Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند،انگلستان سیریز کے نتائج کا تنا سب کیا رہے گا

 
19سالہ آف اسپنرمہدی حسن معراج کی قیادت میں بنگلہ دیش کا اسپن اٹیک انگلستان کے بلے بازوں کا جلوس نکال سکتا ہے
 
 
اجمل حسین۔ نئی دہلی
 
 
اگرچہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ5ٹیسٹ میچوں کی ہند،انگلستان سیریز کے نتائج کا تنا سب کیا رہے گا لیکن یہ ضرور طے ہے کہ سیریز ہندوستان ہی جیتے گااور کم از کم یہ دعویٰ قبل از وقت نہیں ہے کیونکہ بنگلہ دیش کے خلاف انگلستان کا پہلے ٹیسٹ میچ میں شکست کے دہانے سے واپس آنا اور دوسرے ٹیسٹ میچ میں شکست کھا کر بنگلہ دیش کو اپنی کرکٹ تاریخ میں ایک زریں باب کا اضافہ کرنے کا موقع دینا چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے کہ ہند وستان کے خلاف سیریز میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ حالیہ بنگلہ دیش سیریزمیں ٹیسٹ ڈیبو کرنے والے19سالہ آف اسپنرمہدی حسن معراج کی قیادت میں بنگلہ دیش کا اسپن اٹیک انگلستان کے بلے بازوں کا جلوس نکال کر دو ٹیسٹ میچوں40میں سے38وکٹ گرا سکتا ہے تو ہندوستان میں اس کا جو حشر ہونا ہے وہ تو قبل از وقت ہی نوشتہ دیوار نظرآرہا ہے کیونکہ اس وقت ہندوستان کا جو اسپن اٹیک ہے وہ اسلحہ کے لحاظ سے مکمل ہے ۔بنگلہ دیش نے آف اسپن اور لیفٹ آرم اسپن بولنگ کی مدد سے ہی جب تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا ہے تو ہندوستان کے پاس تو ان دو قسم کے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ لیگ اسپن جیسا خطرناک ہتھیار ہے ۔اور یہ تین قسم کے اسپنرز انگلستان جیسی ٹیم کے بلے بازوں کا جنہیں اسپنروں کے لیے خاص طور پر بنائی گئی پچوں پر اسپن بولنگ کھیلنے کا نہ سلیقہ ہے نہ شعور تو تصور کیا جاسکتا ہے کہ آف اسپنر روی چندر ایشون، لیفٹ آرم اسپنر رویندر جڈیجہ اور لیگ اسپنر امیت مشرا کے خلاف انگریز بلے باز کیسا پانی بھرتے نظر آئیں گے۔ 
ٹیم انڈیا بھلے ہی ٹاس جیتے یا نہ جیتے لیکن اگرپانچوں ٹیسٹ میچوں میں اسے پہلے بیٹنگ کرنے کا موقع ملا تو شاید پانچوں ٹیسٹ میں اسے دوسری اننگز کھیلنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔مگر حیرت اس بات پر ہے کہ تین تسلیم شدہ اسپنرز اور افتتاحی بلے باز مرلی وجے کی شکل میں جز وقتی آف اسپنراور محمد شامی، ایشانت شرما اور امیش یادو جیسے تجربہ کار فاسٹ بولروں کی دستیابی کے باوجود ٹیم میں ہاردک پانڈیا کو آل راونڈر کے طور پر شامل کیوں کیا گیا۔ جبکہ ابھی تک انہوں نے گھریلو کرکٹ میں ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جو انہیں ٹیسٹ معیار کا آل راونڈر تسلیم کرا کے قومی ٹیم میں شمولیت کا مستحق قرار دیتا ہو۔ انہوں نے اب تک 16فرسٹ کلاس میچز کھیلے ہیں ۔لیکن نہ تو انہوں نے خود کو ابھی تک بلے باز تسلیم کرایا ہے اور نہ ہی بولنگ میں ایسی کوئی قابل ذکر پرفارمنس دی ہو کہ انہیں اچھا میڈیم پیسر کہا جاسکے۔ جہاں تک بلے بازی کا تعلق ہے تو ان کا اوسط28ہے اور بولنگ اوسط 34ہے ۔ٹیسٹ ٹیم میں شمولیت سے قبل انہوں نے جو تین فرسٹ کلاس میچز کھیلے ان میں انہوں نے صرف5وکٹ لیے اور بہترین اسکور79رنز رہا۔ کیا ٹیسٹ ٹیم میںجگہ پانے کے لیے یہ پرفارمنس کافی ہے؟ 
اگر نئے چیف سلیکٹر ایم ایس کے پرساد کی سربراہی میں سلیکشن کمیٹی سنجیدگی سے کوئی آل راونڈر تلاش کر رہی ہے تو اس وقت انہیں جموں و کشمیر کے پرویز رسول سے بہتر کوئی آل راونڈر نہیں مل سکتا اوررویندر جڈیجہ، روہت شرما، شیکھر دھون، مرلی وجے، بھونیشورکمار، امیش یادو اور امیت مشرا یہاں تک کہ سرد خانہ سے گوتم گمبھیر کو نکال کر جس طرح مواقع دیے گئے پرویزرسول کو بھی ملیں تو وہ دن دور نہیں جب سلیکٹروں کو وہ آل راونڈر دستیاب ہو جائے گا جس کی تلاش ہر سلیکشن کمیٹی کوکپل دیو اور منوج پربھاکر کے ریٹائر ہوجانے کے بعد سے ہے۔ لیکن پرویز رسول کو سفارش جیسی قابل ترجیح ڈگری حاصل نہیں ہے ۔انہیں صرف ایک ون ڈے میچ میں موقع دے کر قومی ٹیم میں جگہ پانے والا پہلا اور واحد کشمیر کھلاڑی کا اعزاز بخش دیا گیا اور اب وہ اسی اعزاز کا ٹیگ لگائے آئی پی ایل اور گھریلو کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ چونکہ جموں و کشمیر کی ٹیم رنجی ٹیموں کی کمزور ترین ٹیموں میں شمار ہوتی ہے اور لیگ مرحلہ میں ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہو جاتی ہے اس لیے قومی سطح پر پرویز رسول خود کو بہت زیادہ متعارف بھی نہیں کر اسکے۔آئی پی ایل کے میچز 20اووروں کے ہوتے ہیں جس میں صرف4اوور ہی بولنگ کرنے کا موقع ملتا ہے اور بیٹنگ کی نوبت پانچ نمبر کے بلے بازوں سے شاذ ونادرہی آگے بڑھتی ہے اس لیے آئی پی ایل میں بھی وہ اپنے ٹیلنٹ کا مظاہرہ کر کے قومی ٹیم میں شمولیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔جبکہ جموں وکشمیرکرکٹ سلیکشن کمیٹی ان کی صلاحیتوں کی اتنی معترف ہے کہ اس نے انہیں صوبائی ٹیم کا کپتان بنا رکھا ہے لیکن سلیکٹرز آل راونڈروں کی تلاش کے وقت بھی تعصب کی عینک لگائے رکھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں انہیں صرف تین اسٹورٹ بنی، رشی دھون اور ہاردیک پانڈیا ہی آل راونڈر دکھائی دے رہے ہیں۔ پرویز رسول تو ان کے ذہن میں دور دور تک نہیں رہا ہوگا۔
سلیکٹروں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ کم و بیش ایک سال تک ٹیم انڈیا اپنی تمام کرکٹ سیریز گھریلو میدان پر ہی کھیلے گا ایسے میں اپنی پچون پر جو عرف عام میں مردہ کہلاتی ہیں یا پھر اسپن رخی ان پر ہاردیک پانڈیا، اسٹورٹ بنی یا رشی دھون جیسے فاسٹ بولنگ آل راونڈرز اپنا لوہا منوا سکیں گے؟ جبکہ ایسی پچوں پر پرویز رسول جیسے اسپن بولنگ آل راونڈر کو ہی موقع دیا جاناچاہیے تھا۔ تاکہ اس سے وہ بھی ٹیم میں اسی طرح جگہ بنا سکیں جیسے رویندر جڈیجہ نے بنائی۔ جو آل راونڈر کہلائے جاتے ہیں لیکن بیرون ملک نہ بولر کا کردار ادا کرپاتے ہیں اور نہ ہی میچ وننگ بولنگ کر پاتے ہیں۔ یوں کہنے کو انہوںنے 20ٹیسٹ میچوں میں85وکٹ لئے ہیں لیکن ا ن میں سے 64وکٹیں گھریلو پچوں پر ہی لی ہیں۔اور24کی اوسط سے صرف624رنز بنائے ہیں۔20ٹیسٹ میچوں میں وہ صرف دو بار ففٹی پلس اسکور کر سکے ہیں۔جبکہ گھریلو پچوں پر ٹرپل سنچری تک بنا چکے ہیں لیکن وہ پچ راجکوٹ کی تھی جہاں دنیا کا
بہترین بولر بھی فیل ہو جاتا ہے۔
******
 

شیئر: