Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی الیکشن ، پاکستانیوں کو دلچسپی ضرور، بے صبری نہیں

 
 صلاح الدین حیدر
 
 
پارلیمانی انتخابات کسی بھی ملک میں ہوں، دنیا کی نظریں اس پر لگی ہوتی ہیں۔ بات ہی کچھ ایسی ہے۔ حکومتیں تبدیل ہوں تو اکثرو بیشتر ملکوں کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں بھی تبدیلی نظر آنے لگتی ہے اور اگر یہ انتخابات کسی جمہوری ملک میں ہوں ۔ ہندوستان، انگلینڈ ، جرمنی ، فرانس یا پھر امریکہ میں تو ساری دنیا ان میں دلچسپی لینا شروع کردیتی ہے۔ ہر چیز کا بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔
امریکہ چونکہ اس وقت دنیا کی واحد سپرپاور ہے اسی لئے وہاں کے ہر 4 سال بعد ہونے والے انتخابات بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہےں۔ منگل 8 نومبر کو یہ انتخابات ہورہے ہیں ۔ اوروں کی طرح پاکستان میں بھی اسکا بغور جائزہ لیا جارہا ہے۔
سابق امریکی صدر کی اہلیہ ہیلری کلنٹن جو کہ امریکہ کی سابق وزیر خارجہ بھی رہ چکی ہیں اور نیویارک سے سینیٹر بھی ہیں اس لئے ان پر نظریں مرکوز ہیں۔ ان کے مخالف ریپبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جن سے اچھے خاصے مقابلے کی توقع ہے۔ کچھ مبصرین تو اسے 2000 میں ہونےو الے جارج بش اور الگور کے انتخابات سے تشبیہ دے رہے ہیں انکا اندازہ کچھ غلط بھی نہیں ۔
امریکی ا نتخابات کے کئی مدارج ہوتے ہیں۔ ان سارے مراحل میں دونوں کے درمیان سخت رسہ کشی دیکھنے میں آئی ہے۔ دنیا بھر کے سروے یا گیلپ پول انیس بیس کا فرق دکھانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف تھے لیکن میری نظر میں یہ گیلپ سروے کوئی خاص معنی نہیں رکھتے اور اکثر و بیشتر یہ غلط بھی ثابت ہوچکے ہیں۔
اب جبکہ مقابلے میں صرف دو چار روز ہی رہ گئے ہیں تو ہندوستان اور پاکستان میں لوگ بے چینی سے ان کے نتائج کا انتظار کررہے ہیں ۔ 
پہلے تو خیال یہ تھا کہ چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر امریکیوں کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنایا تھا اسی لئے ان کی مقبولیت کے بارے میں کچھ زیادہ حمایت نظر نہیں آتی تھی۔ عام خیال یہ تھا کہ ٹرمپ مسلمانوں ، افریقی اور ایشیائی باشندوں کے ووٹ سے محروم ہوجائیں گے لیکن پھر انہوں نے پاکستان کیخلاف تو اپنا رویہ جارحانہ ہی رکھا لیکن ہندوستانیوں کے ہاتھ پیر جوڑنے شروع کردیئے۔ ان کے ریپبلکن پارٹی کے سرکردہ لوگ بھی ان سے نالاں نظر آنے لگے تھے۔ کانگریس کے اسپیکر تک نے ٹرمپ کی حمایت سے انکار کردیا لیکن ہیلری کلنٹن کی ای میل ان کیلئے وبال جان بن گئی۔ اس وقت بھی امریکی ایف بی آئی نے جو کہ وہاں کا سب سے طاقتور تفتیشی ادارہ ہے ، دوبارہ اس پر تحقیقات شروع کردی ہیں۔
کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ ہیلری انتخابات میں جیت جائیں گی لیکن شاید صدر بننے کے بعد انہیں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑے کہ اپنی سرکاری حیثیت میں انہوں نے اتنی غیر ذمہ داری کا ثبوت کیوں دیا؟ 
ہم چونکہ امریکہ سے 10 ہزار میل کی دوری پر ہیں اس لئے ہمیں ان حقائق تک رسائی ناممکن ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے ہم ہندوستانی اخباری نمائندوں پر جو کہ خاصی تعداد میں واشنگٹن اور نیویارک میں موجود ہیں اپنے تجزیات سے ہم وطنوں کو باخبر رکھتے ہیں اور پھر امریکی اخبارات یا سی این این پر انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی اطلاعات پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔
ان اطلاعات میں ایک بات صاف ہے کہ ٹرمپ تو خیر پاکستانی اور اسلامی ملکوں کےخلاف ہیں لیکن ہندوستان کے چند موقر اخبارات بھی اس بات پر متفق ہیں کہ خود ہیلری بھی ہندوستان سے زیادہ خوش نہیں۔ اگر ایسا ہے بھی تو ہم پاکستانیوں کیلئے کوئی خوشخبری نہیں ہے۔
اصل چیز یہ ہے جو ہیلری نے خود پاکستان کے بارے میں اپنے بیانات اور سی این این کے ایک انٹرویو میں کہی جس میں صاف طور پر انکا رویہ پاکستان سے معاندانہ تھا۔ دوسری طرف اگر ہم دیکھیں تو صدر اوباما ہندوستان کی کھلی حمایت کررہے ہیں ۔ اسلحہ کی فیکٹریاں، نیوکلیئر سپلائرز گروپ اور سیکیورٹی کونسل میں ہند کی مستقل نشست کی حمایت کرچکے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ روس اور چین نے ہند کے عزائم خاک میں ملا دیئے۔ یہی بات امریکی قیادت کو پسند نہیں۔ 
چین پاکستان معاہدہ جس کی مالیت 46 ارب ڈالر ہے اور جو مکمل ہونے کے بعد خطہ میں زندگی کی ایک نئی لہر دوڑا دے گا۔ اس سے امریکہ اگر خائف نہیں تو متفکر ضرور ہے۔ اسے چین کے پاکستان کے ساتھ بڑھتے تعلقات سے خاصی پریشانی ہے۔یہ بات ہیلری کے پیش نظر ہونا لازمی ہے ۔ وہ وزیر خارجہ ہوتے ہوئے پاکستان کے دورہ پر بڑی توقعات لے کر آئی تھیں لیکن جس طرح ان سے سوالات کی بوچھاڑ ٹیلیویژن انٹرویوز اور خاص طور پر پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ نے کی اس سے وہ خاصی دلبرداشتہ ہوئیں اور پھر کبھی پاکستان کادورہ نہیں کیا۔ 
امریکہ کی پالیسیوں کے بارے میں پاکستانیوں کی رائے کوئی اچھی نہیں ہے۔ اس بات کا اظہار تو مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے پارلیمنٹ میں بھی کیا۔ ان کے مطابق (امریکی) جب مرضی آتی ہے ہماری طرف آجاتے ہیں اور جب مرضی ہو واپس چلے جاتے ہیں۔ مطلب طوطا چشمی صاف ظاہر ہے۔ ان کے رویہ سے ایسے میں پاک امریکی تعلقات اونچ نیچ کا شکار اکثر و بیشتر ہوتے رہتے ہیں۔ ایوب خان یا جان فوسٹر ڈلس کا زمانہ اور تھا جب پاکستان اور امریکہ میں ہنی مون کا زمانہ تھا۔ 1965 ءکے بعد امریکی رویہ میں تبدیلی آئی اور اب تو اس میں باقاعدہ تشنج پیدا ہوگیا ہے۔
پاکستان نے بھی یہ سوچ کر کہ کسی ایک پر انحصار کیوں کیا جائے۔ اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کیں ۔ فرانس سے ہوائی جہاز، سب میرین اور دوسرے ہتھیار خریدے اور اب تو چین کے ساتھ جے ایف۔17 تھنڈر لڑاکا جہاز ہماری ایئرفورس کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ چین کی مدد سے ہم نے آبدوزیں بنانا شروع کردی ہیں اور چونکہ پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے اس لئے اسے اب امریکی امداد کی اتنی ضرورت نہیں جتنی کہ پہلے تھی۔ پاکستان نے میزائل کا ایک بہت خوبصورت نظام وضع کرلیا ہے جو جنگ کی صورت میں ملک کی سلامتی کا ضامن ہوگا۔
ظاہر ہے ہیلری جیتتی ہیں یا ٹرمپ، پاکستانیوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرا دی گئی ہے کہ انہیں اپنے آپ پر بھروسہ کرنے
 کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ یہی بات ہمارے حق میں ہے۔ اب چاہے ہیلری جیتیں یا ٹرمپ ہم نے اپنا راستہ چن لیا ہے۔ امریکہ سے دوستی تو جاری رہے گی لیکن زیرو بم آتے رہیں گے۔ یہ بالکل لازمی امر ہے۔ ہیلری سے بہت زیادہ امیدیں رکھنا حماقت ہوگی۔ امریکی انتخابات میں پاکستانیوں کی دلچسپی ضرور ہے لیکن نتائج کی بے صبری نہیں پھر ہیلری کا کردار لیبیا کے شہر بن غازی کی تباہی سب کے سامنے ہے۔ اسلامی ملکوں کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ امریکہ سے دوستی ضروری ہے لیکن برابری کی بنیاد پر۔ 
******

شیئر: