Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ معززتھے زمانے میں مسلماں ہو کر

امت کا امتیازی کام ”امربالمعروف اور نہی عن المنکر“ہے، اگرامت اس فریضہ سے غافل ہوگی تو رسوم وبدعات میں ملوث ہوگی

محب اللہ قاسمی۔ نئی دہلی

کروٹ لیتاہوا زمانہ ،جس کی مصائب و آلام میں گرفتار،ہرظلم وستم سہنے پر مجبور، ذلت ونکبت کے دلدل میں پھنسی ہوئی اور اپنے حقوق سے محروم، اس دھرتی پر وہ کون سی قوم ہے جن کے بیٹے آج ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے،جانوروں کی طرح پنجروں میں اور ناکردہ جرم کی پاداش میں جیلوں کی تاریک کوٹھریوں میں بندہیں ،ان کی مائیں ماتم کناں اور بہنیں نوحہ خواں ہیں ، جن پر دشمن حملہ آورہے ،ان کے شعائرکا مذاق سرِراہ اڑایا جارہا ہے، انھیں اپنے پیغمبر کے تعلق سے اہانت آمیز باتوں کا سامناہے،جن کی پیروی کو قدامت پسندی کا طعنہ دیاجارہے؟ اور اپنے شعائروکلچرکواپنانے والے افرادکو ”دہشتگرد“کی گالی دی جارہی ہے۔ تویقینا آپ کا جواب ہوگا کہ یہ ” مسلم “قوم ہے۔

صدیوں تک دنیا کی حکومت اس کے قبضے میں رہی ۔کوئی قوم ترچھی نگاہ ڈالنے کی تاب نہ رکھتی تھی، اس کے فرزنداسلامی جھنڈالے کرجدھر رخ کرتے بڑھتے ہی چلے جاتے تھے۔ وہ ہواؤں کا رخ موڑدیتے ،ہرمیدان ان کے ہاتھ ہوتا۔ انکی ایک صداپر جنگل کوجانوروں نے خالی کردیا، ان کے قدموں میں سپرطاقت(قیصروکسریٰ )آگئی جن کے سپوتوں کے عزم وحوصلے، جواں مردی وبہادری وحکمرانی کے واقعات پڑھ کر بے ساختہ لبوں سے یہ شعر جاری ہوتا ہے:

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

اگرہم غورکریں کہ آج ہم ثریاسے تحت الثریٰ میں کیوں پہنچ گئے ؟ تواس کا جواب ہوگا : حب الدنیا وکراہیت الموت دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔ آج ہمارے قلوب دنیا کی محبت، اس کی رنگینیوں سے الفت ،اس کے اسبابِ تعیش کے خوگر،موت سے متوحش ،خوف الٰہی سے خالی اور ایمانی حرارت ،اسلامی جرات وبے باکی سے محروم ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ بڑی تعدادبھی سمندر کے جھاگ کی مانندہوگئی ۔ ان حالات میں خواب غفلت سے بیدار ہونے،گم کردہ مقام کے حصول پر کمربستہ ہونے ،احکام الٰہی وفرامین رسول کو حرز جان بنانے ، صحابہ کرامؓ وسلف وصالحین ؒ کوعملی نمونہ بنانے اور خدمتِ اسلام کے تئیں کچھ کر گزرنے کے حوصلے کی ضرورت آن پڑی ہے۔ آج بہت سے مسلمان دیگر اقوام کی طرح اپنی کامیابی اور اپنے مسائل کا حل مادی اسباب اور غیروں کے طریقہ کار میں تلاش کرتے ہیں ۔ ان کے نظام زندگی کو اپنے لئے راہ منزل قرار دیتے ہیں اور اپنی بودوباش ،رہن سہن ،انداز فکر اور اخلاق وکردار،طورطریقے کوغیراسلامی سانچے میں ڈھال کر اس پہ رواں دواں ہیں،حالانکہ انسان کی پسنداورناپسند اس کے ذوق ورجحان سے ہی ہوتی ہے۔

یہ کس درجہ کی مرعوبیت ہے کہ اسلامی تہذیب کا پاس ولحاظ نہ رکھا جائے اور دوسروں کے کلچراوراس کے رسوم کو پسند کرکے اسے اختیارکیاجائے۔ ایساکرنے والے کے دل سے میں اسلام کی روح نکل جاتی ہے اور وہ گویا اپنے طرززندگی سے غیراسلامی طریقہ اور شعارکو اسلام کے مقابلے میں شعوری یا غیرشعوری طورپر بہترقراردے رہاہے۔ نبی کریم نے اس سے متنبہ کرتے ہوئے ارشادفرمایا جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ اسی قوم میں سے ہے۔

ابوداؤد اس کا نتیجہ ہے کہ ریت پر تعمیر کردہ یہ محل ہوا کے چھونکوں سے اڑکر خشک وخاشاک کی طرح بکھرجاتاہے۔ پھر یہی لوگ حماقت میں خود کومسلمان سمجھ کر خود کو اور اپنی قوم کو برابھلاکہتے ہیں جبکہ نبی کریم کا ارشاد ہے زنا کرتے وقت زانی مومن نہیں رہتا اور نہ شراب پیتے وقت وہ مومن رہتاہے، اسی طرح چوری کرتے وقت وہ مومن نہیں رہتااورنہ اس وقت مومن رہتاہے جب کسی کا مال لوٹتاہے اور لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔بخاری مسلمان صرف کلمہ پڑھ لینے سے نہیں بلکہ پورے اعتقادکے ساتھ خود اس نظام ِحیات کے سپرد کردینے کا نام ہے ،کیونکہ: خردنے کہہ بھی دیا لا الٰہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں قرآن کریم میں کئی مقامات پر مومنوں سے ایمان لانے کامطالبہ کیاگیا،جس پر سوال ہوتاہے کہ ایمان والے سے ایمان کا کیا مطالبہ ؟وہاں اس کی تفسیربیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ایمانِ کامل سے متصف دیکھنا چاہتاہے اس لئے اسے ایمان کامل کا حکم دے رہاہے۔ اسی طرح ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو پوری طرح اسلام میں داخل ہوجانے کا حکم دیتاہے کہ اس میں کوئی کجی یا کوتاہی نہ کرے بلکہ شرائع اسلام کا پابند بنے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اے مومنو!اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ۔البقرہ 208 (مکمل مضمون روشنی 11نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: