Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علماء اور عوام کے مابین بڑھتی دوریاں

خانقاہ کی چہار دیواری میں رہ کر مسند ارشاد بچھا دینا کافی ہے یا اہل خانقاہ کی اور بھی ذمہ داریاں ہیں ، لوگوں کے دین کے تحفظ کے لئے کوششیں کرنا رضائے الہٰی کا ذریعہ نہیں

 

مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔حیدرآباد دکن

اس حقیقت کا انکار ناممکن ہے کہ اس امت میں علمائے کرام کی وہی حیثیت ہے جو کسی ذی روح جسم میں دھڑکتے ہوے دل کی۔ انہی کی جدوجہد ہے کہ آج مسلمان اسلامی شناخت کے ساتھ باقی ہیں اور ان میں دینی شعوروآگہی پائی جاتی ہے ۔ان کی تمام دینی ضرورتیں علمائے کرام کے ذریعے ہی پوری ہوتی ہیں ۔وہ شب و روز محنت کرکے اور کم تنخواہوں میں گزربسر کرکے ہر اعتبار سے امت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔اگر وہ اپنے جذبات وخواہشات کو قربان کرکے دین کی خدمت میں مصروف نہ ہوتے تو آج مسلمانوں کا دین کے ساتھ باقی رہنا مشکل ہوجاتالیکن اس تلخ حقیقت کا بھی ہمیں اعتراف کرنا چاہئے کہ جس تیزی اور فکر مندی کے ساتھ اصلاح کا کام ہونا چاہئے اور جس طرح معاشرہ سے منکرات کو دورکرنا چاہئے ،وہ نہیں ہورہا۔ اسکے نتیجے میں آج مسلم سماج برائیوں سے لت پت ہے ۔کوئی علاقہ اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں برائیوں کا سیلاب امنڈتا ہوا نظر نہ آتا ہو ۔کیا نوجوان اور کیا بچے، کیا مرد اور کیا عورت ہر ایک اس میں ملوث ہے۔ اس کے باوجود کہ ہر معاشرے میں اہل علم کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے اور ہر جگہ دینی اداروں کی کثرت ہے ،بے دینی اور بے راہ روی بڑھتی ہی جارہی ہے ۔علماء کے تناسب سے عوام میں خیر و صلاح کا رجحان پیدا نہیں ہورہا ۔ اس کی اہم وجہ علماء اور عوام کے درمیان بڑھتا ہوا فاصلہ ہے ۔

اہل علم اور مذہبی قائدین کے مختلف طبقات نے اپنا اپنا دائرۂ کار متعین کرلیا ہے جس سے باہر ان کی کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی۔ذہنی طور پر کھینچے ہوے حدود میں ہی انکی زندگی گزرتی ہے اور اسی کو کمال سمجھا جاتا ہے حالانکہ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ حدود و قیود کی پابندی کے بغیر جہاں تک زبان و قلم میں طاقت ہے اس کو پوری امت کی اصلاح کیلئے استعمال کیا جائے اور اپنی قوت وصلاحیت کو مدارس ومساجد اور خانقاہوں تک محدود رکھنے کے بجائے سارے مسلمانوں تک اس کا فیض عام کرنے کی کوشش کی جائے ۔

اہل علم کی زندگی کا بڑا مقصد مسلمانوں کی رہنمائی اور ان کی اصلاح و تزکیہ ہے اور اس کیلئے ان سے رابطہ ضروری ہے ۔رابطہ جتنا مضبوط ہوگا اتناہی ان کو نفع حاصل ہوگا اور اسی قدر عوام ان سے فیضیاب ہوں گے ۔ تعلق کے بغیر علم کا نفع عوام کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ ان کی اصلاح کی امید رکھی جا سکتی ہے ۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ رسول اکرم نے کبھی اپنے لئے خطِ امتیاز قائم نہیں کیا۔آپ صحابۂ کرام سے اس طرح گھلے ملے رہتے تھے کہ نئے آنے والوں کو پہچاننا مشکل ہو جاتا کہ ان میں کون امام اور کون مقتدی ہیں ،کون تابع اور کون متبوع ہیں۔آپ جب لوگوں کے ساتھ بیٹھتے تو بالکل تمام کے برابر ،زانوئے مبارک کبھی ہم نشینوں سے نکلے ہوے نہ ہوتے ،مہمانوں کی خاطر تواضع خودآپ کرتے اور ان کی تمام ضروریات کی تکمیل کیا کرتے تھے ۔صحابۂ کرام دل وجان سے آپ پر قربان تھے ،آپ کے ایک اشارے پر سیکڑوں افراد تعاون کے لئے کھڑے ہو جاتے مگر آپ نے انہیں سونپ کر کبھی یکسوئی اختیار نہیں کی۔

ایک مرتبہ نجاشی کے دربار سے چند سفراء آپ کی خدمت میں حاضر ہوے ۔آپ نے ان سب کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور بہ نفس نفیس مہمان داری کے تمام امور انجام دیئے ۔صحابۂ کرام ؓنے عرض کیا کہ یہ خدمت ہم لوگ انجام دیں گے، آپ یہ خدمت ہمارے حوالے کر دیجئے ۔آپ نے یہ کہتے ہوے اس سے انکار کردیا کہ ان لوگوں نے میرے دوستوں کی خدمت گزاری کی ہے لہذا میں خود ان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں (بیہقی)۔

ایک مرتبہ حضرت خباب بن ارت ؓ کو آپ نے کسی غز وہ میں بھیجا۔سیدنا خباب کے گھر میں دودھ دوہنے کی ضرورت پیش آئی۔ان کے یہاں کوئی مرد نہیں تھا اور نہ کسی عورت کو دودھ دوہنا آتا تھااس لئے آپ خود تشریف لے جاتے اور دودھ دوہ دیتے ۔مدینہ کی کوئی باندی اور بے حیثیت افراد بھی جب کسی کام کے لئے فریاد کرتے تو آپ انکار نہیں فرماتے تھے چنانچہ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ ایک پاگل عورت تھی۔اس نے ایک مرتبہ خدمت اقدس میں آکر عرض کیا کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا اے عورت !مدینہ کی جس گلی میں بھی تو چاہے میں تیری ضرورت کی تکمیل کیلئے حاضر ہوںچنانچہ اس کے ساتھ ایک گلی میں گئے اور آپ نے اس کی ضرورت پوری کی۔مسلم غزوۂ احزاب کے موقع پر جبکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم خندق کھودنے میں مصروف تھے ،رسول اکرم بھی برابر کے شریک تھے۔آپ مٹی اٹھاتے جاتے تھے جس سے مبارک شکم غبار آلود ہوگیا تھا ۔آپ چاہتے تو ایک جگہ بیٹھ کر صرف کام کی نگرانی فرماتے یا کبھی کبھی کام کا جائزہ لے لیتے لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ عوام کے ساتھ مصروف عمل رہے ۔اس سے جہاں مسلمانوں کو حوصلہ ملا اور ان کے کام کرنے میںجوش و خروش پیدا ہوا وہیں ا مت کے قائدین اور دینی رہنماؤں کو سبق ملا کہ کسی کام کے وقت اپنے ماتحتوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔گوشہ نشینی افضل ہے یا لوگوں کے ساتھ مل جل کر کسی معاملہ کو حل کیا جانا چاہئے۔ رسول اکرم سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بزرگ پیدا نہیں ہوا اور نہ ہوسکتا ہے، اس کے باوجود آپ اس طرح لوگوں سے گھلے ملے رہتے کہ کسی کو رسائی میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوتا ،ہٹو بچو کا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔

حضرت جابر بن سمرۃ ؓبیان فرماتے ہیں کہ نماز فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک آپ اپنی جگہ ذکر میں مشغول رہتے تھے ۔سورج نکلنے کے بعد آپ اپنی جگہ سے اٹھتے پھر صحابۂ کرام کے ساتھ بیٹھ جاتے ۔وہ لوگ زمانۂ جاہلیت کی باتیں کرتے اور اپنی مشرکانہ حرکتوں کو یاد کرکے آپس میں ہنسا کرتے تو آپ بھی ان کے تذکروں میں شامل رہتے، لطف اندوز ہوتے اور بعض باتوں پر مسکرایا کرتے تھے ۔ خانقاہوں میں سے سیکڑوں لوگ مستفید ہوتے ہیں مگر کیا خانقاہ کی چہار دیواری میں رہ کر مسند ارشاد بچھا دینا کافی ہے یا اہل خانقاہ کی اور بھی ذمہ داریاں ہیں ؟قادیانیت ،عیسائیت اور مختلف باطل مشنریاں منصوبہ بند طریقے پر اسلام کے خلاف کام کررہی ہیں اور بھولے بھالے عوام کثیرتعداد میں گمراہیوں کے شکار ہورہے ہیں،ان کے تحفظ کے لئے کوششیں کرنا کیا رضائے الہٰی کا ذریعہ نہیں ؟خانقاہ کی گلی میں مسلمان شراب نوشی اور جوا میں مصروف رہتے ہیں لیکن اہل خانقاہ ان کو نگاہ اٹھاکر دیکھنے اور روکنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ۔کیا یہ خدمت دین میں شامل نہیں ؟

دینی مدارس سے وابستہ اکثر افراد بھی محض اپنے متعین نصاب کے پڑھانے تک محدود رہتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فریضہ انجام دے دیا ہے حالانکہ انہی کا معاشرہ نت نئی برائیوں میں ڈوبا ہوا ہے ۔بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کبھی مسجد کی راہ نہیں دیکھی ۔جھوٹ ،غیبت،قمار بازی ،سود خوری،بدکاری اور شراب نوشی جیسے گناہوں میں مبتلا ہیں ،ان تک اللہ کا پیغام پہنچانا بسااوقات درس وتدریس سے بھی افضل ہوگا ،پھر اپنی صلاحیتوں کو مدارس کی چہار دیواری تک محدود رکھنا کیا امت کی حق تلفی نہیں اور کیا قیامت کے دن ہم سے مؤاخذہ نہیں ہوگا؟جو لوگ مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں ان سے پوری قوم وابستہ ہوتی ہے ۔

منبرو محراب کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی قوت دی ہے جو چاہنے کے باوجود بھی اچھے اچھوں کو حاصل نہیں ،سارے مقتدی ان کی ایک آواز پر لبیک کہتے ہیں لیکن عام طور پر اس اہم منصب کے ذمہ داران بھی لوگوں سے کٹے کٹے رہتے ہیں ۔امام اور مقتدیوں میں مستحکم رابطہ نہیں ہوپاتا۔ان کی ساری سرگرمیاں امامت کی حد تک محدود ہوتی ہیں ۔نماز سے کچھ پہلے مسجد میں حاضر ہوتے ہیں اور پھر نماز کے فوری بعد اپنے دیگر مقاصد میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کی دی ہوی اتنی بڑی قوت یونہی ضائع ہوجاتی ہے اور پھر وہ کوئی انقلابی کام نہیں کرسکتے۔ رسو ل اکرم امام بھی تھے اور مبلغ اور قائد بھی۔معلم اور مدرس تھے اور مصلح اور مجاہد بھی۔ قرآن کی تلاوت بھی کرکے سناتے اور تزکیۂ نفس کا بھی کام کرتے تھے۔بشری تمام ضرورتیں آپ سے وابستہ تھیں لیکن بیک وقت سارا کام آپ انجام دیتے تھے ۔اس میں ہمارے لئے بڑا پیغام ہے ۔ ان حالات میں مذہبی قائدین کو چاہئے کہ حکمت اور بہتر تدابیر کے ذریعے عوام کو قریب کریں اور ان میں دین سیکھنے کی تڑپ پیدا کریں ۔انہیں اتباعِ شریعت کا احساس دلائیں ،مسلسل اس طرح کی محنت سے ان کی زندگی میںان شا ء اللہ صالحیت پیدا ہوگی اور علماء کی طلب میں بھی اضافہ ہوگا۔

(مکمل مضمون روشنی 11نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: