Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیٹی سے کہاتھا جلد آؤں گا، آج35سال بیت گئے

آج رولو مگر میری طرح40سال بعد نہ رونا،اپنوں کےلئے پرائے دیس آئے ہو مگر اپنو ں کو بھی پرایا بنا جاﺅگے
 
مصطفی حبیب صدیقی
 
السلام وعلیکم رحیم چاچا۔
میں گہری سوچوں میں گم رحیم چاچا کو زور سے سلام کرکے گویا واپس اس دنیا میں لے آیا،وعلیکم السلام بھتیجے۔
رحیم چاچا نے آج پھر مجھے بھتیجا کہہ کر جواب دیا مگر ان کے جواب میں وہ طمانیت اور جو ش نہیں تھا،ایسا لگا کہ جیسے کسی گہری چوٹ کی دھمک آج پھر محسوس ہورہی ہے۔دیار غیر میں بسنے والے یوں ہی چاچا اور ماما کے رشتے بنا کر کسی کے بھتیجے اور بھانجے بن جاتے ہیں ،کیا کریں یہاں توبس یہی رشتے اپنے ہوتے ہیں ،اپنے تو بہت دور ہوتے ہیں مگر شاید اپنے اس کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں،خیر بات کہیں اور چل نکلی۔
 
رحیم چاچا میرے زور دار سلام پر چونک کر رک گئے،میں نے پوچھا رحیم چاچا خیریت تو ہے ،آج بڑے خراماں خراماں رات کے سناٹے میں جدہ کی سڑک چھاپ رہے ہو۔
وہ مسکرادیئے مگر مسکراہٹ بھی اتنی پھیکی کے چھپائے نہ چھپے”ہاں بیٹا ،بس زندگی کے 40سال ضائع کردیئے“۔
میں سمجھ گیا رحیم چاچا کو یقینا کوئی پرانی یاد ستارہی ہے،میں نے رحیم چاچا کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔
”کیا ہوگیا رحیم چاچا،مجھے بتائیں میں بھی تو آخر آپ کا بھتیجا ہوں،سگا نہ سہی“۔میں نے رحیم چاچا کو حوصلہ دیتے ہوئے سوال کیا۔ 
رحیم چاچا بولنے لگے”نا بیٹا !ایسا نا کہيں ،یہاں تم لوگوں کے علاوہ ہے ہی کون میرا اپنا،تم ہی تو میرے اصل رشتہ دار ہو“۔
تو پھر ماجرا کیا ہے، کچھ تو بتائیں آج آپ بڑے بجھے بجھے لگے ۔
 
میں روز رات کو دفتر سے گھر پہنچنے کے بعد حسب عادت کھانا کھانے کے بعد سڑک چھاپنے نکل پڑتا ہوں،کہنے کو تو یہ ٹہلنا ہوتا ہے مگر شاید اس کا مقصد رحیم چاچا سمیت میرے کچھ منہ بولے ماما،تایاوغیرہ سے ملاقات ہوتی ہے۔رحیم چاچا آج تنہا ہی نظر آئے ،رات بھی کافی ہوچکی تھی، سڑک بھی سنسان تھی ،میں نے رحیم چاچا کو وہیں سڑک کے ساتھ ایک فٹ پاتھ پر بٹھالیا اور پھر ہاتھ تھامتے ہوئے نہایت قربت کے اظہار کے ساتھ پوچھا”مجھے تو بتائیں کیا ہوگیا“۔
 
رحیم چاچا کو شاید اسی سوال کا انتظار تھا،ایسا لگا جیسے وہ کسی اپنے کی تلاش میں ہوں جس کوسب کچھ بتاکر خود ہلکے ہوجائیں اور پھر وہ پھٹ پڑے۔
”آج میری نواسی نے مجھے فون پر کہا کہ نانا آپ کب آئیں گے ،مجھے آپ کیساتھ ٹافی لینے جانا ہے“۔رحیم چاچا کی آنکھیں نم ہوچکی تھیں۔آج سے ٹھیک 35سال پہلے میری بیٹی نے بھی ایسے ہی ایک سوال کیا تھا کہ ”ابو آپ کب آئیں گے،مجھے گڑیا لاکر دیں نا“ اور میں نے جواب دیا تھا کہ بس بیٹی بہت جلد مگر وہ بہت جلد 35سال میں بیت گیا۔
بیٹا آج ایک زور کی چوٹ دل کو لگی ہے،آج میں اپنی بیٹی کو سینے سے لگانا چاہتا ہوں،میں چاہتا ہوںکہ میری بیٹی میری انگلی پکڑے اور محلے کے نکڑ پر کھڑے چھاپڑی والے سے گڑیا کے بال خریدنے کی ضد کرے،میرا دل چاہتا ہے کہ میری بیٹی اسکول سے دوڑتی ہوئی آئے اور ابو کہہ کر میرے سینے پر بیٹھ جائے ،میں کہوں ارے ارے ہٹو ،اٹھو بھئی یہ کیا ،اور وہ اتراتی ہوئی بولے نہیں ابھی نہیں پہلے مجھے ٹافی دیں۔
آج میری بیٹی تو یہ سب نہیں کہہ سکتی مگر اس کی بیٹی نے کہہ دیا مگر افسوس اب بھی میں اس سے بہت دور ہوں۔میں کیا کرگیا بیٹا ،میں نے بہت کچھ پانے کے چکر میں بہت کچھ کھودیا۔
 
رحیم چاچا یہ کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے،ایسا لگا جیسے وہ تو اپنا دل ہلکا کئے جارہے ہوں مگر میرا دل منوں بوجھ تلے دبائے جارہے ہوں۔ میرے جذبات بھی قابو میں نہیں تھے،مجھے بھی اپنی بیٹی اور بیٹے یاد آنے لگے،میں نے کہا کہ رحیم چاچا آپ نے تو مجھے بھی رلادیا۔
رحیم چاچانے کہا کہ بیٹا آج رولو مگر میری طرح40سال بعد نہ رونا۔ وہ درد ہوگا ،کسی کو بتا بھی نہیں پاﺅگے، اپنوں کےلئے پرائے دیس آئے ہو مگر اپنو ں کو بھی پرایا بنا جاﺅگے۔ بیٹا ،یہ ٹھیک ہے کہ میں نے یہاں پردیس میںب ہت پیسہ کمایا ہے ،پاکستان میں میرے گھر میں بڑی آسودگی ہے ،میرا گھر خاندان میں سب سے بڑا نہ صحیح تو کسی سے کم بھی نہیں،ہر آسائش گھر میں ہے مگر آج میری بیوی کے بالوں میں چاندی ہے، میری بیٹی بچوں والی ہے،میرا بیٹا بھی بیوی والا ہے،میں اس دوری کی وجہ سے اپنے بچوں سے عجیب سی اجنبیت برت چکا ہوں،اب میرے بچے مجھ سے اپنائیت کا اظہار نہیں کرتے یا شاید وہ کرنا چاہتے ہیں مگر دوری نے ہمارے درمیان تکلف کو بڑھادیا ہے۔
 
بیٹا !میں ایک مشورہ دوں،تم یہ غلطی نہ کرنا ،بیٹا پیسہ ہی سب کچھ نہیں ،اپنے بہت اہم ہیں،وقت سے اہم کوئی چیز نہیں،بیٹا میں اب واپس جانا چاہتا ہوں مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب وہاں میری جگہ نہیں،اب وہاں میں پردیسی ہوں،میں نے جن کےلئے پردیس کو اپنا یا آج انہی کے لئے پردیسی بن گیا۔ ایک ماہ کی چھٹی پر جاتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر کوئی مجھ سے نظر یں چرارہا ہے۔ایسا ادب کہ جس میں اجنبیت نمایاں ہوتی ہے۔بیٹا مجھے یہ سب کچھ کھانے کو دوڑتا ہے۔میں اپنے اندر ہی کڑھ رہا ہوں۔
 
 رحیم چاچا بولے جارہے تھے اور میں خاموشی سے سنے جارہا تھا۔سڑک پر ہوا کی ہلکی ہلکی آوازیں ،تھوڑی تھوڑی دیر سے گزرتی گاڑیوں کی روشنی اور رحیم چاچا کی دل سے نکلنے والی کہانی ،گویا ایک غمگین ساز کا سماں پیدا کررہے تھے۔میں گھنٹہ بھر رحیم چاچا کیساتھ گزار کر انہیں تو ہلکا کرچکا تھا مگر خود بہت وزنی قدموں سے گھر کی جانب لوٹ رہا تھا۔ سوال ایک ہی تھاکہ 
کہیں 40سال بعد میں بھی تو ایسے ہی سڑک پر کسی کو اپنی نواسی کی باتیں بتاکر رو تو نہیں رہا ہونگا۔
 
 
محترم قارئین 
اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔اس کا مقصد بیرون ملک بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کے لئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔ آپ اپنے تجربات ، حقائق، واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ، ہم دنیا کو بتائیں گے ۔اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا نام شائع نہ ہو تو ہم نام تبدیل کردیںگے مگر آپ کی کہانی سچی ہونے چا ہیے۔ ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے تو کمپوز کرکے بھیجیں یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں ای میل کریں۔ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔
ہم سے فون نمبر 0966122836200
ext: 3428
پر بھی رابطہ کیاجاسکتا ہے۔ آپ کی کہانی اردو نیوز کےلئے باعث افتخار ہوگی۔
ای میل
 
 

شیئر: