Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’بھیگی آنکھیں ، خالی ہاتھ، سوالی سوچ‘‘

مجبور باپ نے اولڈ ہاؤس پہنچ کرخود کو رجسٹرکروادیا مگر یہ نہ بتاسکا کہ وہ کسی کمشنر کا باپ ہے

 

تسنیم امجد۔ ریاض

رواں ہفتے صبح الکافیہ گیدرنگ میں مختلف موضوعات زیربحث تھے۔ ایک خاتون گویا ہوئیں کہ میرے شوہر آجکل سخت پریشان ہیں کیونکہ حال ہی میں ایچ آر کی پوسٹ پر جس شخص کو بھیجا گیا ہے وہ ان کا کلاس فیلو ہے جو ہمیشہ سی اور ڈی گریڈ میں رہا جبکہ یہ خود اے ون گریڈ میںرہتے تھے اور اکثر استاد کی غیرموجودگی میں فزکس کا لیکچر خود دیتے تھے۔ شاید عہدوں یا رتبوں کی تقسیم امیری اور غریبی کے ترازو میں تلتی ہے ۔

آنے والا افسر ایک بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ کالج میں بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ نالائقی کے باوجود سبھی پروفیسراسے لیکچر دوبارہ سمجھانے کی پیشکش کرتے تھے۔ میرے شوہر کل دل برداشتہ ہوکر کہہ رہے تھے کہ کاش میرا باپ بھی امیر ہوتا۔ امیر باپ کی اولاد بھی امیر ہی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیشہ خصوصی سلوک ہوتا ہے۔ کیا غریبوں کے ساتھ ہونے والا سلوک نسل در نسل چلتا ہے۔ہم گزشتہ ایک ہفتے سے اسی خاتون کے بارے میں سوچ رہے ہیں گو کہ ہم اپنے معاشرے کے فرد کی حیثیت سے معاشی و معاشرتی اونچ نیچ سے بخوبی واقف ہیں۔ باپ تو باپ ہے خواہ امیر ہو یا غریب ، پھر دولت کی بنیاد پر اس کی حیثیت کو کیوں پر کھاجاتا ہے؟ کاش! شفقت پدری کی گہرائی کو سمجھاجائے۔ یہ بے لوث جذبہ ہمہ وقت محبت کی شبنم بن کر برستا ہے۔

وہ غربت کو کبھی اولاد کی خواہشوں کے بیچ نہیں آنے دیتا۔ وہ بڑھاپے کی بے سروسامانی کی بھی فکر نہیں کرتا۔ آج اسٹیٹس کی دوڑ میں اکثر رشتے تنہائی کا شکار ہیں۔ ہمیں وہ باپ بھی یاد آیا جو بیٹے کا گھر صرف اس لئے چھوڑنے پر مجبورہوا کہ کہیں کسی کو علم نہ ہوجائے کہ وہ چپڑاسی تھا۔ اس کا بیٹا کمشنر کے عہدے پر فائزتھا۔ وہ اکثر والد سے کہتاتھا کہ اباجان! جب بھی کوئی گیدرنگ ہوتی ہے تو مجھے یہی فکر لاحق رہتی ہے کہ کہیں کوئی آپ کو پہچان نہ لے۔ اس لئے آپ اس دن اپناکوئی پروگرام بنالیا کریں۔ بہو بولی کہ ہاں یہ قریب کے پارک میں چلے جایا کریں ۔میں آپکو کھانا وہیں پہنچادوں گی۔

باپ کبھی حیرانی اور کبھی شرمندگی کی حالت میں بیٹے کا منہ تکتا۔ کمشنر بیٹے کے ہاں تو روز ہی آنے والوں کا رش رہتا ہے۔وہ یہی سوچتا اور ساری رات سونہ سکتا۔ شاید ایسی ہی صورت حال کے لئے شاعر نے کیا خوب کہا ہے: گھر میں سارے لوگ اکیلے رہتے ہیں سب نے اپنی اپنی ہے اپنالی سوچ کاش کسی کو پڑھنا آجائے کاوش بھیگی آنکھیں ، خالی ہاتھ، سوالی سوچ کاش میں اس قابل ہوتا کہ بیٹے کو کسی سے ملاتے شرمندگی نہ ہوتی ، وہ لکڑی کے بینچ پر بیٹھا شام کا نظارہ کررہا تھا۔ سبھی پنچھی واپس درختوں پر آرہے تھے لیکن اسے تو رات گئے تک یہیں بیٹھنا تھا۔ پھر اس نے سرجھٹک کر ساری سوچ یہ بڑبڑاتے ہوئے مسکراہٹ میں اڑادی کہ ’’کوئی بات نہیں، ابھی جو روٹی دینے آئے گا، اس سے کمبل منگوالوںگا۔ بہت اچھالگ رہا ہے یہاں بیٹھنا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، بھلا کس کو نصیب ہے یہ موسم دیکھو سبھی پارک سے چلے گئے۔‘‘آخر اس باپ نے سچائی کو تسلیم کرتے ہوئے پرانے دوست سے ملنے کا بہانہ بنایا اور اولڈ ہاؤس پہنچ کرخود کو رجسٹرکرودیا مگر وہ رجسٹریشن کے وقت یہ نہ بتاسکا کہ وہ کسی کمشنر کا باپ ہے۔ کیاباپ کا غریب ہونا جرم ہے ؟

کاش کچھ ایسی ٹیکنالوجی ایجاد ہوجائے جو باپ کے سماجی مقام کو ایک کلک کے ذریعے بدل ڈالے۔ معاشرے کی اس روش کو کیا کہیں؟ دولت و اسٹیٹس کے گرد گھومتی سوچ کیا کبھی ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی ؟ شرفِ انسانی سیم وزرہی کے پیمانے سے ناپاجاتا ہے۔ قابل عزت وہی ہے جس کے پاس عشرت کے سامان وافر ہیں۔ ان حالات نے مقدس رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ سراٹھا کر چلنے کاپیمانہ یہی سب کچھ ہے۔ وہ باپ جو سراٹھا کر چلنے کے خواب دیکھتا ہے، شب و روز کی مشقت کا صلہ اسے یہ ملے کہ وہ اپنا وجود چھپانے کیلئے جگہ تلاش کرنے پر مجبور ہوجائے ۔

اس حالت میں بھی وہ اپنی سسکیاں دبالیتا ہے ، مبادا کوئی سن لے اور بیٹے کی آن پر حرف آجائے۔ ہم نے تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھا جب صاحبِ حیثیت باپ کے گرد بیٹے منڈلاتے رہتے ہیں۔ دوستوں میں ان کا ذکر نہایت رعب سے کرتے ہیں۔ شاید معاشرتی اسٹیٹس کا تقاضا یہی ہے۔ بیٹے کو نورِ چشم کہا جاتا ہے، اس کی پیدائش پر باپ کا سر تن جاتا ہے۔ اسے اپنا بڑھاپا محفوظ محسوس ہونے لگتا ہے۔کاش وہ بیٹا جو صرف ظاہری شوشا کا بھرم رکھنا چاہتا ہے، یہ سوچ سکے کہ رشتے انمول ہوتے ہیں ۔یہ بچھڑ جائیں تو کبھی نہیں ملتے اور یقیناایک وقت ایسا آتا ہے جب پچھتاوا روح کو جھنجھوڑتا ہے ،تب کچھ بھی پلے نہیں ہوتا ۔

شیئر: