Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پانامہ لیکس شواہد، عمران غیر سنجیدہ

 
انہیں چاہیئے کہ سپریم کورٹ میں پیش کئے جانےوالے خط کو غلط ثابت کریں، سیاست فی الحال عمران خان اور بلاول کے گرد گھوم رہی ہے
 
صلاح الدین حیدر
 
عمران اور بلاول دونوں ہی نئے طرز کے سیاستداں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بلاول ابھی نو وَارد ہے اور عمران خان اور انکی تحر یک انصاف کو تو خیر 20 برس ہوگئے، خاصے امتحانات سے گزرنا پڑا، کوئی نئی بات نہیں۔ سیاست کے خاردارمیں قدم قدم پر کانٹے ہی تو ہو تے ہیں۔ سنبھل سنبھل کر پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پڑتے ہیں، عمران اپنی کاوش میں لگے رہے اور بالآخر 2013 ءمیں کامیابیوں نے انکے قدم چومے۔ آج نہ صرف خیبرپختونخوا میں انکی حکومت ہے بلکہ سینیٹ میں بھی انکے ممبران موجود ہیں۔ بلاول تو ابھی بالکل ہی بچہ ہے جوش و جذبہ سے بھرا ہوا نواز شریف ،الطاف حسین اور عمران خان کو للکارتا ۔ چاچا، چاچا کی صدا لگانا اسکا محبوب مشغلہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عمران نے بڑ ی جدوجہد کے بعد ایک پارٹی کا ڈھانچہ کھڑا کیا لیکن بلاول تو بدقسمت ہے کہ اسے اسکے نانا ذوالفقار علی بھٹو ووالدہ بےنظیر کے ہاتھوں سے بنی بنائی ایک پارٹی مل گئی تھی لیکن شاید اسکے نصیب میں ٹھوکر کھانا ہی لکھا ہے۔ والد آصف زرداری نے پارٹی کو تباہ و برباد کردیا جو کچھ بلاول کےلئے رہ گیا وہ فقط بوسیدہ عمارت ہے جسکی چولیں تک ڈھیلی ہوگئی ہیں،زرداری نے ہر اس شخص کو جو کہ بھٹو اور بےنظیر کے نقش قدم پر رہ کر پارٹی کو آگے بڑھانا چاہتاتھا اسے تنظیم سے دور کردیا۔ نہ جانے بھٹو سے انتقام تھا یا پھر بےنظیر کی پارٹی کو درہم برہم کرنا تھا۔ 
زرداری نے بےنظیر کے قتل کے بعد الیکشن میں ہمدردی کے جذبات کا سہارا لیا اور صدر مملکت بن بیٹھے لیکن صدر بن کر نہ تو انہوں نے ملکی مفادات کےلئے کچھ کام کئے نہ ہی پارٹی کو مضبوط کرسکے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے پارٹی کے اپنے ہی ہاتھوں سے بخئے ادھیڑ دیئے ۔ ظاہر ہے ایک ایسی پارٹی جو3 مرتبہ پورے ملک میں حکومت کرچکی ہو اب صرف سندھ کی پارٹی بن کر رہ گئی۔ پنجاب میں اسکا صفایا ہوگیا ہے۔ منظور وٹو ، پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی جیسے لوگ جب اس میں ہونگے اور بلاول بھٹو کےساتھ ساتھ رہیں گے تو یہی کچھ ہوگا جو آج پیپلز پارٹی کےساتھ ہورہا ہے۔ اپنے ہی صوبے میں مقید اور آئندہ انتخابات میں دوسرے صوبوں سے جیتنے کا شائبہ تک نہیں۔
پھر بلاول کو اردو آتی نہیں۔ سندھی کبھی سیکھی نہیں۔ سندھی تو بےنظیر کو بھی نہیں آتی تھی لیکن آصف زرداری ساتھ ساتھ تھے تو کام چل جاتا تھا۔ قائم علی شاہ جیسے لوگ پارٹی پر بوجھ ہیں، وہ بلاو ل کی کیا مدد کریں گے۔ زرداری نے آرمی کیخلاف تقریر کی۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کی اور پھر جلاوطنی کو ترجیح دینے پر مجبور ہوگئے اور وہ لندن یا دبئی سے پارٹی کی خبرگیری کرتے ہیں۔ بلاول کو رومن انگریزی میں تقریر لکھ کر دے دیتے ہیں۔15,10منٹ اسکی ریہرسیل کرواتے ہیں تب کہیں جاکر وہ اسکی ادائیگی کرتا ہے۔
لیکن جوشِ خطابت نانا او روالدہ جیسا ہے جو اس کیلئے مفید ثابت ہوگا۔ مشکل یہ ہے کہ بلاول ابھی تک سیاست کی ابجد سے ہی ناواقف ہے۔ اسکا بس چلے تو وہ ایک نیا نظام مرتب کردے لیکن وہ اکیلا نہیں بلکہ عاقبت نا اندیش لوگوں کے حصار میں کام کرتا ہے۔ ان میں ایک اچھا ، مڈل کلاس سے آیا ہوا سیاسی ذہن رکھنے والا شخص صرف ایک ہے، نثار کھوڑو.... لیکن اسے کوئی اہم عہدہ آج تک نہیں دیاگیا۔ 4 دسمبر 1996 ءکو جب شہر میں الطاف حسین کے چھوٹے بھائی قتل کئے گئے تو ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ اس قتل کے نتیجہ میں اس وقت کے سندھ کے وزیراعلیٰ سید عبداللہ شاہ کے بھائی کو بھی قتل کردیا گیا۔ خبریں ہر ایک کی زبان پر تھی کہ عبداللہ شاہ کی رخصتی اور نثار کھوڑو کو وزیر اعلیٰ کے منصب پر بٹھا دیا جائے گا۔ 
کاش ایسا ہوتا تو آج سندھ کی تقدیر بدلی ہوئی ہوتی۔ بےنظیر بھٹو کے قتل کے بعد بھی امید یہی تھی کہ قرعہ¿ فال نثار کھوڑو کے نام نکل آئے گا لیکن جہاں آصف زرداری نے مخدوم امین فہیم کو وزیراعظم بنانے سے انکار کردیا وہیں انہوں نے ایک 75 سالہ قائم علی شاہ کا سندھ کے وزیراعلیٰ کے طور پر انتخاب کیا۔ وہ عمر کے اس حصے میں تھے جہاں بھاگ دوڑ تو کجا وہ دفتری کام بھی کاہلی سے کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اسمبلی کے ہال میں سو جاتے تو کبھی دفتر میں جمائیاں لیتے رہتے۔ سندھ کی تقدیر تو پھوٹنا ہی تھی۔ سو پھوٹ گئی۔
اب بلاول پنجاب اور دوسرے صوبوں میں اقتدار حاصل کرنے کے خواب تو دیکھ سکتے ہیں لیکن شاید انکی تعبیر  صحیح  نہ ہو۔ دیکھیں عمر ان خان صاحب کیا گل کھلائینگے ۔ان میں ہمت ہے ،جوش ہے، ولولہ ہے، قیادت کی بھرپور صلاحیتیں موجود ہیں لیکن آمرانہ ذہنیت کیوجہ سے بنا بنایا کھیل بگڑ ہی جائےگا جو عمران کےساتھ ہوتا رہتا ہے۔عمران کو سوچنا چاہیئے کہ آخر بلندی سے پستی کی طرف وہ یا انکی پارٹی کیوں آئی۔ عمران نئی نسل اور ملک میں اصولوں کی سیاست اور رواداری کے قائل لوگوں کا ہیرو بن کر ابھرا تھا۔2013ءکے الیکشن میں اس نے نواز شر یف کو ناکوں چنے چبوا دیئے لیکن بعد میں اس نے اپنی پارٹی کے چند سرکردہ اور سنجیدہ مزاج لوگوں کو نکال کر اپنے ہی ہاتھ پیر توڑ ڈالے۔ 
جسٹس وجیہ الدین اور تسنیم نورانی جیسے جواہر جس جوہری کے پاس ہوں وہ تو بلندیوں کی اعلیٰ ترین سطحوں کو چھو لیتا ہے لیکن عمران نے جہانگیر ترین کو سیکریٹری جنرل بناکر بہت بڑی غلطی کی۔ ڈاکٹر عارف علوی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سیکریٹری جنرل تھے۔ انہوں نے پارٹی کو سنبھالا ہوا تھا۔ جہانگیر ترین ایک امیر ترین بزنس مین ہیں۔ ٹھیک ہے عمران کو ان کے ذاتی جہاز اور ہیلی کاپٹروں کی سہولت میسر آگئی ہے لیکن عمران ایک نیک نیت انسان ہےں، وہ ملک کی بھلائی چاہتے ہیں اس میں کسی کو بھی شبہ نہیں ۔
دوسری طرف اگر زرداری اور نواز شریف کو دیکھا جائے تو لوٹ کھسوٹ میں سب ہی ملوث نظر آتے ہیں۔ عمران اسی لئے عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے لیکن اسلام آباد میں دھرنا بے مقصد ثابت ہوا،پھر الیکشن میں دھاندلی کا الزام سپریم کورٹ نے رد کردیا۔ دوبارہ اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی کا اسلام آباد ہائی کورٹ نے سختی سے نوٹس لیا، گو کہ انتظامیہ نے بھی راستے اور سڑکیں بند کرکے اعلیٰ عدلیہ کی توہین کی تھی لیکن عمران خان کا دھرنا ناکام کرنے میں حکومت کامیاب ہوگئی۔ 
اب پانامہ لیکس کے معاملے میں بھی جو کہ سپریم کورٹ کی فل بنچ سن رہی ہے کہ نواز شریف کے بچوں نے غیر اخلاقی طور سے دولت جمع کی اور لندن میں جائداد بنائی۔ حکومت نے اپنے بیانات میں کئی تبدیلیاں کیں لیکن جب سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس عظمت نے یہ کہہ کر انکے شواہد مسترد کردیئے کہ یہ تو الف لیلیٰ کی کہانیاں ہیں تو ظاہر ہے عمران کو سبکی ہوئی اور نواز شریف اور انکے حواریوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے سب سے بڑے مخالف پر تنقیدوں کے تیر برسانے کا موقع مل گیا۔ اچنبھا تو یہی ہے کہ عمران نے الیکشن میں خورد برد کرنے کی انکوائری میں جو ٹرک بھر کر شواہد لانے کا وعدہ کیا تھا پورا نہ کرسکے۔ اسی طرح پانامہ لیکس میں ان کے وکیل حامد خان جو کہ نامی گرامی شخص ہیں عدالت میں شواہد کے معاملے میں لاعلمی کا اظہار کرکے تحریک انصاف کےلئے حزیمت اور شرمندگی کا باعث بنے۔
اب سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے تو یہ کہہ کر کہ وہ حسن نواز ، حسین نواز اور مریم نواز کے اثاثوں اور لندن میں انکے فلیٹ کے بارے میں اپنی پوری توجہ مرکوز رکھے گی، عمران خان کی تھوڑی بہت لاج رکھ لی ہے لیکن کھیل جو شروع ہوا ہے اس میں عمران خان اور ا نکے وکلاءغیر سنجیدہ نظر آتے ہیں تو عدالت تو شواہد پر فیصلہ کرےگی۔ قطر کے ایک شہزادے نے یہ خط لکھ کر کہ نواز شریف کے کچھ اثاثے اس نے قطر میں جائداد میں لگا دیئے تھے ،جو منافع ہوا اُس نے لندن میں فلیٹ خرید کر نواز شریف کے دونوں بیٹوں کو دیدیئے ۔ اب عمران کا کام ہے کہ اسے غلط ثابت کریں۔ تحریک انصاف کے کرتا دھرتا کہتے تو یہی ہیں کہ وہ شواہد پیش کرینگے لیکن آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
ملک میں سیاست کا نقشہ فی الحال تو بلاول اور عمران خان کے گرد گھوم رہا ہے لیکن بلاول ناتجربہ کاری کی وجہ سے شاید کوئی خاص فائدہ اٹھا سکےں لیکن عمران خان کے پاس بہت اچھا موقع ہے اپنی مقبولیت بڑھانے کا۔ 
******
 

شیئر: