Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’پھٹکار سے بچنے کیلئے پھٹکڑی‘‘

جب سے ہمارے نام کے ساتھ ’’قمر‘‘کا لاحقہ آن موجود ہوا،ہم خود کو قمر سے کم نہیں سمجھتے، آپ اس حُسنِ ظن کو حُسنِ زن سمجھیں

 

مسز زاہدہ قمر۔جدہ

جب سے ہمارے چیدہ مضامین کو پیچیدہ کہہ کر اور ہماری نظموں، غزلوں اور افسانوں کوغیر معیاری قراردے کر مختلف مدیروں نے واپس بھجوایا ہے،ہمیں ادب کا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا ہے۔ ویسے تو ہمارے شوہر نامدار کی رائے ہے کہ ’’ادب کا مستقبل تب خطرے میں ہوتا جب تمہاری نگارشات ادبی رسالوں کی زینت بنتیں‘‘مگر ہم ایسی تنقید کو چنداں خاطر میں نہیں لاتے ۔ اب ہمیں مُدیروں کی تازہ کارروائی سے یقین ہو چلا ہے کہ پُرانے بلکہ کھپٹ اور فرتوت ادیب ہمیں ادب کی دنیا میں قدم جمانے نہیں دیں گے کیو نکہ ہمارے ادبی دنیا میں داخل ہوتے ہی یہ سب ادیب وہاں سے بے دخل کردیئے جائیں گے اور ہمارے سامنے ٹھہرنے کی طاقت شاید ہی کسی میں ہو۔ ہم اپنے بقول ادب کی دُنیا کے دمدار ستارے ہیں کیونکہ اسی کی طرح ہم بھی ہر جگہ بلائے نا گہانی کی طرح نمودار ہوتے ہیں ۔

ویسے بھی جب سے ہمارے نام کے ساتھ نظام شمسی کے سب سے حَسین سیارے یعنی ’’قمر‘‘کا لاحقہ آن موجود ہواہے، تب سے ہم خود کو قمر سے کم ہرگزنہیں سمجھتے۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ آپ اس حُسنِ ظن کو حُسنِ زن سمجھیں۔ جس طرح ایک نیا ہیرو یا ہیروئن اپنے آپ کو پروموٹ کرنے کے لئے اپنی فلم بنا لیتے ہیں اسی طرح ہمارے ذہن کی اسکرین پر ایک نایاب رسالے کی تصویر اُبھری اور یہ خیال راسخ ہو گیا کہ اب اپنا ادبی رسالہ نکالنا ہمارے لئے ناگزیر ہو گیا ہے۔ ایک مجوزہ رسالے کے مُدیر، مضمون نگار، افسانہ نگار، کالم نگار ، نامہ نگار سب کچھ ہم ہی ہوںگے۔

یہ رسالہ ادبی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دے گا۔ یہ ہر طرح کی ادبی خبریں شائع کرے گا ۔ہر ادب سے متعلق تازہ معلومات کا ایک خزینہ ہو گا ۔لوگوں کو کوئی اور ادبی رسالہ پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہم نے کم فہم قارئین کے لئے بھی مضامین لکھنے کا ارادہ کیا اور اس کی ابتدا ایک انتہائی ’’موخر‘‘ یعنی مہینے کی آخری تاریخ کو شائع ہونے والے رسالے سے کی۔ہمارے چند مضامین کے عنوانات یوں ہیںکہ٭ کیا آپ پانچویں پاس کر نا چاہتے ہیں؟٭شوہر کو اشاروں پر چلانے کے طور طریقے ٭مور بارش میں کیسے ناچتا ہے؟٭اونٹ کی کونسی کل سیدھی ہوتی ہے؟٭ردی پیپر والے سے زیادہ پیسے کس طرح لئے جائیں؟٭بھوسی ٹکڑ ے سُکھانے کے طریقے٭ساس کے آنے پر کیا پکایا جائے؟٭اتوار بازار منگل کو کیوں نہیں لگتا وغیرہ وغیرہ۔ یہ مضامین بے حد دھانسوقسم کے تھے کیونکہ ان کو لکھتے وقت ہم ہری مرچوں میں کھٹائی اور زیرہ بھر کر تل رہے تھے اور پورے گھر میں مرچ مسالے کی دھانس پھیل گئی تھی اور ہر شخص کا کھانس کھانس کر برا حال ہو رہا تھا۔ یہ’’ موخر‘‘ رسالہ آج بھی ردی کی دکان پر موجود ہے۔ ہم نے اپنی ایک ہمسائی سے کہا کہ ادب یعنی لٹریچر کی دنیا میں ہمارا بہت بڑا نام ہے۔‘‘کتنا بڑا نام ہے؟ انہوں نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔ ہم نے کہا بہت بڑانام ہے’’ زاہدہ محمد قمر اعظم‘‘، یہ نام ادا کرتے ہوئے ہم نے ایک ایک لفظ پر خصوصی زور دیا۔ ’’ہو گا‘‘ مجھے کیا؟وہ تو کہہ کر چلی گئیں مگر ہمارے دل کی دنیا ویران ہو گئی ۔ ہم نے مجوزہ رسالے کا نام ’’ساجھے کی ہنڈیا‘‘ رکھنے کا قصد کیا ویسے تو چمگادڑ بھی بڑا خوبصورت اور ادبی نام ہے مگر پھر ہمیں خیال آیا کہ ’’ساجھے کی ہنڈیا ‘‘وہ ہو گی جو ادب چوراہے کے بیچوں بیچ پھوٹے گی۔ اس کی باقیات ہر طرف پھیل جائیں گی۔ ہم نے مضامین کی ترتیب بھی طے کر لی جوکچھ یوں تھی:

٭شوہر سے پیسے چھپانے کے طریقے اور ساس سے علیحدگی کا منصوبہ۔۔ از ماہر سماجیات، زاہدہ قمر

٭بچے اور کھچڑی کے ذریعے درسِ اتحاد ۔۔از پروفیسر زاہدہ قمر

٭چہرے پر پھٹکار سے بچنے کیلئے پھٹکڑی ۔۔از ماہر آزائشِ حُسن، زاہدہ قمر

شیئر: