Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طول پیمائی

 
بات لمبی ہوجائے تو اپنی تاثیر اور اہمیت کھو دیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ سننے والا بھی اُکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے
 
شہزاد اعظم
 
بچپن میں سب سے پہلے ہماری نانی کی نندجمیلہ، ان کے بعد ہماری پھوپی کی سوکن عقیلہ، ان کے بعد ہماری تائی کی بھاوج کفیلہ، ہماری کزن کی سوتیلی والدہ نقیلہ اور آخر میں ہماری مس شکیلہ نے ہمیں رہ رہ کر بار ہاباور کرایا کہ لمبی بات سے گریز کیاکریں، بات جب بھی کریں، مختصر ، جامع اور بامعنی ہونی چاہئے کیونکہ بات لمبی ہوجائے تو اپنی تاثیر اور اہمیت کھو دیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ سننے والا بھی اُکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ اس ”طول کلامی“ کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتا ہے۔بات جتنی لمبی ہوتی ہے ،اتنی ہی سننے والے کے دل و ذہن میں یہ گمان یقین میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے، جھوٹ، فریب، مکر، دل بہلاوہ ، چال، سیاست اور محض لارا ہے، اس کا حقیقت سے 1000کلومیٹر دور کا بھی واسطہ نہیں۔ہمیں محض اُلو بنایا جا رہا ہے۔ہمیں تو آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ گوری چمڑی والے انگریزتیسری دنیا سے نکلتے وقت ہمیں جومتعدد اسباق سکھا گئے تھے، ان میں ایک سبق مختصر گوئی کے حوالے سے بھی تھا جس میں انہوں نے کہا تھا”بی بریف، ٹو دا پوائنٹ۔“
ہماری نوجوانی کا حقیقی واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے لمبی لمبی باتیں کرنے والے اپنے ہم عمرساتھیوں کو سمجھایا کہ برادرم! وہ انگریز کہ ہمارے متعدد بڑے جن کی غلامی کرتے رہے اوران کے بعد ہم بھی دل و جان سے اُن کی ”عملی اور شکلی غلامی“ کرنے میں مگن ہیں، انہی کے ایک گورے افسر کے سامنے ہمارے دادا ابا کے دادا ابایعنی لکڑ ابا نے اپنی کسمپرسی کا رونا رونا شروع کیا اور لچھ دار گفتگو کی تاکہ گورے کا دل پسیج جائے، اس میں نرمی اور رحم کا سونامی بپا ہوجائے اور وہ فوری ہمارے لکڑ ابا پر فدا ہونے کے لئے تیار ہوجائے مگر اُس گورے نے لکڑ ابا کو جھاڑ پلا دی اور کہا کہ ہمیں لمبی باتوں سے نفرت ہے،مقصد کی بات مختصر ترین پیرائے میں بیان کرو اور ساری زندگی کے لئے یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لو کہ”بی بریف، ٹو دا پوائنٹ۔“
ہماری یہ بات سن کر طول کلام ساتھیوں نے کہا کہ آپ کو ”بی بریف، ٹو دا پوائنٹ“کا مطلب ہی معلوم نہیں۔ اب دیکھیں ناں ”پوائنٹ“ یونیورسٹی یا کالج کی اس بس کو کہا جاتا ہے جو طلبہ و طالبات کو لے کرجاتی ہے۔ اس میں صرف ”زیر تعلیم “ لڑکے لڑکیاں موجود ہوتے ہیں، ”تعلیم یافتہ“ مرد و زن اس میں سفر نہیں کر سکتے۔ انگریزی چونکہ آپ کو آتی نہیں، اس لئے ضروری ہے کہ انگریز نے جو کہا اس جملے کے جزوِ ثانی کو جزوِ اول کی جگہ رکھ کریوں پڑھا جائے ” ٹو دا پوائنٹ ، بی بریف‘ ‘یعنی تمام زیر تعلیم لڑکے لڑکیاں”ٹو دا پوائنٹ“یعنی ”پوائنٹ تک “ جاتے وقت ”بی بریف“ یعنی ”مختصرہوکر“جائیں۔یہاں مختصر سے مرادہے کہ اپنے ساتھ کم سامان لے جائیں تاکہ وزن ڈھونا نہ پڑے اور تکان بھی نہ ہو۔ بھیا ! آپ کو چاہئے کہ انگریز کے انتباہ کو بیان کرنے سے قبل انگریزی میں مہارت حاصل کریں۔ ہمارے اندر یہی تو عیب ہے کہ ہم دوسرے کی زبان اچھی طرح جانتے نہیں اور اس کی کہی ہوئی بات پر” مقالہ طرازی“ شروع کر دیتے ہیں۔اگر اب بھی آپ میری بات سمجھ نہیں پائے تو میں آپ کو تفصیلاً سمجھاوں؟ یہ سن کر ہم نے زور دار چیخ ماری اور کہا کہ یہ جاہلانہ پرچار بند کرو۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ انگریز آپ جیسوں کو”بی بریف، ٹو دا پوائنٹ“کاسبق دے کر تیسری دنیا سے فرار کیوںہو گیا تھا؟
ہم چونکہ گوری شخصیات کی مہارت ، سیاست، رنگت اور سنگت کے نہ صرف قائل ہیں بلکہ ان پر دل و جان سے فریفتہ ہیں چنانچہ اس ”تاریخ ساز“واقعے نے ہماری شخصیت کی تعمیر میںخاص کردار ادا کیا۔ اس کا سب سے اولیں اثر یہ ہوا کہ ہم نے لمبی لمبی باتیں کرنے والوں پر تنقید کرنے سے اجتناب کرنا شروع کر دیا البتہ جہاں کہیں ہمیں ”طول کلام“قسم کے لوگ دکھائی یا سنائی دیتے ہیں، ہم اس مقام سے فرار ہونے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ۔ہم نے نصف صدی تک جا بجا متعدد مرتبہ اس امر کا مشاہدہ کیا کہ لمبی لمبی ، غیر ضروری باتیں کرکے ”بی بریف، ٹو دا پوائنٹ“کی خلاف ورزی کاارتکاب کرنے والے لوگ جھوٹ نہ سہی، ”غیر صحیح“ گفتگوضرور کرتے ہیں، مکر نہ سہی، بات کو ”ٹالنے“ کی کوشش ضرورکرتے ہیں،فریب نہ سہی حقیقت کو ملبوس کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں،بہلاوہ نہ سہی مگر توجہ کسی دوسری جانب مبذول کرانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔لارا نہ سہی مگربے بنیاد اُمید دلانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔ہمیں اُلو بنانے کی کوشش نہ سہی مگر اپنا اُلو ضرور سیدھا کیا جا رہا ہے۔ہم جب کسی عام جھام جاہل یا خواص میں شامل عاقل ،بس کی چھت پر سوار مسافروں سے پورا کرایہ لینے والے کنڈکٹر یا دکھی انسانیت کی خدمت کے نام پر بھاری فیسیں وصول کرنے والے ڈاکٹر،کسی تعمیر و مرمت اور رنگ و روغن کرائے بغیر ہی ہر سال ماہانہ کرائے میں سیکڑوں کا اضافہ کرنے والے مالک مکان یا نئے نئے ٹیکس لگا کر، تیل ، گیس وبجلی کے نرخ بڑھا کر ، عوام کو جیتے جی مار کر ترقی کا راگ الاپنے والے سیاستدان سے لمبی لمبی باتیں سنتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بسیار گو، محض باتیں بنا رہا ہے، عوام کو بہلا رہا ہے، انہیں اُلو بنا رہا ہے عملاً کچھ کرنے سے آج بھی کترا رہا ہے۔
ہمارے میڈیا نے منہ زور ترقی کر کے بہت سی ایسی باتیں بے نقاب کر دی ہیں جوہمیشہ زیر نقاب رہا کرتی تھیں۔یہ میڈیا کی ہی مہربانی ہے کہ آج ہم ہر کس و ناکس کی گفتگوکی لمبائی ناپنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔کوئی بھی نیوز اینکربریکنگ نیوز کے دوران جب اپنے نمائندے سے استفسار کرتی ہے کہ ”جی بتائیے کیا صورتحال ہے ؟“نمائندہ لمبی بات شروع کرتا ہے کہ” جی جہاں تک اس واقعے کاتعلق ہے تو اس حوالے سے میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ ابھی تک سرکاری یا گورنمنٹ کا کوئی عہدیدار یا وزیر وزرا ءمیں سے کوئی بڑی شخصیت اس جائے وقوعہ پر نہیں پہنچی ہے اور اگر ہم بات کریں یہاں کے موسم کی تو میں یہ بات واضح کر دوں کہ جس مقام پر ہم موجود ہیں وہاں اچھی خاصی خنکی ہے اور لوگوں نے موٹے کپڑے زیب تن کر رکھے ہیں تاکہ وہ اپنے جسم کو سردی سے بچانے میں کامیاب ہو سکیں۔“ 
خیر یہ تو نجی چینلز کے ”بے چارے نمائندے “ ہیں، ان کو کیا کہنا، ہم نے تو چند روز قبل وطن عزیز کی ایک انتہائی وی وی آئی پی ، جمہوری شخصیت کو” لمبی بات“ کرتے سنا وہ فرما رہے تھے کہ ”مجھے معلوم ہے ، آپ لوگ 15سال سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوںکہ 2017ءکے آخر تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہوجائے گا، آپ رات کو اپنے گھروں میں بجلی کے بلب روشن کر سکیں گے، آپ رات کے وقت اپنے باورچی خانوں میں بجلی جلا کر اپنی مرضی سے جو چاہیں پکا سکیں گے، طالب علم رات کے وقت لیمپ ، ٹیوب لائٹ، بلب یا سیور جلا کر پڑھائی کر سکیں گے، آپ کی دنیاسے اندھیرے مٹ جائیں گے۔“ 
ہم موصوف کی گفتگو کی لمبائی دیکھ کر جان چکے تھے کہ ان تلوں تیل نہیں ،اپنے حق میں نعرے لگوانے کیلئے عوام کو اُلو بنایاجا رہا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ اگلے ہی روزسے 6کی بجائے 12گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہو گیا ۔ہماری ” طول پیمائی“ قابل فخر ہے ناں؟
******

شیئر: