Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

....... جیالا

 
 ہاسٹل کی کینٹین پر ایک درجن طلبہ کی ان سے طویل نشست رہی، ملکی سیاست پر ان کا مطالعہ قابل ستائش تھا
 
 
جاوید اقبال
 
 
پیپلز پارٹی کے لاہوری جیالوں کے ہر دلعزیز " جنگہیڑ بدڑ" کا انتقال ہوگیا۔
1969 ء کا موسم ِ خزاں تھا۔ ذو الفقار علی بھٹو کی شہرت طوفان بلاخیز بنی ہر کہتر ومہتر کو اپنے ہمراہ اڑا ئے پھرتی تھی۔ 2 برس قبل نومبر 1967 ءمیں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہائش کے ایک سمٹے سمٹائے عقبی باغیچے میں پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا جاچکا تھا۔ ہزاروں رکنیت اختیار کرچکے تھے۔ لاکھوں کے دلوں میں نرم گوشے تھے۔ انہی دنوں پنجاب یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات ہونا ٹھہرے۔ لاہور کی لوئر مال روڈ کے دونوں اطراف چنگاریاں بھڑک اٹھیں۔ پنجاب یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس، یونیورسٹی لاءکالج اور اورئنٹل کالج کی فضائیں بے چین ہوگئیں۔ صدارت کےلئے 2 امیدوار تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے حافظ محمد ادریس اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے جہانگیر بدر، جہاں بھی یونیورسٹی کے طلبہ قیام پذیر تھے وہاں مغرب کے بعد ہجوم ہوجاتا۔ ہاسٹل خصوصی طور پر مرکزِ توجہ بنتے۔ دونوں امیدوار اپنے حمایتیوں کو ہمراہ لئے آتے اور ان رہائش گاہوں پر اجتماعات منعقد کرتے۔ میں نے جہانگیر بد ر کو پہلی بارکریسنٹ ہاسٹل میں دیکھا۔ اپنے لئے ووٹ کی طلب میں اپنے ایک درجن کے قریب حمایتیوں کے ہمراہ آئے تھے۔ 24 ، 25 برس کا سِن، دبلا پتلا مضبوط جسم ، گندمی رنگ اور ہونٹوں کے اوپر گھنی مگر معقولیت کی حدود کے اندر رکھی گئی ابابیل نما مونچھ۔ لاءکالج کے ایل ایل بی کے طالب علم تھے مگر اس سے قبل بیلی کالج سے بی کام آنرز کرچکے تھے ۔ ہاسٹل کی کینٹین پر ایک درجن طلبہ کی ان سے طویل نشست رہی۔ ملکی سیاست پر ان کا مطالعہ قابل ستائش تھا۔ بھٹو سے مسحور تھے اور روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ خیالات پر خاصا اثر انداز ہوچکا تھا۔ بھاٹی گیٹ کا پنجابی لہجہ ان کے حرف " ر" کو " ڑ" میں ڈھال کر گفتگو کو ایک دلچسپ طراوت دے رہاتھا ۔ ہر نئے طالب علم سے ہاتھ ملاتے وقت اپنا نام” جنگہیڑ بدڑ“ بتاتے۔ 
بھٹو کے بگولے نے جن طالب علم رہنماوں کو دیوانگی کی حد تک پہنچا کر جیالا بنا ڈالا تھا جہانگیر بدر ان میں سرفہرست تھے۔ پیپلز پارٹی کے بانی لاہور آکر ہمیشہ فِلٹیز ہوٹل میں قیام کرتے تھے۔ انکے پہلے ملاقاتیوں میںجہانگیر بدر ہوتے۔ پنجاب یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کے دوران بعض اوقات انتہائی دلچسپ صورتحال پیدا ہوجاتی۔ کریسنٹ ہاسٹل کی اس ابتدائی نشست کے کوئی ا یک ہفتہ بعد ایک سہ پہر کا منظرنامہ میں ابھی تک فراموش نہیں کرسکا۔ لاءکالج کے سامنے سڑک کے کنارے واقع کینٹین پر چند بنگالی طلبہ کھڑے چائے پی رہے تھے۔ ان دنوں بین الجامعاتی تبادلے کے پروگرام میں مغربی پاکستان سے طلبہ مشرقی پاکستان کی جامعات میں جبکہ مشرقی پاکستان کے طلبہ مغربی حصے کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم کےلئے آتے تھے۔ یہ بنگالی طلبہ نیو کیمپس سے تھے اور پھر انہی دنوں عوامی لیگ اور جماعت اسلامی کے مابین کچھ غلط فہمیاں پیدا ہونے سے ملکی سیاست میں کچھ بدمزگی پیدا ہوچکی تھی۔ یہ طلبہ کھڑے چائے پی رہے تھے کہ اچانک وہاں جہانگیر بدر اپنے ساتھیوں کے ساتھ نمودار ہوگئے۔ انہیں دیکھتے ہی ان طلبہ نے اپنے چائے کے کپ پھینکے اور جہانگیر بدر کی طرف دوڑ لگا دی۔ انہوں نے صدارت کے امیدوار سے ہاتھ ملائے اور پھر اس کے گرد گھیرا بناکر ناچنا اور نعرے لگانا شروع کردیا۔ سب اپنی دلچسپ بنگالی اردو میں گا رہے تھے۔ 
امارشودر تومار شودر
چانگیر بودر جانگیر بودر
بڑی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہوگئی۔ لمحوںمیں اردگرد کے دوسرے طلبہ نے ان بنگالیوں کے گرد ایک بڑا دائرہ بنا دیا اور پنجابی ہونے کے باوجود ان مہمانوں کے لہجے میں ہی گانا شروع کردیا۔”امارشودر تومار شودر....“ جہانگیر بدر کے مخالف امیدوار حافظ محمد ادریس شعبہ عربی کے طالب علم تھے۔ ان کی حمایت بھٹو مخالف کیمپ سے آئی۔ انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے 95 فیصد ووٹ انہیں ملے چنانچہ وہ جیت گئے اور یونین کی صدارت اسلامی جمعیت طلبہ کے ہاتھ میں آئی۔ پنجاب یونیورسٹی کے اس انتخاب نے طلبہ کو واضح طور پر بھٹو پسند اور بھٹو مخالف گروہوں میں تقسیم کردیا اور جہانگیر بدر بھٹو کے معتمد بن گئے۔ وہ لاہور میں پیپلز پارٹی کا ایک معروف اور فعال نام بن کر ابھرے۔ حافظ محمد ادریس شعبہ¿ عربی کے طالبعلم تھے لیکن انہوں نے اس سے قبل اسلامیات میں بھی ایم اے کی سند حاصل کی تھی اور ا ن دنوں اس شعبے کے صدر علامہ علاءالدین صدیقی تھے۔ یونین کا انتخاب جیتنے کے بعد ایک ایسا ناخوشگوار واقعہ ہوا جس کے ذمہ دار حافظ ادریس تھے چنانچہ علامہ علاءالدین صدیقی نے حافظ صاحب کو جامعہ بدر کردیا۔ 
بعد کے برسوں میں میری ملاقات حافظ صاحب سے 1974 ءمیں کینیا میں ہوئی۔ وہ نیروبی میں قائم اسلامک فاونڈیشن کے مشیر کے طور پر جماعت اسلامی کی طرف سے مامور کئے گئے تھے۔ آج کل وہ جماعت اسلامی پنجاب کے امیر ہیں۔ جہانگیر بدر سے میری تفصیلی ملاقات لندن کے فورسیزنز ہوٹل میں اس دن ہوئی جب وہاں میثاق جمہوریت کی دستاویز پر دستخط ہوئے۔ بینظیر بھٹو کے ہمراہ جہانگیر بدر کے علاوہ ناہید خان ، راجہ پرویز اشرف، واجد شمس الحسن اور مخدوم امین فہیم بھی تھے جبکہ نواز شریف کے ہمراہ شہباز شریف ، چوہدری نثار اور احسن قبال تھے۔ 11 دوسری جماعتوں کے نمائندے بھی دستخط کرنے کیلئے وہاں موجود تھے۔ جہانگیر بدر سے کچھ دیر ماضی کے اوراق پلٹنے کا موقع ملا۔ وہ ایک محافظ کی طرح بینظیر کا سایہ بنے رہے۔ یہاں تک کہ جب دستخطوں کی تقریب ختم ہوئی اور ساری جماعتوں کے نمائندے صحافیوں کےلئے تصاویر بنوانے لگے تو محترمہ کی کرسی کے پیچھے جہانگیر بدر آن کھڑے ہوئے۔ کیمروں نے چکاچوند پھیلائی۔ ہر تصویر کے پیچھے کھڑے رہنما ہٹتے اور اپنی جگہ دوسروں کود یتے رہے لیکن جہانگیر بدر نے دائیں بائیں سے پڑنے والے دباو کے باوجود اپنی جگہ نہ چھوڑی اور ہر فریم میں وہ محترمہ کے پیچھے ہی کھڑے نظر آئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے منظر سے ہٹتے ہی کوئی اپنی ڈھائی اینٹ لے کر علیحدہ ہوگیا او رنئی پی پی پی بنا بیٹھا تو کوئی اپنے آپ کو بھٹو ثانی ثابت کرنے میں سرگرم ہوگیا۔ کسی نے معافی نامہ داخل کیا اور نجات پاگیا تو کوئی رخت ِسفر باندھ پردیس سدھار گیا۔ صرف ایک اپنے حرف پر قائم رہا۔ زندانوں میں، عقوبت خانوں میں، ظلمت کدوں میں آخر دم تک بھٹو کا ہی جیالا رہا۔ جہانگیر بدر ہی رہا۔ لاہوریوں کیلئے جنگہیڑ بدڑ کا سدا کھلا رہنے والا دروازہ اب شاید بند ہوجائے لیکن 77 میں کوٹ لکھپت جیل کے ایک زندانی مسمی ذوالفقار علی بھٹو کا کوڑوں کی تیز دھار تلے تڑپتے دوسرے زندانی مسمی جہانگیر بدر کے نام لکھا گیا کاغذ کا تراشا حروف کی سنہری چادر اوڑھ کر امر ہوگیا ہے۔ 
" میرے بیٹے! جمہوریت کیلئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں"۔
******
 

شیئر: