Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حق اور باطل ، بقائے باہم کا تصور نہیں

آغازِ کار میں اگر معمولی سا انحراف پیدا ہوجائے تو سفرکے اختتام پر یہ مکمل انحراف میںبدل جاتا ہے
 
 سید ظفر علی ۔بھوپال
 
قرآن مجید نے مشرکین کی کوششوں کا تذکرہ کیا ہے جو انھوںنے رسول اللہ کی دعوت کے خلاف وقتاً فوقتاً کیں، ایک کوشش آپ کو اس پیغام کی ترسیل سے پھیردینے کی تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی آپ پر اترا تھا۔ مطالبہ کیاگیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نام پر کوئی دوسری بات گھڑلیں حالانکہ آپ صادق اور امین تھے۔
 
اِس سودے بازی کی کوشش کی گئی کہ آپ خدا کی عبادت ضرور کریں لیکن باطل کی تردید اور باپ دادا کی غلط روش پر تنقید چھوڑ دیں۔ بعض لوگوں نے آپ کی دعوت قبول کرنے کےلئے یہ شرط رکھی کہ آپ ان کے علاقے کو بھی اسی طرح حرم قرار دیں جس طرح خانہ¿ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے محترم ٹھہرایا ہے۔ بعض سردارانِ قریش کا مطالبہ یہ تھا کہ آپ ان کےلئے ایک الگ مجلس قائم کریں جس میں غریب اور نادار لوگ نہ بیٹھیں۔قرآن مجید میں مشرکین کی ان کوششوں کی طرف عموماًاجمالی اشارہ کیاگیا ہے۔ مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول کی رہنمائی فرماتے ہوئے آپ کو ثابت قدم رکھا اور مشرکین کی چالوں سے بچایا۔اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو حق پر نہ جمائے رکھا ہوتا اور وہ آپ کی حفاظت نہ فرماتا تو اندیشہ کیا جاسکتاتھا کہ آپ ان کی طرف مائل ہوتے اور وہ آپکو اپنا دوست بنالیتے۔
 
ایسی کوششیں ، جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسول کی حفاظت فرمائی، ہر دور میں اصحاب اقتدار کی طرف سے داعیان حق کے ساتھ کی جاتی رہی ہیں۔ انہیں ورغلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ دعوت ِحق سے تھوڑا ساہی سہی منحرف ہوجائیں ،وہ کسی درمیانی طرز عمل پرراضی ہوجائیں۔ اِس لچک کی ترغیب دینے کےلئے انہیں منافع وفوائد کے سبز باغ دکھلائے جاتے ہیں۔ بعض داعیانِ حق اس فتنے میں مبتلا ہوکر اپنی دعوت میں کچھ لچک پیدا کرلیتے ہیں کیونکہ وہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں۔ اصحاب اقتدار عموماً ان سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ اپنی دعوتی مہم سے کلی طور پر دست کش ہوجائیں بلکہ ان کا مطالبہ دعوت میںمعمولی ترمیمات کا ہوتا ہے تاکہ حق اور باطل دونوں کےلئے بقا کا حق تسلیم کرلیاجائے۔ شیطان اسی روزن (شگاف)سے داخل ہوتا ہے۔ داعی سمجھنے لگتا ہے کہ دعوت کا مفاد اصحابِ اقتدار کو کسی نہ کسی طرح اِس دعوت کا ہمنوا بنانے میں ہے چاہے اس کےلئے پیغام حق کے ایک حصے سے دستبردار ہوناپڑے لیکن آغازِ کار میں اگر معمولی سا انحراف پیدا ہوجائے تو سفرکے اختتام پر یہ مکمل انحراف میںبدل جاتا ہے۔ جو داعی دعوت کے سلسلے میں تھوڑی سی لچک کو گوارا کرلیتا ہے یا اس کے کسی جز میں معمولی سی ترمیم کو راہ دےدیتا ہے تو پھر اس رعایت کادائرہ اس حد تک ہی محدود نہیں رہتا۔ اپنے ثابت شدہ موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہی اس کی پسپائی شروع ہوجاتی ہے اور پھر ا±س میں روزافزوں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔
 
مسئلہ دراصل مکمل ایمان کا ہے۔جو شخص ایمان کے کسی چھوٹے سے جز سے بھی دستبردار ہوتا ہے یا ا±س کے تقاضوں سے چشم پوشی کرتا ہے وہ اپنی دعوت پر مکمل اعتماد رکھنے والا نہیں ہوسکتا۔ دعوتِ حق کا ہر پہلو مومن کی نگاہ میں اہم اور ضروری ہے۔ اس میں کوئی ج±ز نفل نہیں ہے جس سے یک گونہ بے نیازی برتی جاسکتی ہو۔ یہ دعوت ایک مکمل اکائی ہے۔ اگر اسکا ایک جز بھی نکل جائے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دے گی، جس طرح کسی مرکب کا ایک عنصر نکل جائے تو اس کے خواص تبدیل ہوجاتے ہیں۔
 
ارباب اقتدار ، علمبردارانِ دعوت کو آہستہ آہستہ اپنے جال میں پھانستے ہیں۔ جب اہل دعوت کسی ایک میدان میں مصالحت کرلیتے ہیں تو ان کا وقار ختم ہوجاتا ہے۔ وہ استقامت کے جوہر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ارباب اقتدار سمجھ لیتے ہیں کہ سودے بازی جاری رکھی جائے تو آخر میں پوری متاع پر آسانی سے قبضہ کیا جاسکتا ہے۔
 
دعوت کے کسی پہلو میں خود سپردگی جس کا مقصد اصحاب اقتدار کو ہمنوا بنانا ہو، دراصل روحانی شکست خوردگی ہے کیونکہ دعوت کی تائید ونصرت کےلئے گویا ارباب اقتدار پر بھروسا کرلیا گیاحالانکہ اپنی دعوت پر سچا ایمان رکھنے والوں کا اعتماد وبھروسا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے۔ جب دل کے نہا ں خانے میں شکست و ہزیمت راہ پالے توشکست کو فتح میں نہیں بدلا جاسکتا۔مشرکین جب رسول اللہ کو اس فتنے میں مبتلا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو انھوںنے سرزمینِ مکہ سے آپ کے قدم اکھاڑنے کی کوشش کی ، اِس مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کی کہ آپ خود یہاں سے ہجرت کرجائیں۔یہ حقیقت بھی ملحوظ رہے کہ اِسلام ایک مکمل نظام حیات ہے جس میں ان قوانینِ فطرت کی رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے جونفسِ انسانی پر اس کے جملہ مدارج و احوال کے اندر متصرف ہیں اور جن کی عملداری انسانی سماج کے حالات پر محیط ہے۔ قرآن مجید اپنے احکام کے ذریعے جو فطرت سے ہم آہنگ ہیں،فرد کی بھی اصلاح کرتا ہے اور اِن افراد سے ترکیب پانے والے معاشرے کی بھی۔ وہ بیک وقت دونوں کی مکمل ، ہمہ گیر اور ہمہ جہت اصلاح کرتا ہے۔
 
(مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں)
 

شیئر: