Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برے پھنسے

سیاسی اشرافیہ کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح پانامہ لیکس کے معاملے کو گرد و غبار تلے ہی رکھا جائے۔۔۔۔۔۔

 

محمد مبشر انوار

پاکستانی اعلیٰ عدلیہ ایک مرتبہ پھر تاریخ بنانے کے دوراہے پر ہے کہ پانامہ لیکس سے شروع ہونے والا کھیل منطقی انجام کے قریب ہے اور اس کا اعزاز ایک بار پھر عدلیہ کے ماتھے پرسجنے جا رہا ہے۔کیا واقعی عدلیہ اپنی نظریہ ضرورت کی تاریخ کو بدل سکے گی؟اس کا فیصلہ تو عدالت عظمیٰ کی کارروائی اور اس کا نتیجہ ہی بتا سکے گا لیکن آثار اور عدالت عظمیٰ کے ریمارکس کسی اور طرف ہی اشارہ کر رہے ہیں،جس کے ذمہ دار کلی طور پر سیاسی اشرافیہ کی نا اہلی کے سوا کچھ نہیں۔اعلیٰ عدلیہ نے پچھلے چند سالوں میں اپنا کھویا ہوا مقام اور حیثیت بحال کرنے کی کوشش ضرور کی ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس عمل میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حکومت وقت کے خلاف اپنی طاقت کا بھرپور اظہار کیا اور انہیں کسی بھی موقع پر چین کا سانس نہیں لینے دیا۔

طاقت کے اظہار کا یہ تو ایک رخ تھا ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ سابق چیف جسٹس نے بہت سی مشکوک ڈیلز پر سوموٹو ایکشن لے کر ریاستی اثاثہ جات کو اونے پونے فروخت کرنے سے حکومت کو باز بھی رکھا۔ سیاسی اشرافیہ کی پوری کوشش تھی کہ کسی طرح پانامہ لیکس کے معاملے کو گرد و غبار تلے ہی رکھا جائے اور کسی بھی طرح اس پر سنجیدگی سے پیشرفت نہ ہو۔ اعلیٰ عدلیہ سے تحقیقات کے مطالبے پر بھی ایسا خط لکھا گیا کہ عدلیہ یہ کہنے پر مجبور ہوئی کہ اس میں ٹی او آرز کو واضح کیا جائے کہ عدلیہ کن خطوط پر اور کس اختیار کے ساتھ اس ا سکینڈل کی تحقیقات کرے۔ سپریم کورٹ کے اس اعتراض نے گویا حکومت اور وزیر برائے اپوزیشن خورشید شاہ کے دل کی مراد پوری کر دی اور پورے زور شور سے دہائی مچنا شروع ہو گئی کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ کے فورم سے حل ہو نا چاہئے نہ کہ سپریم کورٹ اس کی تحقیقات کرے۔ دل کی یہ مراد پوری ہوتے ہی وزیر برائے اپوزیشن خورشیدشاہ مع مولانا فصل الرحمن، اسفندیار ولی، الطاف حسین اور اعتزاز احسن کے پی ٹی آئی کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے ٹی او آر کا کھیل کھیلتے رہے، پارلیمنٹ کی بالا دستی کا احساس دلاتے رہے مگر جس پارلیمنٹ کی بالا دستی کا راگ الاپا جاتا رہا، اس کے حکومتی بنچ نے عمران خان کے اعتراضات کو در خور اعتنا نہ سمجھا اور کمیٹیوں کے چکر میں دو ماہ گزار دئیے۔ جب اس سے بھی بات نہ بنی تو وزیر اعظم پاکستان بغرض علاج بیرون ملک چلے گئے اور قریباً دو ماہ تک علاج اور علالت میں رہنے کے بعد ملک واپس آئے ،ان کے واپس آنے پر بھی پانامہ لیکس کے ہوے نے ان کی جان نہیں چھوڑی اور عمران خان مسلسل اس کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے۔اس دوران یہ امر بطور خاص مشاہدے میں آیا کہ جیسے ہی عمران خان (اکلوتے اپوزیشن لیڈر)احتجاج کی کال دیتے ،ملک کے کسی حصے میں کوئی نہ کوئی دہشت گردانہ سانحہ ہوتا اور سب کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو جاتی جبکہ احتجاج خود بخود ٹھنڈا پڑ جاتا لیکن تاڑنے والی بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں، چند ایک واقعات کے بعداس قسم کے اتفاقات کو قومی سطح پر محسوس کیا جانے لگا تویہ کھیل سرحدوں پریا ہمسایہ ملک میں دہشت گردی سے جڑ گیا۔

غرض کسی صورت بھی پانامہ لیکس کا معاملہ آگے بڑھنے سے قاصر ہی رہا تاآنکہ پی ٹی آئی نے تمام تر خدشات کے باوجود 30ستمبر کا کامیاب جلسہ کر لیا اور 30اکتوبر کو فائنل دھرنے کی کال دی گئی۔ 30ستمبر کے جلسے میں عمران خان نے انتہائی سادہ زبان میں پانامہ لیکس پر حکومتی خاندان کے تضادات کو عوام تک منتقل کیا ،جس کے نتیجے میں حکومت جو پہلے پی ٹی آئی کو غیر سنجیدہ لے رہی تھی ، اسے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنا پڑی ۔ حکومت کے نزدیک یہ سارا کھیل ڈگڈگی بجانے والے کر رہے تھے اور حکومت روزروز کی جھنجھلاہٹ سے تنگ آ کر سیاسی شہادت کا ’’مقام‘‘ حاصل کرنے کے لئے سختی پر اتر آئی، ایک صوبے کے منتخب وزیر اعلیٰ کے خاطر خواہ استقبال کا ایسا انتظام کیا گیا کہ اسے پنجاب کی ’’سرحد‘‘ پر سرکاری اہلکاروں نے بزور روکا، اس کے حامیوں پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ کیا یہی وہ جمہوریت تھی جسے دھرنے سے خطرات لاحق ہیں،جس میں حکمران اشرافیہ جو من میں آئے کرتی رہے، جیسے چاہے ملک کو مقروض اور عوام کو محبوس کرتی رہے، وزیر برائے اپوزیشن ہر عوامی آواز کے خلاف ’’پارلیامنٹ‘‘ میں حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتے رہیں، معروف قانون دان بیرسٹر اعتزاز احسن چوہدری فقط پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی ہزیمت کے باوجود صرف حکومت کو انتباہ کریں کہ اگر آج وہ چاہیں تو اس پارلیمنٹ میں موجود تمام اپوزیشن کو لے کر ہاؤس سے باہر نکل جائیں اور اس پارلیمنٹ کو زمیں بوس کر دیں؟

حضور والا آپ عوامی نمائندوں کے ہاؤس میں کھڑے ہو کر عوامی امنگوں ،خواہشوں اور امیدوں کے سودے کر رہے ہیں کیا؟ کیا عوام نے آپ کو اس لئے اپنا حق نمائندگی دیا ہے؟ اعتزاز احسن !آپ نے اس قوم کو کچھ خواب سنائے تھے کہ دھرتی ہو گی ماں جیسی اور اس وقت آپ پارٹی پالیسی کے خلاف چلتے ہوئے سابق چیف جسٹس کے حق کے لئے کوشاں تھے اور آپ کو دئیے جانے والے شو کاز نوٹس کے جواب میں آپ کا شہرہ آفاق جملہ ساری قوم نے سنا تھا کہ مجھے پیپلز پارٹی سے نکالنے والے ،میرے اندر سے پیپلز پارٹی کو کیسے نکالیں گے؟ کیا پیپلز پارٹی کا حقیقی منشور یہی تھا جس کی وکالت آج کر رہے ہیں ؟کیا آپ نے سینیٹ میں پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے بل اس لئے جمع نہیں کروایا کہ کسی طرح اعلیٰ عدلیہ کو اس کی تحقیقات سے روکا جا سکے اور جو مشکل اس وقت اشرافیہ پر آن پڑی ہے ،اس سے بچ نکلنے کی راہ نکالی جائے؟ملک کے تمام ادارے اشرافیہ کا احتساب کرنے کے قابل نہیں رہے یا وہ موم کی ناک بن چکے ہیں ؟ یہی ادارے بہامہ لیکس پر فوری بروئے کار آتے ہیں اور عام پاکستانی شہری کی کھال ادھیڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن اشرافیہ اپنے احتساب سے مسلسل گریزاں کیوں ہے؟آصف زرداری نے اپنی تقریر میں ملٹری کورٹس کے قیام پر میاں صاحب کو انتباہ اسی سلسلے میں کیا تھا کہ ’’ہم سب جیل میں ہوں گے‘‘،کیا یہ اعتراف جرم نہیں تھا؟کہ ایک طرف تو پوری پیپلز پارٹی دلائل دیتی ہے کہ آصف زردای پر سیاسی مقدمات بنائے گئے جو عدالتوں میں ثابت بھی نہیں ہو سکے مگر پھر بھی سیاسی عناد کی بنیاد پر انہیں لمبے عرصے تک جیل میں رکھا گیا، اس کے باوجود زرداری صاحب کو یہ خوف کیوں؟ لگتا ہے7 ماہ سے جاری پانامہ کا تماشہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے

عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے فریقین کو بھر پور موقع دیاکہ کرپشن کے اس گند کو اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے صاف کر لیں مگر افسوس کہ فریقین نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ’’ڈنگ ٹپانے‘‘ کی پالیسی پر گامزن رہے۔آج بھی اس مقدمے کی قانونی حیثیت پر نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہے کہ عدلیہ کی طرف سے سوال ایک ہی ہے کہ آف شور کمپینیز کے لئے رقم کہاں سے آئی؟1992 کے اکانومی ریفارمز ایکٹ کے تحت بھی اگر رقم قانونی طریقے سے باہر بھیجی گئی(جو کلیتاً اختیارات کا ناجائز استعمال تھا کہ قوانین فقط اشرافیہ کے لئے نہیں بنتے) تو بھی ذریعہ آمدن کیا تھا؟یہ کیسے ممکن ہے کہ باقاعدہ کوئی ذریعہ آمدن نہ ہونے کے باوجود اربوں ڈالر صرف ایک قانون کے تحت ملکی معیشت کو شدید دھچکا لگاتے ہوئے ملک سے باہر منتقل کر دئیے جائیں اور اس کی تفتیش کو انا کا مسئلہ بنا لیا جائے، بیماری کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کی جائے، امن و امان کی صورتحال کو دگرگوں کیا جائے یا وفاقی اکائیوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا جائے؟جناب وزیر اعظم !عدلیہ اور عوام نے سب کچھ برداشت کیا ہے، آپ کی بیماری، امن و اما ن کی صورتحال بھی لیکن لگتا یوں ہے کہ آپ سمیت اشرافیہ اس مرتبہ برے پھنسے ہیں، رسیدیں پیش کئے بغیر گلو خلاصی ممکن نظر نہیں آتی۔

شیئر: