Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپ کون ہیں اور ہم کون ہیں ؟

 
وسعت اللہ خان
 
 
عرب ہو کہ صحرائے اعظم کا بربر ، نائیجریا کا بلالی مسلمان ہو کہ جنوبی سوڈانی عیسائی زادہ۔خود کو جوکھم میں ڈال لے گا مگر اپنی زمینی شناخت کسی قیمت فروخت نہیں کرے گا۔
رہا جنوبی ایشیا تو یہاں کے بنگالی بھلے مسلمان ہوں کہ غیر مسلم وہ اپنی جڑیں بنگال میں ہی دیکھتے ہیں۔انہیں زمین زادہ ہونے پر اتنا ہی فخر ہے جتنا ہندو یا مسلمان یا بودھ ہونے پر۔
یہی حال ملائیشیا اور انڈونیشائیوں کا بھی ہے۔عقیدہ بھلے کچھ بھی ہو مگر جانتے ہیں کہ ان کا جینا مرنا اپنی ہی بھومی سے وابستہ ہے۔ ان کے پرکھے ہزاروں برس پہلے کہیں سے آئے بھی ہوں گے تو ان کی بلا سے۔
مگر ( علاوہ بنگال ) جنوبی ایشیا کے مسلمان کون ہیں ؟ اگر تو یہ اسی دھرتی کے ہیں تو پھر باہر کیوں دیکھتے ہیں اور اگر یہ باہر کے ہیں تو پھر جہاں جہاں کے بھی ہیں وہاں وہاں کے انہیں اپنا کیوں تسلیم نہیں کرتے۔یہ کب تک شناخت کے صحرا میں بھٹکتے رہیں گے اور ان کی روحوں کو کب قرار آئے گا اور دماغ و دل کب سمجھیں گے کہ تمہارا اصل کس مٹی میں ہے ؟ 
  آپ خود ہی سوچئے کہ محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک کتنے عرب ، ترک ، پٹھان ، ایرانی ، کرد ، کاکیشیائی فوجی ، امرا ، درویش یا ہنرمند آ کر برصغیر میں بسے ہوں گے ؟ 10 لاکھ ،30 لاکھ ، حد ایک کروڑ۔آج ہند اور پاکستان میں مسلمانوں کی مجموعی تعداد38 سے40 کروڑ کے درمیان بتائی جاتی ہے ( یہ آبادی پورے مشرقِ وسطی اور شمالی افریقہ سے زیادہ ہے )۔
درحقیقت ان40کروڑ میں سے 90فیصد کے آبا و اجداد صوفیا ءکے طفیل مسلمان ہوئے لیکن ان میں سے اگر جاٹ راجپوت اور بنگالی مسلمان نکال دئیے جائیں تو باقی سب اپنے ڈانڈے آج بھی برصغیر سے باہر تلاش کرتے ہیں۔
مثلاً سب سے زیادہ سید جنوبی ایشیا میں ہیں اور سب کے شجرے ایران ، بخارا اور حجاز سے شروع ہو کر وہیں ختم ہوتے ہیں۔یقینا منگولوں کے حملوں کے بعد سے بالخصوص بخارا و سمرقند ، ایران اور عربستان سے لوگوں نے برصغیر کی جانب ہجرت کی مگر کیا یہ تمام کے تمام علماء ، صوفیاء اور اشرافیہ ہی تھے ؟ کوئی ایک آدھ ترکھان ، جولاہا ، لوہار ، مزدور اور کاشتکار بھی تو ان علاقوں سے آیا ہوگا ؟ وہ کہاں ہے ؟ 
کہا جاتا ہے ہندوستان پر مسلمانوں نے ایک ہزار برس حکومت کی۔خاندان غلاماں سے مغلوں تک سب یہیں آ کر بسے ، مقامی رسوم و رواجات سے بھی متاثر ہوئے اور اپنی روایات سے مقامی لوگوں کو بھی متاثر کیا۔ دفن بھی یہیں ہوئے لیکن خود کو مرتے دم تک ہندوستانی کے بجائے ترک ، مغل اور افغان بچہ ہی کہتے رہے اور کہتے ہیں۔یہ بھی قابل غور ہے کہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد سے بیشتر مغل آخر پنجاب میں ہی کیوں پائے جاتے ہیں ؟ اور ساری مغلیت مغلئی کھانوں پر ہی کیوں ختم ہوجاتی ہے۔
اسی طرح بہت سے پشتونوں کا خیال ہے کہ وہ مقامی یا آریائی النسل نہیں بلکہ بنی اسرائیل کا بارہواں گمشدہ قبیلہ ہیں۔ تو پھر باقی گیارہ قبیلوں کے وارث انہیں اپنا گمشدہ بھائی تسلیم کیوں نہیں کرتے ؟ آپ کہیں گے چونکہ بنی اسرائیل کا یہ گمشدہ قبیلہ مسلمان ہوگیا اس لئے یہودی کیوں انہیں تسلیم کرنے لگے ؟ آپ بھلے اسرائیل سے نفرت کرتے رہیں لیکن اپنا ڈی این اے ٹیسٹ کروا کے یہ اطمینان تو کر لیں کہ آپ اصل میں ہیں کون ؟ 
سندھی اتنے قوم پرست ہےں کہ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں لیکن جہاں جڑوں کی بحث چھڑتی ہے تو کلہوڑے اور داود پوترے فوراً سلطنت عباسیہ سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں۔
تالپور ، چانڈیہ ، جتوئی ، زرداری وغیرہ بلوچ ہیں اور بلوچ خود کو کردوں کا ایک قبیلہ سمجھتے ہیں۔صرف براہوی ایسے ہیں جو خود کو یہیں کا کہتے ہیں۔سومرہ جانے کب سے سندھی ہیں مگر گفتگو میں وہ آپ کو عربستان سے اپنی آمد کا بتانا نہیں بھولیں گے۔سید ایسوسی ایشن بھی آپ کو سندھ میں ہی ملے گی۔
سندھ کے سماٹ قبائل خود کو یہیں کا بتاتے ہیں لیکن کسی کو بھی یہ کہنا سننا اچھا نہیں لگتا کہ ان کے پرکھے راجہ داہر کی بھی رعایا یا ہم مذہب رہے ہوں گے۔میں بہت سے سندھی دوستوں کو جانتا ہوں جو خود کو فخریہ سماٹ بھی کہتے ہیں اور اگلی سانس میں یہ بھی جتاتے ہیں کہ وہ محمد بن قاسم کے ہمراہ یا فوراً بعد سے یہاں آباد ہیں۔آخر میں صرف کوہلی ، بھیل میگھواڑ اور ٹھاکر ہی بچتے ہیں جو سندھ میں نہ کہیں سے آئے نہ کہیں گئے۔
ایک جانب تو بر صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ ان کی رگوں میں آج بھی وسطی ایشیا سے لے کے حجاز اور یمن تک کا خون دوڑ رہا ہے اور اسی سبب ان مقامات سے ان کی عقیدت بھی باقی دنیا کے مسلمانوں کے مقابلے میں دو چند ہے۔ 
لیکن جب انہی مسلمانوں کا آج کے کسی ایرانی ، ترک یا عرب سے سامنا ہوتا ہے تو وہ انہیں سوائے ہندوستانی اور پاکستانی کے کچھ نہیں سمجھتا اور اپنے ہی ملک میں3، 3نسلوں سے آباد بہت سے برصغیریوں کو شہریت دینا تو کجا انہیں رفیق اور مسکین سے اوپر اخی تک کہنے پر آمادہ نہیں۔ اس کے باوجود برصغیر کا مسلمان اپنی اصل شناخت کو کھوجنے اور اس پر فخر کی عادت ڈالنے کے بجائے اپنے بدیسی شجرے سنبھال سنبھال کے خود ہی خوش ہوتا رہتا ہے۔
جب تک اندر کے بجائے باہر کی طرف دیکھنے کی عادت رہے گی تب تک نہ اپنی نگاہوں میں اپنی توقیر ہوسکتی ہے اور نہ دوسروں کی نظروں میں۔پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے۔
مگر یہ محاورہ سچ ہو نا تب ہی ممکن ہے کہ خود کو غیر برصغیری ایتھنک سنڈروم سے آزاد کرنے کی اجتماعی کوشش کی جائے اور ان مسلمان قوموں سے سبق لیا جائے جو اپنی اپنی شناخت پر فخر کرتی ہیں مگر ان کا اسلام بھی خطرے میں نہیں پڑتا۔ آپ یہاں کے ہیں اور یہیں کے ہی رہیں گے۔بھلے آپ مانیں یا نہ مانیں۔ دوسرے آپ کو یہی مانتے ہیں۔ 
******

شیئر: