Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آدمی پیسے کیلئے اپنوں سے دور ہو جاتا ہے،خالد مسعود

خالد مسعود بچوں کے ساتھ تفریحی مقام پر
اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ، دوسری تصویر میں بیٹی داماد، نواسہ اور نواسی
خالد مسعود اور فیملی
خاندان کے ہمراہ

 

پردیس کس اذیت کا نام ہے ،یہ وہی جان سکتا ہے جس نے پردیس کاٹی ہو،ریاض میں 35سال سے مقیم خالد مسعود اور اہلیہ سے ملاقات

 

انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی

محترم قارئین ،آج ہم نے مملکت میں 35سے مقیم خالد مسعود صاحب سے رابطہ کیا،زندگی کے ان گوشوں کو کھنگالنے کی کوشش کی جنہیں اکثر ہم تنہائی میں یاد کرتے ہیں اور پھر آنسو بہاتے ہیں۔ریاض میں مقیم خالد مسعود نے کیا کہا آئیے دیکھتے ہیں۔

اردو نیوز:زندگی کے 35 سال مملکت میں گزر گئے،کیا کھویا؟کیا پایا؟۔

خالد مسعود: زندگی کے 35 قیمتی سال،سوچتا ہوں تو خواب سا لگتا ہے۔

ہم سے نہ پوچھو یاروکیا بیتی دکھیاروں پر

 کیا کھویا،کیا پایا،کیا جیتے،کیا ہار گئے

ایک روشن اور تابناک مستقبل کا خواب جو ہر انسان دیکھتا ہے سو ہم بھی اس خواب کی تعبیر کے تعاقب میں یہاں تک آگئے۔چھوٹے بھائی کی خواہش پر 21 اکتوبر 1981 کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض آگیا۔

ایک ہلکا سا یاد کا جھونکا

زخم سارے ٹٹول دیتا ہے

آدمی سکون کے لیے پیسے کمانا چاہتا ہے پھر اسی پیسے کے لئے اپنوں سے دور ہو جاتا ہے، کچھ پانے کی چاہ میں بہت کچھ کھو بھی دیتا ہے۔ یہ سہی ہے کہ مملکت میں آنے کے بعد الحمداللہ ہم نے اپنے خوابوں کی تعبیر پا لی۔ مالی طور پر آسودہ ہو گئے خود اور اپنے سے وابستہ بہت سے لوگوں کی مالی کفالت کا ذریعہ اللہ نے بنا دیا اور سب سے بڑھ کر حرمین شریفین کی حاضری اسکی زیارت کروائی، جس کے آگے دنیا کی ساری پریشانیاں ساری تکلیفیں ہیچ ہیں ۔ لیکن پردیس کس اذیت کا نام ہے ،یہ وہی جان سکتا ہے جس نے پردیس کاٹی ہو۔ ایسی عجیب سی تنہائی جہاں بیشمار لوگوں کے ہوتے بھی تنہائی کا احساس ہو۔ یہاں میں نے جہاں بہت کچھ پایا وہاں اپنے احساسات ،جذبات اور ارمانوں کی قربانی بھی دی ہے۔

اردو نیوز:کیسا تجربہ رہا مملکت آنے کا؟

خالد مسعود:بہت چھوٹے چھوٹے کام کئے فارمیسی میں دو چھتی سے دوائیں اتار کر شیلف میں لگانے سے لے کر کباب پراٹھے تک لگانے کا کام کیا بلکہ فارمیسی میں کام کے دوران ایک دفعہ چھت سے گر گیا جس کے نتیجے میں ٹانگ تڑوا بیٹھا اور ایک ماہ تک بستر پر تنہا لیٹ کر گھر والوں کو یاد کر کے چپکے چپکے روتا رہااور یہ سوچتا رہا کہ

جو بھی تھا کیا تھوڑا تھا؟

کس نے کہا تھا آؤ یہاں؟

آکر تم بس جاؤ یہاں؟

جب دیس تمہارا اپنا تھا

وہ شہر تمہارا اپنا تھا

وہ گلی تمہاری اپنی تھی

وہ مکاں پرانا پر اپنا تھا

اس دیس سے پھر کیوں منہ موڑا تھا

سب رشتوں کو پھر کیوں چھوڑا تھا

وہاں جو بھی تھا سب تیرا تھا

ہاں، تھوڑا تھا،پر اپناتھا

اردونیوز :بھابھی آپ کیا کہیں گی ؟اپنے بھی تو یادیں ہم سے شیئر کریں؟

شہلا خالد:میں اپنی شادی کے فوراً بعد سعودیہ عرب آ گئی، میرے3 بچے یہیں پیدا ہوئے۔ مملکت کی زندگی میں بہت سکون اور اطمینان ہے۔ مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ میں اپنی والدہ کی وہ خدمت نہیں کر سکی جو انکا حق تھا۔ میں یہاں سعودیہ میں ہی تھی، جب ایک دن اچانک انکی وفات کی خبر آگئی، وہ وقت میں بیان نہیں کر سکتی جب میں نے اپنی پیاری ماں کی جدائی کی خبر سنی۔پردیس میں میرے شوہر اور بچوں کے علاوہ کو ئی نہیں تھا جو میرے غم کو بانٹتا۔ایک اذیت تھی جو روح کو گھائل کر رہی تھی۔ اپنے وطن میں شوہر کے بغیر زندگی گزارنا بہت مشکل امر ہے ہر ہر قدم پر مسائل کے پہاڑ ہیں جن سے تنہا نبرد آزما ہونا آسان نہیں لیکن جب اخراجات لامحدود اور آمدنی کم۔ گزارا بہت مشکل تھامیں نے بچوں کے ساتھ پاکستان جا کر رہنے کا فیصلہ کیا ۔ پردیس کی نوکری نے اس عمر میں ہم دونوں کو الگ الگ رہنے پر مجبور کر دیا ہے اور اب میں اکثر یہ سوچتی ہوں کہ

کب سے میں بیٹھی ہوئی یہ سوچ رہی ہوں

پردیس میں آسانی سے تو پیسہ نہیں آتا

حالات نے چہرے کی چمک چھین لی ورنہ

دوچار برس میں تو بڑھاپا نہیں آتا

اردو نیوز:کیا کبھی محسوس ہوا کہ یار کیوں آگیا؟ سبکو چھوڑ چھاڑ کر؟ کیا رکھا ہے یہاں؟ وغیرہ

خالد مسعود:جی بہت مواقع ایسے آئے جب یہ خیال آیا۔جب میری محبت کرنے والی دادی کا انتقال ہوا۔جب میرے دادا اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ جب چاہنے والی پھوپھی جدا ہوئیں۔ جب باپ کی شفقت رکھنے والے پھوپھا چلے گئے۔ غم کہ ہر لمحے نے واپسی کی ٹھانی۔جب میری بہنوں کی شادیاں ہوئیں والد کا تو انتقال ہو چکا تھا لیکن میں بڑا بھائی باپ کا نعم البدل اس خوشی کے موقع پر ان سے کوسوں دور تھا۔ اپنی بہنوں کو گلے لگا کر رخصت بھی نہ کر پایا۔ ہر خوشی کہ ایسے لمحوں میں دل نے آرزو کی کہ بس، اب بہت ہو گیا اب واپس چلو۔ کچھ دوستوں سے بچھڑ جانے کا غم،کچھ احباب سے نہ ملنے کی تکلیف ،جب یہ سب چیزیں اکھٹا ہوتی ہیں۔ تو دل بے ساختہ پکار اٹھتا ہے۔

چلو اپنے احباب کی طرف لوٹ چلو

سکون دل تھا وہیں،جہاں ہم پہلے تھے

اردو نیوز:بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کچھ بتائیں؟

خالد مسعود:میرے الحمداللہ 7بچے ہیں۔5 بیٹیاں اور 2 بیٹے۔ریال کمانے کے چکر میں مجھے اپنے معصوم بچوں سے بھی جدائی قبول کرنا پڑی۔ ان کی زندگی کے وہ دن جو اب پلٹ کر کبھی نہیں آئیں گے انکو میں نے کھو دیا، ان کی ہنسی،ان کی ضد،ان کی ضرورت کے وقت ان کے پاس ہونے کی طلب، ان کی بیماری میں ان کو لے کر بھاگنااور پریشان ہونا،ان کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے نمٹانا، کبھی پینسل کی فرمائش، کبھی جوتے خرید کر دینے کی خواہش، کبھی باہر گھمانے لے جانے کی ضد، کبھی انکی کتاب کاپی پر کور چڑھانا، کبھی ان کے ساتھ کھیلتے ہوئے گھوڑا بننا الغرض ایسے بہت سارے معصوم اور قیمتی لمحات کے عوض میں نے ریال کما لیا تاکہ انہیں ایک کامیاب زندگی دے سکوں۔

آرزو نے کیا کھویا،جستجو نے کیا پایا

دل چراغ سے خالی ہے،رہگزر چراغاں ہے!!

اردو نیوز:کیا محسوس کرتے ہیں؟

کیا آپ اب پاکستان جانا چاہتے ہیں؟ خالد مسعود:عمر عزیز کے 64 سال کے قریب ہوں اب آج نہیں تو کل جانا ہی ہے۔ اپنی زندگی کے سنہرے دن صحرا کے دشت میں گزار کر اب وطن واپس لوٹوں بھی تو وہاں ایک اجنبیت کا احساس ہے۔اب وہاں جا کر ایڈجسٹ ہونا بھی آسان نہیں۔ ہم خود بھی مملکت کے سکون اطمینان امن و آشتی کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب تو" اتنے مانوس صیاد سے ہو چکے۔اب رہا ئی ملے گی تو مر جائیں گے" بیگم بھی جب واپس جانے کا کہتا ہوں تو کہتی ہیں۔کیا کروگے واپس آکر؟ یہاں کیا رکھا ہے؟ جب تک چلے چلنے دو۔ اب کہاں ملازمت ملے گی؟ لیکن آخر کب تک۔

کون بتائے ،کون سمجھاے،کون سے دیس ہم سدھار گئے۔

کانٹوں کے دکھ سہنے میں تسکین بھی ہے ،آرام بھی ہے۔

اردو نیوز:کو ئی ایسی بات ہم سے شیئر کریں جو ہمارے سوال میں رہ گئی ہو؟

خالد مسعود:بہت اہم بات جو میں آپ کے اخبار کے توسط سے کہنا چاہوں گا کہ اپنا وقت اپنے بیوی بچوں کو دیں۔ میں اس سال پاکستان گیا تو پہلی مرتبہ اپنے 3بچوں کے ساتھ کراچی سے کشمیر تک کی سیر کو گیا۔( پردیس میں رہتے ہوئے میری تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی ہو گئی ہے میں اب ماشااللہ نواسے نواسیوں والا ہوں ) میں نے شدت سے یہ بات محسوس کی کہ میں نے ان بچوں کا بچپن کھودیاہے ، آج یہ میری انگلی پکڑ کر یہ نہیں پوچھ سکتے کہ بابا،وہ کیا ہے؟بابایہ کون سی جگہ ہے؟ آج میرے نواسے ،نواسیاں میرے سینے پر سر رکھ کر لیٹتے ہیں لیکن اپنے بچوں کے بچپن کے اس لمس سے میں خود کو محروم پاتا ہوں،یہ ایک کسک ہے جو کہیں دل کے اندر رہ گئی ہے اور وقتا فوقتا جب کبھی یاد آتی ہے تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھتی ہے۔ میں یہاں پر تمام تارکین وطن کو یہی کہوں گا کہ کم کھائیں مگر بیوی بچوں کے ساتھ رہیں ۔کم میں گزارہ کریں لیکن فیملی کو ساتھ رکھیں، مملکت کی زندگی بہت خوب صورت ہے یہاں حرمین شریفین ہے آپ کو یہاں بہت کچھ ملے گا لیکن بیوی بچوں کے ساتھ۔ بیوی بچے اگر ساتھ نہ ہوں تو آپ زندگی میں بہت اہم لمحات کھو چکے ہوں گے۔

ہاں دکھا دے پھر وہ صبح و شام تو

لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

 

محترم قارئین ! اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے،اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ،آپ کے تجربات سے کیوں نا دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں۔تو آئیے اپنی ویب سائٹ اردو نیوز سے منسلک ہوجائیں۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے توکمپوز کرکے بھیجیں یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں ای میل پر بھیج دیں، اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔ فون نمبر 0966122836200 ext: 3428 آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔ ای میل:[email protected]

شیئر: