Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روئے زمین پر ساس، بہو کی ہم آہنگی کا اکلوتا مقام’’ بیوٹی پارلر‘‘

’’ہٹلری ساس‘‘ میں ہٹلر کی تمام تر خامیاں موجود ہوتی ہیں،وہ کہتی ہیں’’مرا مزاج لڑکپن سے پُلسیانہ تھا‘‘- - - - - -  - - -

 

صبیحہ خان۔ ٹورانٹو

دیکھا جائے تو کل اور آج میں بڑا فرق ہے، بہت تبدیلی آچکی ہے۔ لوگوں کے رہن سہن ، رنگ ڈھنگ، غرض ہر چیز میں نئی تبدیلیاںرونما ہوچکی ہیں مگر عجیب بات یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آج بھی جوںکی توں ہیںجیسے کہ گھریلو جھگڑوں اور تنازعات کی نوعیت آج بھی وہی ہے جوہمیشہ سے تھی۔ان کی وجوہ بھی وہی ہیں جو پہلے تھیں ۔ اب ساس بہو کے رشتے کو ہی لے لیں جو کہ شاید ازل سے ہی متنازعہ چلا آ رہا ہے۔

ساس چاہے پرانی ہو یا نئی ،کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ خواہ اپنے مشرق میں ہو یا مغرب میں، ساس بہو کے درمیان وہی ٹینشن پائی جاتی ہے۔ ہمیں یہاں ایک کینیڈین دیسی بہو نے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ میں تو اس دن کو کوس رہی ہوں جب اپنی مدد کے خیال سے میں نے ساس اماں کا امیگریشن کروایا تھا۔ اب جب سے یہ ساس صاحبہ تشریف لائی ہیں ،ہر بات میں ہر کام میں دخل اندازی اور ہر بات میں اپنی مثال کہ ہم تو سسرال میں مجال ہے کہ اپنی مرضی کا سوچ بھی لیتے یعنی وہی کہ ساس بھی کبھی بہو تھی۔ساسوں کی کئی اقسام ہیں :

٭٭جھگڑالو ساسیںیہ جوان اور بوڑھی دونوں قسم کی ہوسکتی ہیں۔ اس قسم کی ساس پہلے تو بڑے چاؤ سے اپنی پسندکی بہو لاتی ہیں پھر کچھ ہی عرصے کے بعداس بہوپر کسی عذاب کی طرح مسلط ہوجاتی ہیں ۔ ایسی ساس اپنے بیٹے سے بہت پیار کرتی ہے اور اس پر یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ وہ اپنی بہو سے بھی بہت محبت کرتی ہے چنانچہ بہو اپنی ساس کی اس دورخی پالیسی کی وجہ سے خاموش ہوجاتی ہے۔ طعنہ زن اور جھگڑالو ساسوں کی یہ قسم چاہے دیہات کی ناخواندہ ساس کی شکل میں ہو یا شہر کی پڑھی لکھی معزز خاتون کے روپ میں، دونوں کا طریقۂ واردات بالکل یکساں ہوتا ہے۔

٭٭ ’’ہٹلری ساس‘‘ کا تعلق ہٹلر کی نویں پشت سے بتایا گیا ہے۔ اس وجہ سے ہٹلر کی تمام تر خامیاں ان میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں۔ اس قسم کی ساس بہوؤں کی چھترول اور لترول کرنے کا فن بھی جانتی ہیں۔جب ان سے اس چھترولی اور لترولی عادات کے بارے میں پوچھاجائے تو وہ بتاتی ہیں کہ: ’’مرا مزاج لڑکپن سے پُلسیانہ تھا‘‘

٭٭ سنجیدہ اور گھُنی ٹائپ کی ساس نہایت خطرناک ہوتی ہے۔ بظاہر پرسکون سمندر کی مانند دکھائی دینے والی یہ ساس اگر سونامی والی کیفیت میںآجائے تو سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ساسوںمیں سب سے کامیاب ساس یہی ہوتی ہے۔ بہو کو اس قسم کی ساس سے محتاط رہنا پڑتا ہے ۔ اس کو’’ سیاسی ساس‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ بہو کے ساتھ ہمیشہ سیاست چلتی ہے ۔

٭٭خوش مزاج ساسوں کی قسم بہت نایاب ہے جوخال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ اکثر خوش مزاج ساسوں کی بدقسمتی یہ ہوتی ہے کہ ان کو بدمزاج بہو ملتی ہے جس کی وجہ سے ان کی ساری خوش مزاجی ہوا ہوجاتی ہے ۔

٭٭فیشن ایبل ساسوں کی تعداد آج کے دور میں بڑھتی جارہی ہے مگر ان ساسوں سے بہوئیں اگر خوش نہیں تو ناخوش بھی نہیں کیونکہ ان ساسوں کا زیادہ تر وقت بیوٹی پارلر زمیں گزرتا ہے۔ وہ مختلف کیٹی پارٹیوں میں بھی مشغول رہتی ہیں۔ اس قسم کی ساسوں کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ وہ بہو سے کسی طور کم دکھائی نہ دیں۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ روئے زمین پر ساس بہو کی ہم آہنگی کا اکلوتا مقام بیوٹی پارلر ہے جہاں ایک کرسی پر بہو اپنے بال ترشوارہی ہوتی ہے تو دوسری کرسی پر ساس اماں اپنا فیشل کروارہی ہوتی ہیں۔ ایسا اتفاق اور اتحاد ساس اور بہو کے مابین کسی دور میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ سسرال میںسب سے قابل رحم شخصیت سسر کی ہوتی ہے۔ اکثر مائیں،بیٹی کی شادی کے بعد ایک ماڈل کے طور پر جس مظلوم ہستی کو پیش کرتی ہیں وہ عموماً سسر ہی ہوتا ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے چونکہ ’’گرہستی کی جنگ‘‘ہوتے ہیں اس لئے ہمیشہ جاری و ساری رہتے ہیں جیسا کہ ہمارے سیاستدانوں کے درمیان سیاسی جنگ جاری رہتی ہے۔

شیئر: