Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیس سرزمین ِ خواب ، پردیس جہانِ تعبیر

 
جب پردیسی کا دل واپسی کے لئے مچلتا ہے تو عقل اسے دھمکا دیتی ہے، اکثر کی زندگی دیارِغیر کی نذر ہوجاتی ہے
 
عنبرین فیض احمد ۔ ریاض
 
جو لوگ روشن مستقبل اپنی آنکھوں میں سجائے ،اہل و عیال، دوستوں ، عزیزوں ، رشتہ داروں کو چھوڑ کر اپنے ملک کو خیر باد کہہ دیتے ہیں اور دیار غیر کیلئے نکل پڑتے ہیں ان میں سے زیادہ تر لوگوں کو اپنے مسقتبل کو تابناک بنانے کی جستجو تو رہتی ہے مگر وہ چلتے چلتے اکثر تاریک منزل کی طرف نکل جاتے ہیں اور جب ان کوحقیقت کا ادراک ہوتا ہے ،توبہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ انہیں یہ معلوم نہیں ہوتاکہ دیار غیر میں آنا تو آسان ہے مگر واپسی بہت مشکل ہے کیونکہ دیس سرزمین ِ خواب ہے اور پردیس جہانِ تعبیر۔اسی لئے جب جب پردیسی کا دل واپسی کے لئے مچلتا ہے تو عقل اسے دھمکا دیتی ہے ۔ انجام کار زیادہ تر لوگوں کی زندگی دیارِغیر کی نذر ہوجاتی ہے۔جو لوگ بیرون ملک کا رخ کرتے ہیں ، ان کی خواہشیں کم و بیش یہی ہوتی ہےں کہ کسی طرح گھروالوں کے اخراجات پورے ہوجائیں، بچے اچھی تعلیم حاصل کرلیں، بچوں کی اچھی جگہوں پر شادیاں ہوجائیں اور اپنا ذاتی مکان ہوجائے تاکہ وہ اپنی چھت تلے ، اہل و عیال کے ساتھ زندگی کے باقی دن سکون سے گزار سکیں مگر ” دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔“
وطن عزیز میں رہنے والے تارکین کوبڑی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ پردیس در حقیقت ایک آزمائش کا نام ہے۔ اس کا اندازہ صرف انہی لوگوں کو ہوتا ہے جواس راہ چل کر دیکھ لیتے ہیں۔ کوئی بھی انسان مجبور ہوکرہی ایسے فیصلے کرتا ہے اوراپنوں کی خوشی کے لئے انجانی راہوں پر نکل پڑتا ہے، اپنوں کی جھولی میں خوشیاں ڈالنا اس کا مشن بن جاتا ہے ۔ وہ پردیس میںگن گن کر دن گزارتا ہے۔اسے رشک کی نگاہ سے دیکھنے والے اہل وطن کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ پردیس میں رہ کر تارک وطن کس مشکل میں زندگی گزاررہا ہوگا۔ تنہائی کی اذیت جھیل کر، کتنی قربانیاں دے کر اس نے روپے پیسے کمائے ہونگے، اپنے معصوم بچوںکی دوری کس طرح برداشت کی ہوگی۔ ان کی معصوم شرارتیں اوران کی محبتیں جب اسے یاد آتی ہوں گی تو وہ کس طرح اپنے جذبات کو تھپک تھپک کر سُلاتا ہوگا۔یوں وقت کا پہیا گھومتا رہتا ہے،وطن میں بچوں کا بچپن گزر جاتا ہے اور پردیس میں پردیسی کی جوانی۔ 
پردیس میں تارکین وطن کی سب سے ہمدرد ساتھی، سہیلی اور غمخوار ”تنہائی“ ہوتی ہے۔وہ جب کام سے تھک ہارکر اپنے ٹھکانے پر آتے ہیں تو ڈھیروں پریشانیاں اور بکھری سوچیں ان کے استقبال کے لئے موجود ہوتی ہےں۔ شاید اسی کوپردیس کا بونس کہتے ہیں۔ جب کام کرتے کرتے پردیسی کا بوڑھا جسم جواب دے جاتا ہے تو پھروہ وطن واپس لوٹنے کی سوچتا ہے مگر وہاںوہ معاشرے کے لئے ان فٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ تب اس کو احساس ہوتا ہے کہ اس کے اپنوں میںجو گرم جوشی تھی، وہ اس کی غیر ملکی کمائی کی وجہ سے تھی۔ اس کے خاندان والے اس سے نہیں اس کی دولت سے محبت کرتے تھے ۔جس نے اپنی ساری زندگی اپنوں کے عیش و آرام کی خاطرگزار دی اور ایک ایک لمحہ ان کے تابناک مستقبل کے لئے قربان کردیا۔ اپنے خاندان کی اجتماعی خوشی کے لئے اس نے دیار غیرمیں تنہائی کو سینے سے لگائے رکھا ۔اسی کی کمائی سے تعمیر ہونےوالے عالیشان مکان میںاس کی حیثیت ایک اجنبی کی ہوتی ہے یا پھرایسے پرانے اور بوسیدہ سامان جیسی جو استعمال کے لائق نہیں رہتا۔ اس طرح پردیسی اپنوںمیں پہنچ کر ایک بار پھر سے تہی دامن ہو جاتا ہے ۔
******
 

شیئر: