Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی کرکٹ ٹیم کو مزید جدوجہد کی ضرورت

 
 نیوزی لینڈ میں انہیں سنبھل کر اور احساس ذمہ داری سے کھیلنا ہوگا، ممکن ہے یہ یونس اور مصباح کا آخری دورہ اور سیریز ہو
 
 
جمیل سراج ۔ کراچی
 
 
 
پاکستان کرکٹ ٹیم کو متحدہ عرب امارات کی حالیہ سیریز میں ویسٹ انڈیز کے خلاف تینوں طرز کی سیریز میں کسی حریف ٹیم کو کلین سویپ شکست دینے کا نادر موقع ملا تھا لیکن شارجہ میں کھیلا گیا تیسرا ٹیسٹ میچ ہارنے کی وجہ سے مصباح الحق اور کمپنی کا ایک منفرد کارنامہ انجام دینے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا جس کیلئے ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ لاکھوں شائقین کرکٹ کو بھی اس کا افسوس او ر قلق رہے گا۔سیریزکے اختتام پر ماہرین و ناقدین نے قومی ٹیسٹ ٹیم کی مجموعی کارکردگی کو بہتر قرار دیتے ہوئے کپتان مصباح الحق کو اس لحاظ سے خوش قسمت قراردیا کہ ان کی ٹیم میں جو کرکٹرز شامل تھے ان میں سوائے یونس خان کے سب کے سب نوجوان اور نا تجربہ کار تھے جنہوں نے اپنی عمدہ کارکردگی اورکھیل سے ویسٹ انڈیز کو پہلے ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کلین سویپ کیا اس کے بعد ایک روزہ سیریز میں بھی کالی آندھی کو چاروں شانے چت کیا پھر ٹیسٹ سیریز کے پہلے دو میچوں میں واضح فرق سے کامیابی حاصل کرکے اپنی برتری ثابت کردی تھی تاہم تیسرے ٹیسٹ میںبلے بازوں کی ناکامی کی وجہ سے پاکستان کی ٹیم کرکٹ کی تاریخ کا وہ منفرد کارنامہ انجام نہ دے سکی جو دو ہزار نو میں آسٹریلیا کی ٹیم نے پاکستان کے خلاف تینوں طرز کی سیریز میں سب کے سب میچوں میں کامیابی حاصل کرکے رقم کی تھی ۔
سیریز کے اختتام پر ناقدین و کرکٹ ماہرین کے علاوہ کرکٹ کے شائقین کی بہت بڑی تعداد نے قومی کپتان مصباح الحق اور ان کی ٹیم کے کھلاڑیوں کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ، سابق ٹیسٹ کرکٹرز معین خان، سلیم جعفر، راشد خان، عامر سہیل، سابق چیف سلیکٹرز صلاح الدین صلو، عبدالقادر، محمد الیاس، محسن حسن خان اور سابق انٹرنیشنل کرکٹر غلام علی نے اپنے تبصرے میں کہا کہ متحدہ عرب امارات کی سیریز میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف یقینا شاندار فتوحات سے کھیل کے تمام شعبوں میں اپنی برتری ثابت کی سیریز کے نو میں سے آٹھ میچوں میں کامیابی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کرکٹ کے تینوں طرز کے کھیل میں حریف ٹیم کو یکسر بے بسی کی تصویر بنائے رکھا جس کیلئے مصباح الحق، اظہر علی اور سرفراز احمد بحیثیت بالترتیب ٹیسٹ، ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کپتان مبارکباد کے مستحق ہیں، اس کامیابی کے حصول میں انہوں نے اپنی اپنی ٹیم کوکس قدر جانفشانی سے لے کر چلے ہوں گے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں انہیں مختصر فارمیٹ کی سیریز میں تین،صفر سے کامیابی ملی جبکہ ٹیسٹ سیریز میں وہ دو، ایک سے سرخرو ہوئے۔
ان مبصرین میں صلاح الدین احمد صلو نے قومی ٹیم کی سیریز میں کامیابی کو بہت سراہا لیکن انہوں نے پاکستان ٹیم کی متحدہ امارات کے مقامات پر کھیلے گئے میچوں پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا،ان کے کہنے کا مقصد ان کرکٹ سینٹرز کی وکٹوں کے معیار سے ہے جہاں پر پاکستان کے بلے بازوں کو آسان وکٹیں ملتی ہیں جہاں رنز کرنا دیگر ملکوں کی وکٹوں کی نسبت آسان ہوتا ہے ، اب جب کہ پاکستان ٹیم دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنے نیوزی لینڈ روانہ ہو چکی ہے جہاں کہ نہ صرف وکٹیں مختلف ہوں گی بلکہ کرکٹ کھیلنے کا پورا ماحول یکسر مختلف اور جدا ہوں گے جہاں صرف وہی کرکٹرز رنز اسکور کرنے میں کامیاب اور بولرز وکٹوںکے حصول میں سرخرو ہوسکتے ہیں جن کو ان وکٹوں پر کھیلنے کا تجربہ ہے ، اس مرحلے پر یہی کہا جائے گا کہ دورہ نیوزی لینڈمیں چونکہ صرف دو ٹیسٹ میچز کھیلے جائیں گے اس لئے پاکستان کے پاس ان کنڈیشنز اور ان وکٹوں پر کھیلنے والے واحد بلے باز یونس خان ہی ہوں گے ، جبکہ مصباح الحق ، اظہر علی اور زیادہ سے زیادہ اسد شفیق ان کا کسی حد تک ساتھ دے سکتے ہیں ورنہ دیگر نوجوان اور ابھرتے ہوئے قومی کرکٹرز سے آپ زیادہ اچھی کارکردگی کی توقع نہ رکھیں۔
سابق چیف سلیکٹرز، عبدالقادر، محمد الیاس نے بھی صلو کے خیالات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یو اے ای کی وکٹوں اور کرکٹ کنڈیشنز میں پاکستان نے اس وقت کی کمزور ترین ویسٹ انڈین ٹیم کے چاروں شانے چت توکردئے اور تینوں طرز کی سیریز اپنے نام کرلی لیکن کرکٹرز اور بالخصوص ٹیسٹ ٹیم کا ایک کڑا امتحان تو کیوی دیس میں ہونے جا رہا ہے جہاں ہمارے بیٹسمین کو بالکل مختلف اور مشکل صورتحال کا سامنا کرنا ہوگا،قومی ٹیسٹ ٹیم کا یہ نا قابل تردید حقیقت ہے کہ اس ٹیم میں سوائے یونس خان اور کپتان مصباح الحق کے کسی اور کھلاڑی پر آپ اعتماد اور بھروسہ نہیں کرسکتے کہ وہ پاکستان کو اپنی انفرادی کارکردگی سے میچ جتوادے گا ، قومی ٹیسٹ اسکواڈمیں اظہر علی ان دو کے علاوہ وہ کھلاڑی ضرور ہے جو کوشش کرے تو زیادہ بہتر کارکردگی دے سکتا ہے اس کے علاوہ اسد شفیق وہ بیٹسمین ہے جس کی تکنیک دیگر نوجوان کرکٹرز کے مقابلے میں بہت بہتر اور کسی حد تک قابل اعتماد ہے ، نیوزی لینڈ میں انہیں بھی دیکھ بھال کر ، سنبھل کر اور احساس ذمہ داری کے ساتھ دو ٹیسٹ میچوں میں کھیلنا ہوگا، اپنی حیثیت کو درست ثابت کرنے کا ان کے پاس یہ بہت اچھا موقع ہوگا کہ وہ یونس خان اور مصباح الحق کا بہترین متبادل ثابت کریں اس لئے کہ یہ دونوں سینئر قومی کرکٹرز اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب ترین ہیں۔
عین ممکن ہے یہ دونوں کرکٹرز کا یہ آخری غیر ملکی دورہ اور سیریز ہوں، ایک اور سابق چیف سلیکٹرپی سی بی محسن حسن خان بھی یونس خان اور مصباح الحق کے بعد قومی ٹیم کے مستقبل کے حوالے سے زیادہ مطمئن نہیں ہیں اپنے تبصرے میں وہ یوں گویا ہوئے کہ مجھے تو ان دونوں سینئر کرکٹرز کے بعد بس اسد شفیق اور اظہر علی ہی ایسے کرکٹرز نظرآرہے ہیں جو ان کے متبادل ثابت ہوسکتے ہیں ورنہ ہماری جو نئی بیٹنگ لاٹ آرہی ہے ان میں سمیع اسلم اور بابر اعظم کے گروم ہونے میں اب بھی کافی وقت درکار ہے ۔سابق ٹیسٹ اوپنر کا یہی کہنا تھا کہ یو اے ای کی وکٹوں پر کامیابی پر ” سب اچھا ہے اور سب ٹھیک ہے“ والی گردان سب گا اور سنا رہے ہیں لیکن ہمیں اس حقیقت کو ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ ہماری ٹیم یو اے ای سے باہر یعنی نیوزی لینڈاور آسٹریلیا کے کرکٹ کنڈیشنز اور وکٹوں پر یقینی طور پر مشکلات سے دوچار رہتی رہی ہے اور رہے گی جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے قومی کرکٹرز کی گرومنگ جس نہج اور حالات میں ہوتی ہے اس کے مطابق ہمیں گزشتہ پندرہ بیس برسوں سے اسی معیار کے کرکٹرز دستیاب ہورہے ہیں جس کے باعث ہماری ٹیم ایشیا اور متحدہ عرب امارات میں ہی اچھی کارکردگی د کھا تی ہے۔ 
یہ بات اس طرح بھی کہی جا سکتی ہے کہ وہ دن گئے جب پاکستان کے حنیف محمد ، ظہیر عباس، جاوید میانداد، صادق محمد ،ماجد خان، محسن خان، سعید انور، عامر سہیل، سلیم ملک ،محمد یوسف ، انضمام الحق اور یونس خان جیسے بیٹسمین ملک اور ملک سے باہر کسی بھی ٹیم کے خلاف طویل ٹیسٹ اننگز کھیلنے میں مہارت رکھتے تھے، یہ دراصل ہمارے وہ کرکٹرز تھے اور ہیں جنہوں نے اپنی کارکردگی سے پاکستان کا نام روشن کرنے میں کلیدی کردار ادا کئے لیکن آج پاکستان کرکٹ بورڈکی ناقص منصوبہ بندی اور اور غلط حکمت عملی کی وجہ کے نتیجے میں جو قومی کرکٹرز سامنے آرہے ہیں ان میں ویسی خصوصیات نہ ہونے کے برابر ہیں جوپہلے کے قومی کھلاڑیوں میں بدرجہ اتم موجود تھیں،اس لئے پاکستان ٹیم کو اس ضمن میں بہت محنت اور مسلسل جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر ہم قومی کرکٹ ٹیم کے مجموعی معیار کو بہتر اور ٹیسٹ کی عالمی رینکنگ میں اپنی حیثیت کو برقرار نہیں رکھ سکیں گے ۔ 
******
 

شیئر: