Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

السکب، المرتجز، رسول رحمت ﷺ کے گھوڑے

آپ کی ملکیت میں آنے والے اولین گھوڑے کا نام” السکب“ تھا،آپ نے یہ گھوڑ 10اوقیہ چاندی کے بدلے خریدا تھا
 
تیسرا حصہ
 
عبد الستارخان
 
حافظ ابن قیمؒ نے اپنی کتاب”زاد العاد“ میں رسول رحمت کے گھوڑوں کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے
رسول اکرم کے پاس متعدد گھوڑے تھے جن کی تعداد کے تعین میں اختلاف ہے تاہم غالب گمان یہ ہے کہ ان کی تعداد7تھی۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ رسول اکرم کے گھوڑے بڑے مبارک تھے کیونکہ سواری کی قدر قیمت سوارسے ہوتی ہے۔ رسول اکرم اولادِ آدم کے سردار ہیں اورآپ کے گھوڑوں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ ان پر سوار ہوئے۔“
 
ذیل میں آپ کے گھوڑوں کا تعارف ہے
 السکب
آپ کی ملکیت میں آنے والے اولین گھوڑے کا نام” السکب“ تھا۔علامہ ابن سعدؒ نے طبقات میں لکھا ہے
آپ نے یہ گھوڑا بنی فرازہ سے تعلق رکھنے والے ایک آدمی سے 10اوقیہ چاندی کے بدلے خریدا تھا۔ اس آدمی نے اس مبارک گھوڑے کانام ”الضرس“ رکھا ہوا تھا۔
جیسا کہ آپ کی مبارک عادت تھی کہ برے ناموں کو اچھے ناموں سے تبدیل فرماتے تھے ، اسی طرح آپ نے ”الضرس“ گھوڑے کا نام بدل کر”السکب“ رکھ دیا۔ یہی پہلا مبارک گھوڑا ہے جو آپ کی ملکیت میں آیا اور اسی پر آپ نے غزوہ احد میں شرکت کی تھی۔
اس گھوڑے کا نام ”السکب“ اس لئے رکھا گیا کہ یہ ایسے دوڑتا تھا جیسے سمندر کی روانی۔ ”سکب“ بہنے کو کہتے ہیں اور یہ تشبیہ ہے کہ جس طرح پانی بہتا ہے ویسے ہی یہ گھوڑا دوڑتا تھا۔
 
المرتجز
دوسرے گھوڑے کا نام”المرتجز“ تھا۔ اس گھوڑے کا نام المرتجز اس لئے رکھا گیاکہ اس کے ہنہنانے کی آواز منفرد تھی۔ شاعری کی ایک قسم ہے جسے” رجز“ کہا جاتاہے۔ یہ شاعری میدان جنگ میں سپاہیوں کے حوصلے بلند کرنے کےلئے پڑھی جاتی ہے۔ جس طرح میدان جنگ میں شاعر رجز پڑھ کر سپاہیوں کے حوصلے بلند کرتا ہے ، اسی طرح المرتجز گھوڑے کے ہنہنانے سے سپاہیوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں گویا گھوڑا بھی رجز پڑھ رہاہو۔ 
 
المرتجز گھوڑے سے وبستہ ایک دلچسپ واقعہ ہے جو امام طبرانیؒ سے منقول ہے۔ وہ اس طرح کہ آپ نے یہ گھوڑا سوادبن حارث نامی ایک بدو سے خریداتھا۔جب قیمت کا تعین ہوگیا اور سودا پکا ہوگیا تو آپ نے بدو سے فرمایا کہ میرے ساتھ چلو ،میں گھر میں تمہیں رقم دیتا ہوں۔ اب رسول اکرم آگے آگے چل رہے ہیں اور بدو گھوڑے کی لگام تھامے پیچھے پیچھے آرہا ہے ۔ راستے میں کچھ لوگوںنے بدو سے پوچھا کہ یہ گھوڑا ہم خریدیں گے اور انہوں نے رسول اکرم سے زیادہ رقم کی پیشکش کردی۔ اب بدو لالچ میں آگیا۔ اس نے رسول اکرم کو آواز دی:
آپ() یہ گھوڑا خریدیں گے یا میں کسی اور کو فروخت کردوں۔ 
آپ نے فرمایا:میں نے تو تم سے خرید لیا ہے(یعنی سودا پکا ہوچکا ہے)۔
بدو مکر گیا اور کہا: نہیں! میں نے تو نہیں بیچا۔
آپ نے فرمایا:بلکہ میں نے تم سے خریدا ہے ۔
بدو نے کہا: کوئی گواہ ہے جو آپ کی بات کی تصدیق کرے۔
ابھی یہ بات چیت چل رہی تھی کہ معروف صحابی حضرت خزیمہ ثابت انصاریؓ وہاں پہنچ گئے۔پوچھا کیا ماجرا ہے، انہیں بتایا کہ رسول اکرم نے گھوڑا خرید لیا اور بدو فروخت کرنے سے مکر گیا ہے۔ اس خرید وفروخت کا کوئی گواہ درکار ہے۔ حضرت خزیمہؓ نے عرض کیا
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے گھوڑا خریدا ہے۔
آپ نے فرمایا
کس بات کی گواہی دیتے ہو حالانکہ تم موقع پر موجود ہی نہیں تھے۔
اور حقیقت میں اس خرید وفروخت کا کوئی گواہ تھا ہی نہیں۔ اس پر حضرت خزیمہؓ نے عرض کیا
مجھے آپ کی ہر بات پر یقین ہے، ہم ایمان لاتے ہیں کہ آسمان سے آپ پر وحی نازل ہوتی ہے، ہم آپ کی ہر بات کی تصدیق کرتے ہیں، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گھوڑے کی خرید وفروخت میں آپ خلاف واقعہ بات کہہ سکتے ہیں۔
یہ سن کو رسول اکرم بہت خوش ہوئے اور فرمایا
جس کےلئے (حضرت) خزیمہ ؓ گواہی دے تو اس کی گواہی کافی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ شرعی طور پر کسی معاملے میں2گواہوں کی موجودگی ضروری ہے مگر حضرت خزیمہؓ کو رسول اکرم کی بات سے یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کی گواہی دوگواہوں کی گواہی کے برابر ہوگئی۔
اللہ کے رسول نے حضرت خزیمہ ؓ کو جو اعزاز عطا فرمایا وہ بعد میں تاریخ کے ایک اہم واقعے میں نہایت موثر ثابت ہوا۔
ہوا یوں کہ رسول اکرم کے انتقال کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیقؓ نے قرآن مجید کو جمع کرنے کا کام شروع کیا تو لوگوں کو حکم دیا گیا کہ جس کے پاس کوئی آیت یا قرآن کا حصہ لکھا ہوا ہو وہ لے آئے اور اس پر2 گواہوں کی موجودگی ضروری ہے کہ وہ گواہی دیں کہ یہ آیت قرآن مجید ہی کی ہے۔ جب پورے قرآن مجید کی تدوین کا کام مکمل ہوگیا تو آخری 2 آیتیں رہ گئیں جوسورةالتوبہ کی آیات 128 اور 129 تھیں۔ لکھی ہوئی تو ملیں مگر ان پر 2گواہ نہیں ملے۔ صرف ایک گواہی تھی جو حضرت خزیمہ ؓ کی ہی تھی۔ اس وقت حضرت زید بن ثابتؓ قرآن مجید کی تدوین پر مامور تھے۔ انہوں نے یہ2آیتیں قرآن مجید میں صرف ایک گواہ پر شامل کرلیں کیونکہ رسول اکرم کے فرمان کے مطابق حضرت خزیمہ ؓ کی گواہی2 گواہوں کے برابر ہے۔
(جاری ہے)
 

شیئر: