Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھر والوں کیلئے سب کچھ برداشت کرتے ہیں،معظم علی

پاکستانیوں کے علاوہ کون ہیں جن سے دل ملے گا،ہمارا اسلامی ملک ہے،ہمارا بھائی ہے- - - - - - - - - - - - - -

 

انٹرویو:    مصطفی حبیب صدیقی

*معظم علی سے میری ملاقات صبح سویرے جدہ کے علاقے عزیزیہ میں ہوئی،بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا سے تعلق رکھنے والا معظم علی سڑک پر صفائی کررہا تھا۔میں قریب پہنچا اور سلام کیا ۔

*وعلیکم السلام ۔اور پھر وہ اپنے کام میں لگ گیا۔یعنی اسے تودرجنوں لوگ گزرتے ہوئے سلام کرہی لیتے ہونگے۔یہ یہاں سعودی عرب کی اچھی روایت ہے کہ کوئی آپ کو جانے یا نہ جانے سلام کرلیتا ہے تاکہ سلامتی کی دعائوں کا تبادلہ ہوجائے۔میں نے معظم سے بات شروع کی۔

 اردونیوز:یہ کام کرتے کرتے تھک نہیں جاتے ،کتنا بڑا علاقہ ہے جس کی صفائی کرتے ہوئے؟

*معظم علی:ہاں ’’تھک تو جاتا ہوں،بہت بڑا علاقہ ہے ۔پیدل چلنا ہوتا ہے۔کبھی صبح کبھی رات کو شروع ہوتا ہے کام۔مگر کیا کریں گھروالوں کا پیٹ تو پالنا ہے نا۔۔ ویسے بھی بھائی صاحب۔پردیس آکر تھکنا کیسا،یہاں تو آئے ہی اپنے بیوی بچوں اور ماں باپ کیلئے ہیں۔یہاں ہم تھک گئے تو وہاں وہ لوگ کیا کریں گے۔بس ہر وقت یہی سوچتے ہیںکہ وہ لوگ خوش رہیں اس لئے محنت کرتے رہتے ہیں۔

اردونیوز:معظم علی کتنی گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے تمہاری اور کیا رقم مل جاتی ہے؟

*معظم علی :ہماری 12گھنٹے ڈیوٹی ہوتی ہے۔ویسے تو ہمیں500ریال ملتے ہیں جن میں کھانا بھی ہمیں خودہی کھانا ہوتا ہے مگر آپ جیسے بھائی بندے راہ گزرتے کچھ نا کچھ دے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کافی اچھا معاملہ ہوجاتا ہے۔ویسے تو آپ بھی جانتے ہیں اس میں گزارا کرنا تو ناممکن ہے۔

اردونیوز:وہاں بنگلہ دیش میں کون کون ہے اور کیا کرتے ہیں؟

*معظم علی:وہاں میرے والدین ہیں۔بیوی ہے اور ایک بیٹا ہے۔ 3،4سال کا ہے ۔2سال سے تو دیکھا بھی نہیں اسے ۔اب جائونگا تو دیکھوں گا۔بس انہیں ہی بنانا ہے ۔بھائی بس انہیںکیلئے کام کررہے ہیں۔۔دن رات انہیں ہی یاد کرکے جیتے ہیں۔بیٹا تو میری جان ہے۔بس وہ بڑا آدمی بن جائے اس لئے اتنی محنت کرتے ہیں۔وہاں والے خوش ہوجاتے ہیں تو یہاں کی تھکن اور تکلیفیں بھول جاتے ہیں۔وہ اچھا کھالیں ،پہن لیں بس یہی سوچ کر سب کچھ برداشت کرلیتے ہیں۔

اردونیوز:بنگلہ دیش میں کیا کرتے تھے اور یہاں کب سے ہو؟

*معظم علی :وہاں چھوٹا موٹا کام کرتا تھا ۔محنت مزدوری کرکے گھر کا کام چلتا رہتا تھا۔مگر وہاں بہت مسائل ہیں۔لڑائی جھگڑے ہیں۔ملازمت کیلئے جائو تو 5،5لاکھ روپے رشوت مانگتے ہیںاور کئی مرتبہ تو رشوت لے کر بھی ملازمت نہیں دیتے۔بھاگ جاتے ہیں۔کیا کرینگے وہاں پر بس اسی مجبوری میںیہاں کام کررہے ۔پھر وہاں ہماری 2عورتوں کی لڑائی نے بھی ہمارا کام خراب کردیا ہے۔

اردونیوز:کون سی دوعورتیں؟کیا تم نے 2شادیاںکررکھی ہیں؟

*معظم علی :نہیں نہیں(ہنستے ہوئے)بھائی ،یہاں ایک شادی کے خرچے پورے نہیں ہوتے 2کیسے کریگا۔وہاں وہ جو ہیں حسینہ واجد ہمارا وزیراعظم اور خالدہ ضیاء وہ جو بی این پی والی ہے نا وہ دونوں لڑتے رہتے ہیں۔ہرروز شہر بند ہوجاتا ہے۔کاروبار نہیں ہوتا۔جب لڑائی ہوگی توکام کیسے چلے گا۔اور وہ لوگ تو دوسری پارٹیوں کو بھی بہت تنگ کرتے ہیں۔پریشان کرتے ہیں۔ہم تو کسی پارٹی کا نہیں مگر یہ کیا مطلب ہے کہ اگر کوئی حسینہ واجد کی پارٹی کا نہیں تو اسے اٹھائو اور پھانسی دیدو۔مارو۔وہاں بہت سے لوگ گھروں سے غائب ہیں۔یہ حکومت بہت ظلم کررہی ہے۔میں واپس جانا چاہتا ہوں مگر وہاں کے حالات ہمیں نہیں جانے دیتے۔

اردونیوز:اچھا معظم یہ بتائو کہ یہاں کام کرتے ہو ۔گرمی ہو یاسردی ۔کیسے گزرتی ہے۔گھومنے پھرنے کا کوئی پروگرام بناتے ہو۔کبھی کہیں گئے اور کیا سوچتے ہو؟

*معظم علی:ارے صاحب کیسی باتیں کرتے ہیں۔اس تنخواہ میں گھومنے پھرنے کا کیسے سوچیں ۔ہم تو جو بھی کماتے ہیں۔ایک ایک ریال جمع کرکے اپنے ملک بھیجتے ہیںکہ ماں باپ اور بیوی بچوں کے خرچے پورے ہوجائیں۔یہاں ہم گھومنے تو نہیں آئے۔دل تو چاہتا ہے ۔کس کا دل نہیں چاہے گا مگر کیا کریںاگر گھومیں گے تو وہاں بنگلہ دیش میں

ہمارے گھروالے کیا کھائینگے۔

اردونیوز:عید تہورا پر کیا کرتے ہوکہاں جاتے ہو؟

*معظم علی:ارے میں نے بتایا نا کہاں جائینگے۔صاحب جی یہ جگہ جو پردیس ہوتی ہے نا یہاں جب آدمی آجاتا ہے تو پھر گھومتا نہیں۔آپ لوگ بڑے لوگ ہو۔گھومتے ہوگے۔ہمیں تو بس کام کرنا ہوتا ہے۔عید تہوار پر بھی کام کرتے ہیں۔سڑک پر اکثر ایسی جگہ صفائی کرنی ہوتی ہے جہاں بہت تیز گاڑیاں گزرتی ہیں۔ڈر لگتا ہے کہ کوئی مار ناں دے۔اور گاڑی والے بھی نہیں رکتے۔بعض تو گالیاں تک دے جاتے ہیں۔ہم غریب لوگ ہیں ناں کیاکریں۔سن لیتے ہیں۔ میں آپ کو بتائوں کہ اپنے ملک میں ایک بات نہیں سنتے تھے۔مگر یہاں سب کی سنتے ہیں۔اگر کبھی غصہ آبھی جاتا ہے تو یہ سوچ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ وہاں ماں کی دوا لانی ہے۔باپ کوبھی پیسوں کی ضرورت ہے۔منے کے اسکول کی فیس دینی ہے۔بس سب کچھ برداشت کرتے ہیں۔یہی ہے پردیس اور کیا ہے۔

اردونیوز:اچھا آخری سوال ،تمہیں اس ملک میں بہت سے ملکوں کے لوگ ملے سب سے زیادہ کون سے ملک کے لوگ ہیں جن کے ساتھ دل لگتا ہے؟

*معظم علی:یہ بھی کیا سوال ہوا،سر جی،پاکستانیوں کے علاوہ کون ہیں جن سے دل ملے گا۔ہمارا اسلامی ملک ہے،ہمارا بھائی ہے۔پاکستانی بھی ہم کو بہت عزت دیتے ہیں۔اصل میں ہمارے ملک میں جو بھی ہو یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستانی ہی ہمارے اصل دوست ہیں۔یہاں بھی پاکستانی جب بھی ملتے ہیں ہمیں بہت عزت دیتے ہیں۔ہمارا خیال رکھتے ہیں۔پیسے دیتے ہیں۔

 

محترم قارئین ! اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے،اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے،آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ،ہم دنیا کو بتائیں گے،ہم بتائیں گے کہ آپ نے کتنی قربانی دی ہے ،آپ کے تجربات سے کیوں نا دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں۔

تو آئیے اپنی ویب سائٹ اردو نیوز سے منسلک ہوجائیں۔ہمیں اپنے پیغامات بھیجیں ۔اگر آپ کو اردو کمپوزنگ آتی ہے توکمپوز کرکے بھیجیں یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔

ہم سے فون نمبر 0966122836200 ext: 3428۔آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔

ای میل:[email protected])

شیئر: