Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بس آپ ’’دوبھائی؟‘‘

زبان دانی ایک ایسا کارخانہ ہے جہاں لفظوں کابگڑنا اور سنورنا جاری رہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

شہزاداعظم

انسانی زبان کے بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو کثرت استعمال اور بھانت بھانت کے لوگوں کی زبانوں سے مختلف انداز میں ادا ہونے کے باعث بگڑتے جاتے ہیں۔ ایسے الفاظ کی ایک مثال یہ ہے کہ ’’دروغ بر گردنِ راوی‘‘ مگر ’’فروغ بر گردنِ راقم‘‘ہماری سوتیلی پڑ دادی بتایا کرتی تھیں کہ کئی ہزار برس قبل کسی ملک میں ایک جوڑا رہتا تھا ۔ اس کے صرف 2 بیٹے تھے ۔وہ ابھی ’’او لیول‘‘ میں پہنچے ہی تھے کہ ماں اور باپ کا انتقال ہوگیا، وہ یہ دونوں بھائی یتیم مسکین ہو گئے۔گھرمیں انہیں پکا کر کھلانے والا کوئی نہیں رہا تھا۔کرائے کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مالک مکان نے دونو ں بھائیوں کو دھکے دے کر نکال دیا۔ وہ بے چارے چلتے چلتے ایک ریگستان میں جا گھسے۔ انہوں نے کھجور کے ایک درخت کی ’’چھاؤں‘‘میں قیام کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اسی کو اپنی مستقل جائے استقرار بنا لیا۔ ان دو بھائیوں نے اونٹ شونٹ بھی پال لئے۔اب وہ اونٹنی کا دودھ پیتے، کھجور کھاتے اور عیش کرتے۔دن یونہی گزرتے جا رہے تھے۔

ایک روز کسی ملک کے راجاکا قافلہ وہاں سے گزرا۔ اس نے ان دونوں بھائیوں کو دیکھا تو حیران، پریشان، ششدر، بھونچکا اور حواس باختہ ہو گیا۔ اس حیرت و استعجاب کے شدید حملے سے راجا کی حالت غیر ہوگئی ۔دونوں بھائیوں نے اس کی تیمار داری کی۔ کچھ وقت گزرا تو راجاکی حالت کچھ سنبھلی مگراس کے ذہن پر اس حیرت و استعجاب کے حملے کا اثر ہو گیا ، وہ اپنے میزبانوں اور قافلے والوں سے یہی پوچھتا رہتاکہ یہ لق و دق صحرا،ہر طرف ریت ہی ریت ، کہیں کوئی محل نہ کھائی ،بس آپ ’’دوبھائی؟‘‘ رات کو خوف و دہشت کا ڈیرا، ہر سمت اندھیرا ہی اندھیرا، آس پاس نہ کوئی ہستی اپنی اور نہ پرائی،بس آپ ’’دوبھائی؟‘‘ کھانے کے لئے آپ کے پاس صرف کھجور، پینے کے لئے اونٹنی کا دودھ، کہیں کوئی مکھن نہ ملائی،بس آپ ’’دوبھائی؟‘‘یہ دو نفوس پر مبنی کیسی رعایا ہے ، جس کا کوئی حاکم نہیں، آقا نہیں، جہاں کوئی قانون نہیں ،ضابطہ نہیں،جہاں کوئی جھگڑا نہ لڑائی، بس آپ ’’دوبھائی؟‘‘یہ کیسی زندگی ہے کہ جس میں کسی سے کوئی ربط ضبط نہیں، انہیں روپے پیسے کی کوئی طلب نہیں، نام و نمود کا کوئی خبط نہیں، سادگی ایسی کہ مسکن میں نہ تخت ہے نہ چار پائی ، بس آپ ’’دوبھائی؟‘‘اس صحرا سے باہر آپ کا کوئی ناتہ نہیں، آپ سے ملنے یہاں کوئی آتا نہیں،آپ کے پاس نہ انٹر نیٹ ہے نہ وائی فائی، بس آپ ’’دوبھائی؟‘‘کیسی بات ہے کہ آپ کی اس صحرائی دنیا میں نہ کوئی دھوبی ہے نہ نائی، کوئی گوالا ہے نہ قصائی، کوئی طبیب ہے نہ دائی، کوئی پیسہ ہے نہ پائی، کوئی چچی ہے نہ تائی، بس آپ ’’دوبھائی؟‘‘ راجانے دوبھائیوں کے مسکن پر 21پہر قیام کیا اور پھر اپنی سلطنت کی جانب روانہ ہوگیا۔وہ صحرا سے تو چلا گیا مگر اس کی سوچوں میں ’’تبدیلی‘‘ آ چکی تھی۔ وہ دربار میں روزانہ ’’دوبھائی‘‘ کانام ضرور لیتا۔

انجام یہ ہوا کہ’’ دو بھائی‘‘ اور ان کے ہاں راجا کے قیام کا تذکرہ زباں زدِ عام ہوگیاپھر کثرتِ استعمال کے باعث ’’دوبھائی‘‘ کا لفظ گھستا اور بگڑتا رہا۔ صدیاں گزرتی گئیں اور یہ لفظ گھس پٹ کرپہلے ’’دو بھئی‘‘ ہوا، وقت کے ساتھ مزید رگڑائی ہوئی تو یہ ’’دوبئی‘‘ ہو گیا اس کے بعد مزید تقصیر ہوئی تو یہ ’’دبئی‘‘ ہو کر رہ گیا۔ماہرینِ گفت و شنید کا کہنا ہے کہ زبانداروں نے ’’دوبھائی‘‘ جیسے لفظ کو بگاڑتے بگاڑتے ’’دبئی‘‘ بنا دیا ہے۔ اب اس میں مزید بگاڑکی کوئی عقلی گنجائش باقی نہیں رہی۔ ماہرینِ سخن کا کہنا ہے کہ کوئی بھی زبان صرف ایسے الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی جو کثرتِ استعمال سے بگڑ چکے ہوں بلکہ بعض الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کثرت استعمال ے سدھر جاتے ہیںچنانچہ یہ بات ذہن میں راسخ کر لینی چاہئے کہ زبان دانی ایک ایسا کارخانہ ہے جہاں لفظوں کابگڑنا اور سنورنا جاری رہتا ہے ۔

اس بگاڑ اور سدھار کے عمل سے گزرنے والے الفاظ کے ذخیرے کو ہی’’ زبان ‘‘کہا جاتا ہے۔جہاںتک کثرتِ استعمال سے سدھرنے والے الفاظ کا تعلق ہے تو یہاں اس کی مثال بھی پیش کی جا رہی ہے: کئی سو برس قبل کا واقعہ ہے،پنجاب کے ایک پہاڑی علاقے کی 102سالہ سہاگن اپنے ’’دولہا‘‘کے ناشتے میں پراٹھے تیار کرنے کے لئے ساڑھے 5سیر آٹا ، پوٹلی میں سمیٹے جا رہی تھی۔ وہاں سے ایک پڑھے لکھے 27سالہ انگریز کا گزر ہوا۔ اس نے اس ’’کہنہ سہاگن‘‘ سے اپنی مادری زبان میں دریافت کیا کہ ’’ہائے ینگ لیڈی! واٹ اِز دِس پلیس؟‘‘اس ’’مزمن دوشیزہ‘‘ نے سمجھا کہ یہ غیر ملکی مجھ سے پوچھ رہا ہے کہ اس ’’پوٹلی ‘‘ میں کیا ہے چنانچہ اس نے کہا کہ ’’پُتر، ایہہ آٹا‘‘۔ انگریز سمجھا کہ ’’پٹر،اِیا ، ٹا‘‘۔ ’’سخنیات کی تاریخ‘‘ میں مرقوم ہے کہ اس انگریز نے 111سال کی عمر پائی اور وہ مرتے دم تک مذکورہ علاقے کو ’’پٹریاٹا‘‘ہی کہتا رہا۔اس واقعے کو کئی صدیاں بیت چکی ہیں مگر دلدادگانِ مغرب آج بھی اسے ’’پٹریاٹا‘‘ کہہ کر ہی پکارتے ہیں۔ ماہرینِ ’’گفتیات‘‘ کے مطابق’’پٹریاٹا‘‘ کے لفظ میںمزید سدھار کی کوئی عقلی گنجائش موجود نہیں۔ یقین جانئے کہ یہ تحریرہمارے کسی دماغی خلل کی دلیل ہرگز نہیں بلکہ یہ ایک ایسی ’’سزا‘‘کا انجام ہے جس کادورانیہ 21گھنٹے اور ’’جرمانہ‘‘3200روپے تھا۔ہم نے لاہور جانے کے لئے ریل میں 21گھنٹے گزارنے کے لئے ’’لوئراے سی‘‘میں’’ استراحی نشست‘‘ محفوظ کرائی تھی تاکہ ٹانگیںشانگیں پسار سکیں۔

ہم چونکہ انتہائی سادہ بلکہ دقیانوسی طبع کے حامل ہیں اس لئے ہم سادہ اور سوتی لباس پہن کر اسٹیشن پہنچے اورریل میں اپنی نشست پر براجمان ہوگئے۔چند منٹ کے بعد ایک اورمسافر ہماری ساتھ والی نشست پر آبیٹھے ۔ ہم نے ذرا سرکنا چاہا تو خاصی مشکل ہوئی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم نشست پر بیٹھے نہیں بلکہ ’’چپک‘‘ گئے ہیں اس لئے سرکنے کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہمیں نشست سے اٹھ کر دوبارہ بیٹھنا پڑا۔ بہر حال رات ہو ئی ،ہم سونے کے لئے لیٹ گئے۔ پانچ منٹ گزرے تو ایسا لگا جیسے پہلو میں کھٹمل کاٹ رہے ہیں۔ ہم نے کروٹ لینے کی کوشش میں سرکنا چاہا تو قمیص اور پتلون چونکہ نشست سے چمٹی ہوئی تھیں اس لئے دائیں جیب بائیں جانب سرک گئی اور بیلٹ کا سامنے والا حصہ کوکھ کی جانب کھسک گیا۔ اسی حالت میں چند لمحے گزرے تو ’’کھٹملی چٹکیوں‘‘ کا احساس دوبارہ شدید ہونے لگا۔ ایسے میں ہم نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی مگراٹھنا محال تھا، اسی دوران ’’دھگڑم‘‘کی آواز آئی اور ہم فرش پر آگرے۔ اس آواز سے سامنے کی نشست پر بیٹھے 72سالہ مسافر نے استفسار کیاکہ ’’چاچا!کیابات ہے، سوتے ہو نہ بیٹھتے ہو۔ہم نے کہا کہ ’’بھیابھتیجے! مسئلہ یہ ہے کہ اس نشست کا کپڑا ہمیں ’’کاٹ رہا ہے‘‘۔ اس نے جواب دیا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں،آج سے 134برس قبل جب یہ کپڑا برصغیر میں استعمال ہونا شروع ہوا تو ہمارے ایک بزرگ جو اس وقت سوا 2سال کے تھے ، انہوں نے اس کپڑے کی پتلون پہن رکھی تھی اور ایک انگریز کے سامنے رو رو کر اپنی اماں سے شکایت کر رہے تھے کہ’’مما! مجھے یہ ’’کاٹ رہا ہے‘‘،اس انگریز سامع نے جب یہ جملہ سنا تو اس نے اس کپڑے کا نام ہی ’’کاٹ رہا ہے‘‘ رکھ دیاجو سدھرتے سدھرتے ’’کاٹرائے‘‘ ہو گیا تو یہ تو کاٹے گا ۔

آپ کو شکوہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ سفر کیلئے اس ’’لوئر اے سی‘‘ کا انتخاب آپ نے خود ہی کیا ہے اور پاکستانی زبان کی لغت میں ’’لوئر‘‘کے معنی ’’گھٹیا‘‘ کے ہیںچنانچہ گھٹیا اے سی میں بڑھیا سہولت تو ہونے سے رہی۔‘‘ویسے اس سفر میں ہم نے ’’ریل رلیاں‘‘بہت دیکھی ہیں چنانچہ آئندہ سہی۔

شیئر: