ہے اور حضرت موسیٰ ؑبھی وہیں رہا کرتے تھے پھر ایک دن مکار یہودی انہیں باتوں میں لگا کر اپنے ساتھ لے گئے اور صحرا میں40 سال مارا مارا پھرایا۔لیکن آج کا مصر کیسا ہے۔ ماسٹر نواز سمیت کوئی نہیں جانتا تھا۔ اور اسرائیل کا اصل چہرہ کیا ہے اور فلسطین کا مسئلہ کیا ہے۔یہ عقدہ کھولا ریاض شاہد کی فلمزرقا نے۔جس میں نیلو فلسطین بنی تھی اور طالش اسرائیل۔ تو یہ تھا 45,44برس پہلے کے قصباتی پاکستان کا تصورِ مشرقِ وسطیٰ۔ پھر پاکستانی تارکینِ وطن کے سامان کے ساتھ خلیجی ریاستوں کے قصے بھی بندھ کے آنے لگے۔

شیخ محمد طفیل نے تو کویت سے واپسی پر اپنا نام ہی شیخ محمد طفیل الباکستانی کریانہ اسٹور رکھ لیا اور جمعہ کے جمعہ کفایہ اور کفتان زیبِ تن کرنے لگا۔ اس دوران درسی کتابوں سے ایران اور ترکی آر سی ڈی کے راستے جانے کب دبے پاؤں نکل لئے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے لائل پور فیصل آباد ہوگیا۔ فیصل مسجد اسلام آباد کا تعارف ہو گئی۔ افغانستان میں روسی فوج کیا آئی کہ چھینکا ہی ٹوٹ گیا۔پاکستان مشرقِ بعید سے شمالی افریقہ تک کے برادرانِ ملت اور ماسٹر ٹرینرز کا استقبالیہ کیمپ بن گیا اور پھر یہ کیمپ قائم و دائم رکھنے کا خرچہ پانی آنے لگا۔ روسی فوج کبھی کی چلی بھی گئی مگر مہمان احتیاطاً عالمِ اسلام کے قلعے میں ہی رہے مبادا کوئی اور روس کے بھیس میں آ جائے مگر پھر ہمیں کسی روس ووس کی ضرورت نہیں پڑی۔ہم اپنے لئے بہت تھے۔

شیئر: