Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دعا اور نصیحت ، خیر خواہی کی چوٹی

 جن سے ہمیں خوشی ملتی ہے ان کےلئے دعا گو رہنا فرض ہے، جو ہمیں تکلیف دیتے ہیں ان کےلئے خیر کی دعا کرنا احسان ہے
 
ڈاکٹربشری تسنیم۔ شارجہ
 
اسلام آفاقی دین ہے۔ رب العالمین نے سیدنا محمد کو رحمة للعالمین بنا کر بھیجا اور قرآن مجید فرقانِ حمید دی جو للعالمین ہے۔ اس دین کا قرآن پاک اور اسوہ رسول کی تعلیم کا لب لباب یا خلاصہ انسانیت کی فلاح ہے اور اس فلاح کا بنیادی فلسفہ انسانیت کے لیے دعا اور نصیحت ہے۔ نصیحت کے بارے میں واضح ہے کہ” الدین النصیحہ“ دین خیر خواہی کا دوسرا نام ہے۔ یہ خیر خواہی زمین و آسمان کے درمیان موجود ہر شے کے ساتھ ہے۔ محبت کا پیمانہ ،تعلق کا درجہ جیسا ہوگا خیر خواہی اسی قدر اپنا رنگ دکھائے گی۔ دعا اور نصیحت کرنا وہ دلی خیر خواہی ہے جس کے نتیجے میں دنیا اور آخرت کی حسنات میسر آتی ہیںلیکن قرآن نے تو آپ نصیحت کرتے رہیں اگر نصیحت کچھ فائدہ دے(الاعلٰی9)کی بھی تعلیم دی ہے۔ 
 
کوئی نصیحت مشورہ ،رائے یا خیر خواہی کو قبول نہ کرے یا بے رخی وبے توجہی اختیار کرے تو اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد اسے اس کے حال پہ چھوڑ دینے کی بھی تلقین ہے۔ نصیحت اُس کا حق ہے جو اس کی طلب رکھتا ہو لیکن دعا کرنا ایسا عمل ہے جو کسی طور بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے، پسند کرے یا نہ کرے، درخواست کرے یا نہ کرے، کسی سے راضی ہو یا ناراض، پسند کرتا ہو یا نہ کرتا ہو،کسی کو خبر ہو یا نہ ہو ،کوئی دعا کرنے والے کی خیر خواہی پہ شک کرتا ہو، دعا کی حاجت محسوس نہ کرتا ہو.... ان سب کے باوجود دعا کے عمل کو کسی حال میں چھوڑنے کی اجازت نہیں حتیٰ کہ دشمن اور ظالم کےلئے بھی دعا کرنا عبادت ہے۔ جس کےلئے دعا کی جا رہی ہے وہ اس عظیم تحفے کے احساس سے غافل ہے، ناقدری کرتا ہے تو بھی دعاگو 2قسم کے فائدے سے کبھی محروم نہیں ہوتا ۔وہ یہ کہ دعا بجائے خود عبادت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا حق بھی ادا ہوتا ہے اور بندوں کا بھی، اور وہی دعا فرشتے کی” آمین “کے ساتھ دعاگو کےلئے واجب ہو جاتی ہے۔
 
دعا کرنے والے کو رب کا قرب نصیب رہتا ہے۔ اسے اپنے جوتے کا ٹوٹا تسمہ مانگنا ہو یا دنیا کی بادشاہت مانگنے کےلئے وہ صرف مالک الملک کے حضور ہی کھڑا ہوتا ہے تو رب کا پیارا ہو جاتا ہے۔ اگر اسی وقت اپنے جیسے کسی اور ضرورت مند کی حاجت بھی پیش کرتا ہے تواللہ رب العزت کو اور بھی پیارا لگتا ہے ۔پھر وہ سوچتا ہے کہ جب مانگنا ہی ہے تو پوری امت مسلمہ کےلئے کیوں نہ مانگا جائے تاکہ اُس رب العالمین کی نظر میں بہت زیادہ پیارا بن جایا جائے۔ ہر نماز کے بعد جمعة المبارک کی خاص گھڑی، رمضان المبارک اور اس کی طاق راتیں، عمرے اور حج کے موسم اور دعائے نیم شب میں اپنے حبیب حضورکی پیاری امت کےلئے دل کی گہرائیوں سے دعا کرنا رسول کو بہت بہت پسند آئے گا اور حقیقت میں ساری امت مسلمہ کےلئے دعا کرنا اپنے درجات بلند کرنے، رب کو راضی کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کے بعد عملِ خیر کے باقی دروازے بھی کشادہ ہوں گے۔
دنیا کے سارے کافر و مشرک اور ظالم بھی دعائے ہدایت کے حقدار ہیں کہ ”مظلوم کی مدد کرو اور ظالم کی بھی“۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی اشرف ا لمخلوق کے ہر فرد کو آگ سے بچانا چاہتا ہے۔ جو اللہ کی اس چاہت کو پورا کرنے کی اپنی سی کوشش کرےگا خالق کا پسندیدہ ہو جائےگا۔
 
جو کلمہ حق سے محروم مرا اس کےلئے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں اس لئے کہ ا س کا اب دنیا سے ناطہ ٹوٹ چکا ہے اور اب وہ اک نئے جہاں میں آباد ہے جہاں اس کا معاملہ انسانوں کے ساتھ نہیں بلکہ رب العالمین کے ساتھ ہے۔ کلمہ حق قبول کرنے والا دنیا میں بھی دعا کا ہمیشہ حقدار رہتا ہے اور مرنے کے بعد یہ حق اور بھی بڑھا دیا گیا ہے اور کسی وقت یہ خیر خواہی کا تعلق ختم نہیں ہوتا۔ دعا اور نصیحت وہ خیر خواہی ہے جس کا نعم البدل دنیا بھر کی ساری دولت بھی نہیں ہو سکتی۔ جن سے ہمیں خوشی ملتی ہے ان کےلئے دعا گو رہنا عین فرض ہے۔ جو ہمیں تکلیف دیتے ہیں ان کےلئے خیر کی دعا کرنا احسان ہے اور احسان نیکی کا اعلیٰ درجہ ہے۔ 
 
انسانی رشتے اور تعلق داریاں سدا ایک جیسی نہیں رہتیں' بعض اوقات رشتے اس قدر دل آزاری کرتے ہیں کہ بھلائی کو پہچان ہی نہیں پاتے نصیحت ان کو دشمنی لگتی ہے۔ ایسی دل آزاری پہ حکمت کا تقاضا یہی لگتا ہے کہ انسان عافیت کی راہ اختیار کرے۔اللہ رب العزت نے ایسے ہی حالات کے بارے میں فرمایا کہ”اُن کے دلوں میں جو کچھ رنجش و کینہ تھا، ہم سب کچھ نکال دیں گے“ (الحِجر47)۔
 
اس قسم کے حالات میں خاموشی اور درگزر بہترین رویہ ہے۔جب اللہ کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو تو اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہی سپرد کر دینا سکون کا باعث ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے سپرد معاملہ کر دیا تو پھر بندوں سے کیا توقع رکھنا۔ سارے معاملات اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہونے ہی ہیں تو پھر وہ وقت قریب ہی ہے دور نہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے حقیقت حال واضح کردے گا اور کسی پہ ظلم نہ کرے گا۔ ان حالات میں دعا ہی مومن کا ہتھیار ہے۔
 
(مکمل مضمون روشنی میں ملاحظہ کریں)

شیئر: