Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند،اسرائیل دوستی کا جشن

 
 اسرائیل اور بی جے پی کے نظریات میں مماثلت پائی جاتی ہے، دونوں ہی اسلام دشمن اور مسلم مخالف طاقتیں ہیں
 
معصوم مرادآبادی
 
وزیراعظم نریندرمودی کے مجوزہ دورہ¿ اسرائیل کو کامیاب بنانے کے لئے ایڑی چوٹی تک کا زور لگایا جارہا ہے۔ اسرائیلی صدر ریولن کاحالیہ ہندوستانی دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی ، اقتصادی اور ملٹری تعلقات کو مضبوط تر بنانے کی راہ میں کئی ٹھوس سمجھوتے وجود میں آئے ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی رشتوں کے قیام کی سلور جوبلی کا جشن منانے کے وسیع پیمانے پر انتظامات ہورہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ مظلوم فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی داستان جیسے جیسے طویل ہوتی چلی جارہی ہے، ویسے ویسے ہندوستان کے ساتھ اسرائیل کے رشتوں کی ڈو ر مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ ہندوستان جس نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے، آج ظالم وجابر اسرائیل کا سب سے قریبی دوست بنتا جارہا ہے۔ اسرائیلی صدر کا حالیہ دورہ ہندوستان ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب اسرائیل کے ایک نئے ظالمانہ فیصلے کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے حال ہی میں مقبوضہ عرب علاقوں میں لاوڈ اسپیکر سے اذان دینے پر پابندی عائد کردی ہے۔ دنیا کی سب سے جابر اور ظالم حکومت کے ساتھ ہندوستان کے بڑھتے ہوئے رشتوں اور حساس شعبوں میں لامحدود اشتراک نے ان تمام لوگوں کو سخت ذہنی اذیت میں مبتلا کردیا ہے جو ہندوستان کی ناوابستہ خارجہ پالیسی کے طرف دار ہیں اور جنہوں نے گاندھی اور نہرو کے اس ملک میں امن اور چین کے خواب دیکھے ہیں۔ 
اسرائیلی صدر کے دورہ¿ ہند کے موقع پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیاگیا ہے اس میں دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف دفاع کے میدان میں تعاون بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان آبی وسائل کی ترقی اور زراعت کے میدان میں دواہم معاہدوں پر بھی دستخط ہوئے ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی نے اسرائیلی صدر کے دورہ ہند کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں کافی سود مند قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کی 25برس پرانی دوستی کا دونوں ملکوں کو بھرپور فائدہ ملا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی نے اس موقع پر اسرائیلی کمپنیوں کو ہندوستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے کہاہے کہ دونوں ممالک کے درمیان پیداوار ، مینو فیکچرنگ کے میدان میں بھی تعاون کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اسرائیلی کمپنیاں ہندوستان میں شروع کئے گئے ”اسکل انڈیا“ اور” اسمارٹ سٹی“ منصوبے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں کیونکہ ہندوستانی معیشت کی موجودہ صورت حال میں اسرائیلی کمپنیوں کے لئے ہندوستان میں بڑے امکانات موجود ہیں۔ “
اسرائیلی صدر کے حالیہ دورے کے خلاف سرکردہ مسلم تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے نئی دہلی میں نماز جمعہ کے بعد زبردست مظاہرہ کیا۔ اس دوران حکومت کو جو میمورنڈم پیش کیاگیا اس میں اسرائیلی صدر کی ہندوستان آمد اور استقبال کی مذمت کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ ©©ہندوستان کے عوام نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے ۔ دہائیوں سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی انسانی حقوق کے تحفظ اور عالمی امن کی حمایت میں رہی ہے۔ میمورنڈم میں مزید کہاگیا ہے کہ اسرائیل سے ہندوستان کے سفارتی تعلق کا مقصد فلسطینی عوام کو انصاف دلانے کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا لیکن اس سے فلسطینی عوام کو فائدہ نہیں پہنچا تاہم اسرائیل ایسے اقدام سے حوصلہ پاکر عالمی طاقتوں سے رشتہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔میمورنڈم میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ اسرائیل نے اپنے مکروہ کردار وعمل سے خطہ عرب کو بدامنی کا گہوارہ بنادیا ہے اور فلسطینی شہریوں کو ان کے گھروں سے نکال کر اور ان کی بستیوں کو تباہ کرکے پناہ گزین زندگی گزارنے پر مجبور کررکھا ہے۔
ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان یوں تو 1992ءسے سفارتی تعلقات قائم ہیں لیکن ان تعلقات میں سب سے زیادہ گرمجوشی بی جے پی کے دور اقتدار میں پیدا ہوئی ہے۔ اس سے قبل1996ءمیں جب سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں این ڈی اے سرکار قائم ہوئی تھی تو اس وقت کے وزیرخارجہ جسونت سنگھ نے اسرائیل جاکر یہ شرمناک بیان دیا تھا کہ دراصل دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی رشتوں کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہندوستان میں اقلیتوں کی منہ بھرائی کی پالیسی رہی ہے۔ اب جب سے مرکز میں بی جے پی کی مکمل اکثریت والی سرکار قائم ہوئی ہے تو اس نے اسرائیل کے سا تھ لامحدود سفارتی رشتوں کو اپنا سب سے بڑا ہدف بنالیا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل اور بی جے پی کے نظریات میں غیر معمولی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ہی اسلام دشمن اور مسلم مخالف طاقتیں ہیں اور دونوں کا مقصد مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ ہندوستان جس میدان میں سب سے زیادہ اشتراک کررہا ہے وہ دفاع کا میدان ہے۔ اسرائیل اس وقت ہندوستان کو ہتھیار سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ ہتھیاروں کی فراہمی کے علاوہ خفیہ اطلاعات کے تبادلے اور سیکورٹی امور میں دونوں ملکوں کے درمیان خصوصی تعاون اور اشتراک دن بہ دن ترقی کی راہ پر ہے۔ بی جے پی سرکار کے کارندوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو ” دہشت گردی‘ ‘ سے نپٹنے کا جو غیر معمولی تجربہ ہے اس کا فائدہ کشمیرمیں اٹھایا جاسکتا ہے ، جہاں اسے پاکستان کی طرف سے ایکسپورٹ کردہ دہشت گردی کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی صدر کے ساتھ میڈیا سے گفتگوکے دوران وزیراعظم نریندرمودی نے دہشت گردی پیدا کرنے کے لئے پاکستان پر برستے ہوئے کہاکہ ہندوستان اور اسرائیل اس بات پر متفق ہیں کہ عالمی برادری کو عزم وحوصلے کے ساتھ دہشت گردی کے نیٹ ورک ا ور انہیں پناہ دینے والے ملکوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ مودی نے یہ بھی کہاکہ دہشت گردی پیدا کرنے اور پھیلانے والے ملکوں میں سے ایک ملک ہندوستان کے پڑوس میں واقع ہے۔ 
بلاشبہ ہندوستان کو جموں وکشمیر میں جنگجوئیت کا سامنا ہے لیکن اس کا قلع قمع کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری ان مسائل کو حل کرنا ہے جن کی کوکھ سے جنگجوئیت جنم لیتی ہے۔ بجائے اس کے کہ ایک ایسی طاقت سے اشتراک عمل کیاجائے جو دنیا میں دہشت گردی کا متبادل تصور کی جاتی ہے اور جس نے ظلم وبربریت کی تمام حدیں عبور کرلی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس نے اسرائیل کی طرح کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر قبضہ نہیں کیا جبکہ اسرائیل کے بارے میں پوری دنیا کو معلوم ہے کہ اس نے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کرکے وہاں اپنا تسلط قائم کیا ہے لہٰذا ایک ایسے ملک سے جو خود دہشت گردی کا بدترین پیروکار ہے۔ اشتراک کرکے دہشت گردی کے خلاف کیسے لڑا جاسکتا ہے۔ اسرائیل کو بغل میں رکھ کر دہشت گردی مٹانے کی باتیں کرنا ایسا ہے جیسا کہ کسی ڈاکو سے دوستی کرکے چوری کا خاتمہ کرنے کے خواب دیکھنا۔ 
******

شیئر: