Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسلم پرسنل لا کا تحفظ ، مسلمانوں کی ذمہ داری

 ہندوستان میں جذبات کو بھڑکاکر، پھوٹ ڈال کر اور مسلمانوں کے عائلی قوانین پر حملہ کرکے سنگین صورتحال پیدا کردی گئی
 
 
نثاراحمد حصیر القاسمی۔حیدرآباد دکن
 
اپنے وطن عزیز ہندوستان میں آج مسلمانوں کو حکمراں طبقہ اور اس سے وابستہ انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے عجیب وغریب صورتحال کا سامنا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمراں طاقت کے نشہ میں ہوش وحواس کھو چکے اور سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کا اقتدار لازوال ہے۔ اس وقت ان کی منطق وہی ہے جو قوم عاد کی تھی ۔ وہ اس زعم اور غرور میں مبتلا تھے کہ ”من اشد منا قوة “ مجھ سے زیادہ طاقتور کون ہوسکتا ہے، میں تو دنیا کی سب سے طاقتور قوم ہوں،بھلا مجھے کون مغلوب کرسکتا ہے۔
اس منطق وغلط فہمی کے تحت ہمارے آر ایس ایس کے پروردہ حکمراں نہ صرف مسلمانوں پر ہر طرح کے مظالم روا رکھے ہوئے ہیں بلکہ ہندوستان کے اصل باشندے دلتوں کو بھی نشانہ بنا کر تختہ¿ مشق بنائے ہوئے اور ان کی زندگی اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ اب تک ان کے مظالم جسمانی اذیت پہنچانے‘ ذہنی ٹارچر کرنے، بے گناہوں کو سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے پر مجبور کرنے،نوجوانوں کا قتل عام کرنے، تعلیم سے انہیں دور رکھنے،ان کا انکاﺅنٹر کے نام پر اپنے جذبہ¿ انتقام کو ٹھنڈا کرنے ، گائے اور رام مندر جیسے مسائل کے نام پر ظلم وستم ڈھانے اور دوسرے نمبر کے شہری محدود تھا ، ہر میدان میں سلوک کرنے تک محدود تھا ،مگر اب انہیں اپنے دین وایمان سے بے دخل کرنے کیلئے ان کے عائلی قوانین” پرسنل لا“ میں مداخلت کی منظم منصوبہ کے اگلے قدم کے طور پر کوشش کی جارہی ہے اور سارے دستوری وقانونی حقوق کو حرفِ غلط کی طرح مٹانے کی دھمکی دی جارہی ہے کہ مسلمان اپنے ملک میں یا تو اکثریتی طبقہ میں جذب ہو کر اور موچی بھنگی اور اس طرح کے گھٹیا پیشہ سے وابستہ رہ کر زندگی گزاریں یا اپنے وجود سے ہاتھ دھو لیں۔
 
آج ایک طرف طلاقِ ثلاثہ ، حلالہ، تعدد ازدواج اور اس طرح کے شرعی قوانین کو تبدیل کرنے اور مسلمانوں کو اپنے عائلی قوانین پر عمل کرنے اور اسلامی ہدایات کے مطابق نکاح وطلاق کے معاملات طے کرنے سے روکا جارہا ہے تو دوسری طرف انہیں دھمکی دی جارہی ہے کہ وہ اگر اپنے مذہبی قوانین کو عزیز جاننے اور ملک کے اکثریتی عائلی قوانین کو اپنے اوپر نافذ کئے جانے سے انکار کرتے ہیں تو وہ ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔مسلمان ہی نہیںبلکہ جو بھی آج حکمرانوں کے طرز عمل اور ان کے مذہبی جنون اور انتظامی نا اہلی کےخلاف آواز بلند کرتا ہے ، غدار اور قوم وملک کا دشمن قرار دیکر انہیں عقوبت خانوں میں پہنچا دیا جاتا ہے اور اکثریتی طبقہ کے قاتلوں ،سفاکوں ،دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کو کھلی آزادی ہے کہ وہ جہاں اور جس طرح چاہیں قانون اپنے ہاتھ میں لیکر دستور کی دھجیاں اڑائیں۔آج حکمرانوں کی سرپرستی میں ان کی تنظیم کے سیوک زمین میں فساد وبگاڑبرپا کرانے ابنائے وطن کے درمیان گہری کھائی اور طویل خلیج پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں تاکہ ملک کے اصل باشندے دلت اور مسلمان آپس میں لڑتے رہیں اور باہر سے اس ملک میں آکر اس پر حکمرانی کرنے والے اونچی ذات کے سیاست داں حکمرانی کرتے رہےں۔آج ہمارے حکمراں طاقت وسائل اور اسلام دشمن عالمی طاقتوں کی حمایت وتائید کے نشہ میں مدہوش اور کبر ونخوت میں اس قدر اکڑے ہوئے ہیں کہ ان میں خیر وشر اور ملک کے صلاح وفساد کی تمیز تک باقی نہیں رہی اور نہ یہاں کی تہذیب و روایات کا پاس ولحاظ رہا ہے۔ان کا ایک ہی نظریہ ہے کہ ہمارے پاس طاقت ہے، ہمیںمغرب کی پشت پناہی حاصل ہے، اسرائیل ہمارا دوست اور مشیر ومنصوبہ ساز ہے اس لئے ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں، ہم سے بھلا کون باز پرس کرسکتا ہے، یہی بات قوم عاد نے کہی تھی جسے تباہی وبربادی اور عذاب کا سامنا کرنا پڑا اور وہ نیست ونابود کردیئے گئے،انہوں نے کہا تھا
”اور عاد نے بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے؟ کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے بہت ہی زیادہ زور آور ہے، وہ آخر تک ہماری آیتوں کا انکار ہی کرتے رہے۔ “( فصلت 15)۔ 
 
اس کبر ونخوت اور غرور واکڑ کا نتیجہ کیا ہوا، خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
”بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز وتند آندھی منحوس دنوں میں بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں، اور (یقین مانو ) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا ہے او ر وہ مدد نہیں کئے جائیںگے۔“ (فصلت 16)۔
اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس کا ایک مقرر کردہ نظام ہے کہ جو اس طرح کے کبروغرور میں مبتلا ہوتا ہے اور اپنے ناقابل تسخیر عظیم طاقت ہونے کا دعویٰ کرتا اور دوسروں کو للکار کر ظلم و ستم اور بدامنی ولا قانونیت کا دروازہ کھولتا ہے۔ اس کا انجام دیر ہو یا سویرہلاکت و بربادی ہے۔
 
آج پورے ہندوستان میں مذہبی جذبات کو بھڑکاکر، برادرانِ وطن کے درمیان پھوٹ ڈال کر اور مسلمانوں کے عائلی قوانین پر حملہ کرکے ایک سنگین صورتحال پیدا کردی گئی اور خانہ جنگی و انتشار کی فضاءقائم کرکے سیاسی روٹی سینکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو مکمل اعتماد ہے کہ مغرب ہمارے پشت پر ہے اور اسرائیل ہمارا مشیر ہے، ہمارے پاس طاقت کی کمی نہیں، ملکی بساط ہو یا بین الاقوامی پلیٹ فارم ہماری آواز سنی جانے والی اور ملک کے مظلوموں کی آواز حلق سے باہر نہیں آسکتی اور نہ اس کا کوئی پرسان حال ہے،اس لئے ہمارا کوئی بال بیکانہیں کرسکتامگر ایمان سے عاری ہونے کی وجہ سے وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قوم عاد و ثمود اور فرعون ان سے زیادہ طاقتور اور زیادہ ہتھیار ولاﺅ لشکر والے تھے مگر ان کا انجام کیا ہوا! ہامان و قارون کا حشر کیساہو؟
 
تاریخ گواہ ہے کہ اس وقت سے آج تک جس نے بھی اپنی طاقت کے نشہ میں بدمست ہوکر بے گناہوں پر مظالم ڈھائے وہ زیادہ دنوں نہیں رہ سکے، ایک نہ ایک دن ان کے مظالم کی داستان ختم ہوئی اور وہی ان کیلئے تباہی و بربادی کا سبب بنا۔ آج نہ ہٹلر باقی ہے نہ سوویت یونین اپنا اتحاد باقی رکھ سکا۔ ظالموں کے حشر و انجام سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ بطور عبرت میں اس جگہ صرف ایک واقعہ ذکر کر دینا مناسب سمجھتاہوں۔ 
 
اس وطن عزیز کے اندر شاہ عالم ثانی نے اپنے محسن نجیب الدولہ کے بیٹے ضابطہ خان کے غوث گڑھ پر حملہ کرکے اسے تباہ و برباد کردیا اور ضابطہ خان کی بیوی بچوں کو قیدی بنالیا۔ ، ضابطہ خان کے بیٹے غلام قادر روہیلہ پر شاہ عالم ثانی نے بڑا ظلم کیاتھا۔شاہ عالم بھول گیا کہ یہ اس شخص کا پوتا ہے جس نے مصیبت کے وقت اس کی مدد کی تھی۔ حالات بدلے اور چند سالوں بعد ہی غلام قادر دہلی پر قابض ہوگئے اور اپنی اور اپنے خاندان کی بے عزتی کا انتقام اس طرح لیا کہ اُس کی اولاد کو رسوا کیااور شاہ عالم کو زبردستی یہ منظر دکھلایا تاکہ اسے اپنی پچھلی حرکتیں یاد آئیں۔کل شاہ عالم غلام قادر پر ظلم کر رہا تھا اور آج ا سکے خاندان کے شہزادے اس کے سامنے بے بس تھے۔غلام قادر نے شاہ عالم کی آنکھیں نکال لی، مگر اس کے بعد ہی اس کی مدد کےلئے مرہٹوں کی فوج سندھیا کی قیادت میں دہلی میں داخل ہوگئی۔ غلام قادر کے سارے وفادار اس کا ساتھ چھوڑ کر بھاگ گئے، وہ پکڑا گیا اور اسکی آنکھ، کان ، ناک اور زندہ حالت میں اس کے جسم کے گوشت چھیل کراتارے گئے۔
 
شاہ عالم نے دوسروں پر مظالم ڈھائے اور خود اپنے محسن کے بیٹے پوتوں پر ظلم کیا، اسے اس کے ظلم کی سزا اسی دنیا میں مل گئی۔ غلام قادر نے شاہ عالم اور اس کے خاندان والوں پر مظالم ڈھائے تو اسے بھی اس کا بدلہ اسی دنیا میں مل گیا۔راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے تالے کھلواکر شیلا نیاس اور پوجا کی اجازت دی اور مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی کی۔راجیو گاندھی کے خوفناک انجام سے ہم سب واقف ہیں۔ یہ تاریخی حقائق ہیں ،تصوراتی خاکے اور خیالی کہانیاں نہیں ۔ جب بھی کسی کی جانب سے کسی پر ظلم کی انتہاءکردی جاتی ہے تو حالات کروٹ لیتے ہیں اور ظالموں کو انجام ِبد سے دو چار ضرور ہونا پڑتا ہے ۔ 
آج ساری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں ۔مغرب پرست حکمراں ان کے اشاروں پر مسلمانوں کا جینا حرام کئے ہوئے ہیں اور ان کے راحت وسکون کو چھینتے ہوئے ہیں۔ مسلمان سخت آزمائش کے دور سے گزر رہے ہیں اور ظلم وسفاکی عروج پر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جنہوں نے بھی عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑا اور ظلم ونا انصافی کا راستہ اختیار کیا تو ہلاکت وبربادی و اور زوال وبکھراو¿ ان کا مقدر بن گیا ۔ 
 
مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت وقت کی سازشوں ، سرگرمیوں اور دین میں مداخلت کی راہ ہموار کرنے کی کوششوں کی پُر امن مزاحمت کریں ۔ عائلی قوانین کی برقراری کی جدو جہد میں حصہ لیں اور پر امن طریقہ پر اس کے لئے جو بھی ممکن ہو کریں اور سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد اور اپنی زبان میں ہم آہنگی پیدا کریں۔ 
مسلم پرسنل لابورڈ کی تجویز کے مطابق اپنے اپنے علاقہ کے مسلمانوں سے دستخط لیکر مرکز کو روانہ کریں اور پرسنل لامیں مداخلت سے گریز کرنے کے لئے حکومت پر دباو¿ ڈالیں ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مایوسی کا شکار نہ ہوں ، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں اور ہزار بادِ مخالف کے باوجود یہ امید رکھیں کہ اللہ کے نزدیک دیر ہے اندھیر نہیں ۔ 
 

شیئر: