Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ہاکی کی تباہی کا ذمہ دار کون؟

 
جمیل سراج ۔ کراچی
 
 
پاکستان کی گزشتہ 69 سالہ تاریخ میں اس ملک کے مایہ ناز کھلاڑیوں اور نوجوانوںنے کھیلوں کے میدان سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میںکارہائے نمایاں انجام دیئے جس کے باعث اس ملک کو عالمی سطح پرپزیرائی ملتی رہی اس کے سپوتوں نے اپنی غیر معمولی کارکردگی کے ذریعے ہاکی،کرکٹ، اسکواش، اسنوکر،کبڈی، باکسنگ اور ایتھلیٹکس میں شاندار فتوحات سے اپنے وطن عزیز کے سبز ہلالی پرچم کو اقوام عالم میں سربلند کیا جسے مورخین نے سنہرے حروف میں لکھا،لیکن آج اس ملک کی ساکھ گر چکی ہے، جن جن کھیلوں میں ملک کا نام روشن ہوا تھا ان کھیلوں میں تنزلی کی وجہ سے پاکستان اپنی گویا شناخت کھوچکا جس پر آج ہر شہری کا دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہے۔
پاکستان نے ہاکی میں بہت نام کمائے، تمام چھوٹے بڑے عالمی اعزازات حاصل کئے،قومی کھیل ہاکی کو بام عروج تک پہنچانے والوں میں سمیع اللہ، کلیم اللہ، حسن سردار، اصلاح الدین، شہناز شیخ، شہباز احمد، خالد محمود، خالد حمید ،اختر رسول، سلیم شیر وانی، منظور جونیئراورسہیل عباس جیسے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوں نے کلیدی کردار ادا کئے یہ وہ قومی کھلاڑی تھے جن سے دنیا والوں نے پاکستان کو پہچاناانہیں کی بدولت پاکستان ابھر کر سامنے آیا لیکن پھر وقت کی بے رحم موجوں نے قومی کھیل ہاکی کو تباہی سے دوچار اور کھلاڑیوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا جس کی وجہ سے قومی ہاکی ٹیم بد سے بدترین ہوتی چلی گئی اور آج نوبت یہ ہوگئی کہ پاکستان عالمی اور اولمپکس مقابلوں میں شرکت تک سے محروم ہے، قومی کھیل ہاکی کو اس نہج پر پہنچانے میں کسی اور کا نہیں ہمارا اپنا ہاتھ ہے۔
سابق کپتان و اولمپین خالد محمود قومی کھیل کی تباہی پرسے ہلکا سا پردہ ہٹاتے ہوئے یوں گویا ہوئے کہ” جب پاکستان ہاکی کو چلانے والوں میں ذاتی مفاد ات عزیز ہوجائیں، جب کھلاڑیوں کے انتخاب میں پسند و نا پسند کا عنصر عام ہوجائے اور پاکستان ہاکی فیڈریشن میں لوگ من مانیاں کرنے لگ جائیں تو ہاکی ٹیم کا حال یہی ہونا تھا جو ہوچکا اس میں کسی غیر کو دوش نہیں دیا جا سکتا ، یعنی یہاں پر یہ کہا جائے کہ ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے “ تو کسی طرح بے جا نہ ہوگا، قومی ہاکی کا جو سنہرا دور ہم نے دیکھا اور کافی عرصہ دیکھتے رہے اسے یہی قومی سپوتوں نے اپنی شاندار کارکردگی اور کارہائے نمایاں سے حاصل کیا تھا لیکن پھر اس کی تنزلی کی ذمہ داری بھی انہیں میں سے بعض سابق کھلاڑیوں پر عائد ہوتی ہے،ان ہی میں وہ افراد شامل تھے جوپاکستان ہاکی فیڈریشن کا حصہ رہے ہیں۔
پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق اولمپئینز، کامران اشرف، سمیر حسین کا کہنا تھا کہ قومی کھیل ہاکی کے سنہرے دور کو واپس لانے کیلئے نہ صرف حکومت ، پی ایچ ایف بلکہ موجودہ اور سابق کھلاڑیوں کو بھی آگے آنا ہوگا، اس کھیل میں جو بگاڑ پیدا کردیا گیا ہے اسے درست کرکے اصل حیثیت دلانے کیلئے مل کر، ایک قوم ہوکر جد و جہد کرنا ہوگی ، سابق قومی کھلاڑیوں کو اس ضمن میں بالخصوص کلیدی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوگی ، اس کیلئے انہیں عملی اقدام کے طور پر پہل کرنا چاہئے، ہم اس کیلئے اپنی خدمات پیش کرنے کیلئے ہر وقت حاضر ہیں۔قومی کھیل ہاکی کی طرح اسکواش، اسنوکر اور کرکٹ کو اس کے اصل مقام تک واپس لانے کیلئے حکومتی سرپرستی کی ہی نہیں اس طرف نجی اداروں کو بھی آگے آنا ہوگاجیسا کہ دیگر ملکوں میں قومی کھیلوں کی ترقی، فروغ اور جدید تقاضوںکے مطابق چلانے اور ہم آہنگ کرنے کیلئے نجی ادارے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں کی قومی ٹیمیں اور کھلاڑی و ایتھلیٹس کی کارکردگی غیر معمولی ہوتی ہے جس کا دنیا بھر میں چرچا ہوتا ہے۔
پاکستان ہاکی کے ایک اور مایہ ناز سپوت اولمپین خالد حمید نے قومی کھیل ہاکی سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں اور ٹیموں کی زبوں حالی پر یوں لب کشائی کی، ”قومی کھیل ہاکی کی اس تباہی پر دیگر محب وطن کی طرح میرا دل بھی خون کے آنسو روتا ہے، ہم نے کس قدر محنت، جد و جہد مسلسل اور جانفشانی کے بعد ہاکی میں ملک و قوم کا نام روشن کیا تھا“ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کھیل میں مفاد پرستی، ذاتی عناد اور اقرباءپروری جیسی لعنت عام ہوگئی جس کی وجہ سے ہمارے قومی ہیرو رسوا اور قومی ہاکی ٹیم تنزلی کا شکار رہنے لگی جس کا کسی اور کو نہیں خود ہمارا قومی تشخص پامال ہوا، پاکستان ہاکی کی ساکھ دنیا بھر میں شدید متاثر ہوئی ، قومی کھیل ہاکی کی اس تباہی میں جو افراد کے کسی بھی طرح ملوث ہوئے یا رہے ان کا کوئی احتساب نہیں کیا گیا ، عام لفظوں میں ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی ،ان کا احتساب اس لئے نہیں کیا گیا کہ ہمارے ملک یامعاشرے میں ایسی کوئی روائت نہیں ملتی۔ 
یہی وجہ ہے کہ کھیل سمیت تمام شعبوں میں ہمارا کوئی پرسان حال ہے نہ ہی کسی کو اس کی فکر، جب مجموعی ملکی صورتحال اس نہج پر پہنچ جائیں تو قومی کھیل ہاکی کیا کسی بھی اسپورٹس کا یہی حال ہوگا، پاکستان بلیئرڈ اینڈ اسنوکر ایسوسی ایشن کے صدر عالمگیر شیخ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہاکی،کرکٹ اور اسکواش کی طرح اسنوکر میں بھی ہمارے قومی کھلاڑیوں محمد یوسف محمد آصف ، محمد سجاد اور نوجوان کیوئسٹ حمزہ اکبر نے عالمی اور ایشیا کی سطح پر پاکستان کے سبز ہالی پرچم کو بلند کیا، عالمی اعزاز سمیت کئی ٹائٹل جیتے لیکن انہیںمالی طور پر جو پزیرائی اور کمک ملنی چاہئے تھی وہ انہیں نہ مل سکی جس کی وجہ سے ان میں احساس محرومی بتدریج بڑھا جس کے نتیجے میں ان کی مجموعی کارکردگی کا گراف نیچے آیا ، ان قومی اسنوکر کھلاڑیوں میں حمزہ اکبر واحد پاکستانی کیوئسٹ ہیں جو پروفیشنل اسنوکر کھیلنے برطانیہ گئے ، انہیں وہاں قیام اور اپنے کھیل کو جاری رکھنے میں مالی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تاہم ملک کی جانب سے تھوڑی بہت مالی امداد سے وہ دیار غیر میں رہتے ہوئے اپنے کھیل کو جاری رکھنے میں کامیاب ہوئے ورنہ دیگر قومی کھلاڑیوں کو حکومتی سرپرستی نہ ملنے کی وجہ سے انہیں آگے جانے کا موقع نہیں ملا جس کا قوم اور شائقین کے ساتھ انہیں بھی ملال رہے گا ، جب کسی ملک میں جہاں کھیل یا کسی بھی شعبے میں عروج حاصل کرلینے کے بعد معاملات کسی کی ،یا کسی بھی وجہ سے ناگفتہ بہ ہوکر تنزلی کا شکار ہوجائیں تو اس مرحلے پر یہی کہا جائے گا کہ ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے ۔
******

شیئر: