Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیوزی لینڈ سے سیریز پاکستان کیلئے سخت امتحان

 
ٹیسٹ ٹیم کا اصل ٹیسٹ دورہ نیوزی لینڈ و آسٹریلیا میں ہوگا ، ویسٹ انڈیز کیخلاف کامیابیوں کے باوجود ٹیم میں خامیاں ہیں
 
 جمیل سراج ۔ کراچی
 
پاکستان کرکٹ ٹیم کا ہ دورہ نیوزی لینڈ شروع ہو چکا ہے۔ دور ے کے واحد وارم اپ میچ میں بارش نے رنگ میں بھنگ ڈالا اور تینوں روز کھیل ممکن نہ ہوسکا ،ایک گیند بھی پھینکی نہ جا سکی اور دونوں طرف کے کھلاڑیوں کو گیند اور بلے سے کھیلنے کا موقع نہ ملا ۔اس صورتحال پر میزبان ٹیم اور ان کی انتظامیہ تو بے فکر ہے لیکن پاکستان ٹیم اور بالخصوص اس کی ٹیم مینجمنٹ سیریز کے واحد وارم اپ میچ کے بارش کی نذر ہونے پر قومی ٹیم کی پہلے ٹیسٹ سے قبل تیاری نہ ہونے پر خاصی پریشانی کا شکار ہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان دو ٹیسٹ پرمشتمل سیریز کا پہلا میچ کل سے کرائسٹ چرچ میں کھیلاجائے گا۔
ماہرین نے اس پر اپنے تبصروں میں کہا کہ پاکستان ٹیسٹ ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف سیریز سے متحدہ عرب امارات کی سیریز تک توعمدہ کارکردگی کے تسلسل کو برقرار کھا اور انگلینڈ کے خلاف چار میچوںکی سیریز دو دو سے برابر کھیلی جبکہ متحدہ عرب امارات کی ٹیسٹ سیریز میں دو ایک سے کامیابی حاصل کی، قومی ٹیم نے و یسٹ انڈیز کے خلاف سیریز کے مجموعی طور پر 9 میںسے8 میچوں میں لگاتار کامیابی حاصل کرکے اپنی مکمل برتری ثابت کی ۔ اگر سیریز کے تیسرے اور آخری ٹیسٹ میں شکست نہ ہوتی توپاکستان ایک نئی تاریخ رقم کردیتا، لیکن اب قومی ٹیم کی یہ سیریز بہت مشکل ہوگی جس میں ہمارے کھلاڑیوں بالخصوص بیٹسمین کی صلاحیتوں کا اصل امتحان ہوگا، یونس خان اور مصباح الحق کے علاوہ اظہر علی اور اسد شفیق ہی ایسے کرکٹرز ہیں جو نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی تیز وکٹوں پر کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہیں ورنہ اسکواڈ میں موجود دیگر بیٹسمین کو ان کنڈیشنز میں یقینی طور پر بڑی مشکلات کا سامنا ہوگا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بیٹسمین کی گرومنگ میں کہیں نا کہیں نقص موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کی کارکردگی نیوزی لینڈ، آسٹریلیا ، جنوبی افریقہ جیسی وکٹوں پر قابل رحم ہوتی ہے۔ سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر شعیب اختر نے اپنے تبصرے میں کہا کہ پاکستان ٹیم کا دورہ نیوزی لینڈ ہمارے بیٹسمینوں کا کڑا امتحان ہوگا، وہاں کی کنڈیشنز متحدہ عرب امارات ،ایشیا اور حتی کہ انگلینڈ سے بھی مختلف ہونگی، بالخصوص ہمارے بلے بازوں کیلئے یقینا مشکلات زیادہ ہونگی، انہیں وہاں کی باونسی ٹریک پر وکٹ پر ٹھہرنے میں دشواری ہوگی اس لئے رنز اسکور کرنا ہرگز آسان نہیں ہوگا، سینئر کھلاڑیوں یونس خان ، مصباح الحق، اظہر علی اور اسد شفیق پر ٹیم انحصار کرے گی۔
دورہ نیوزی لینڈ میں کھیلے جانے والے دونوں ٹیسٹ میچوں میں ان چار کھلاڑیوں کی کارکردگی اہمیت کی حامل ہوگی ان پر سب کی نظریں مرکوز ہونگی۔ اس لئے میری دانست میں یونس خان جن کا یہ دورہ بہت اہم ہے ،وہ اس میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹیم کیلئے چند یادگار اننگز کھیلنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے، انہیں اس میں کہاں تک کامیابی ملتی ہے یہ تو یونس خان کی کرائسٹ چرچ اور ہملٹن ٹیسٹ کی ممکنہ چارا ننگز کی کارکردگی ہی بتائیں گی،جہاں تک کپتان مصباح الحق کی ذاتی کارکردگی کی بات ہے تو میرا نہیں خیال کہ یہ دورہ ان کے کیریئر کا آخری دورہ ثابت ہوگا، ان کی ”باڈی اور جنرل لینگوئج “سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ ابھی کپتانی چھوڑنے والے نہیں۔
اس لئے اس دورے میں بحیثیت سینئر کھلاڑی مصباح الحق پربہت اہم اور بھاری ذمہ داری عائد ہوگی ،انہیں ٹیم کے بیٹنگ کے شعبے میں بہتری کیلئے کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا، انہیں یونس خان یا اسد و اظہر پر انحصار کرنے کی بجائے خود کو کپتان کی اننگز کھیلنے اور ٹیم کو ساتھ لے کر چلنے کیلئے ہر طرح سے تیار کرنا ہوگا اس کے بغیر وہ پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان کی حیثیت ثابت کرنے میںکامیاب نہیں ہوسکیں گے، سابق ٹیسٹ کرکٹرز سلیم ملک ،صادق محمد اور سلیم جعفر کا کہنا ہے پاکستان ٹیم نے گزشتہ دورہ برطانیہ سے عمدہ کارکردگی کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن حاصل کی اب یہ الگ بات ہے کہ ہند نے جلد ہی نمبر ون پوزیشن پر دوبارہ قبضہ کرلیا لیکن پاکستان ٹیم کی عمدہ کارکردگی میں اس بار تسلسل کا برقرار رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ قومی ٹیسٹ ٹیم مصباح الحق کی قیادت اور ہیڈ کوچ مکی آرتھر کی زیر نگرانی جد وجہدکرتی نظر آرہی ہے جس کا اندازہ عالمی رینکنگ میں نیٹ پوائنٹس دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت سے قطع نظر کہ پاکستان ٹیسٹ ٹیم نے لگاتار کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے، کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی بھی بہتر ہوتی رہی لیکن حالیہ متحدہ عرب امارات سیریز میں نو میں سے آٹھ فتوحات کے پس پردہ قومی ٹیم کے اندر کچھ خامیاں،کمزوریاں اور نقائص بھی نظر آئے جس کو فتح کے جشن میں نظر انداز کردیا گیا ۔کامیابی کے نشے میں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ حریف ٹیم ہم سے کیوں ہاری، اس کے کھلاڑیوں نے میچوں میں وہ کون سی غلطیاں کیں جو انہیں مہنگی پڑیں، یا ان کے کپتان سے غلط فیصلے کیوں ہوتے رہے جس کا خمیازہ اسے پے در پے شکست کی صورت میں بھگتنا پڑے، ان پہلووں پر نظر ڈالنا اس لئے بہت ضروری ہے کہ قومی ٹیم آئندہ ان غلطیوں کو دہرانے سے بچے۔
******

شیئر: