Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عربی سیکھنے کے لئے آسان اسباق پر مشتمل سلسلہ شروع کیا جارہا ہے جو اردوداں کیلئے معاون ہوگا

آج کے درس میں مفرد اسماء کی مثالوں کے بجائے کچھ مرکب اسماء کی مثالیں دیں گے۔

لیکن مثالیں دینے سے قبل عربی زبان کے چند ابتدائی اصول اور ضابطوں کی وضاحت کریں گے جن کے جانے بغیر آپ نہ تو بات آسانی سے سمجھ سکیں گے اور نہ بول اور لکھ سکیں گے۔

دنیا کی دوسری زبانوں کے الفاظ کا صحیح تلفظ کرلینا ، زبان کی معرفت کیلئے کافی تصور کیا جاتا ہے اور تلفظ حرکات سے بنتا ہے اور حرکات زبر ، زیر اور پیش کو کہتے ہیں جن کو عربی میں الفتحۃ ، الکسرۃ اور الضمہ کہا جاتا ہے۔

عربی میں لفظ کے صحیح تلفظ کے علاوہ بھی ایک چیز ہوتی ہے اور وہ ہے اعراب، اعراب ہر لفظ کے آخری حرف پر ظاہر ہونے والی حرکت کو کہا جاتا ہے۔ یہی حرکت یہ بتاتی ہے کہ اس لفظ کا جملہ میں محل و قوع کیا ہے؟ یعنی آیا یہ لفظ فاعل ہے یا مفعول یا کچھ اور یہ اعراب عربی زبان کی جان ہے اس کو جانے بغیر کوئی شخص عربی کا ایک جملہ بھی صحیح نہیں بول سکتا۔ اس کو مثالوں سے سمجھے۔

طَلَعَ الہلالُ چاند نکل آیا۔ شَا ہَدَ الناسُ الھلالَ لوگوں نے چاند دیکھا۔ فَرِحَ القومُ بالھلال لوگ چاند سے خوش ہوگئے یعنی رمضان یا عید کا چاند دیکھ کر لوگوں کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

اس مثال میں پہلے جملے میں الھلال کے لام پر الضمہ یعنی پیش ہے جو یہ بتاتا ہے کہ الھلال فاعل ہے کیونکہ نکلنے اور ظاہر ہونے کا عمل اس سے ظاہر ہوا ہے۔ دوسرے جملے میں الھلال کے لام پر فتحہ یعنی زبر ہے جو یہ بتاتا ہے کہ اس جملہ میں اس کا محل وقوع مفعول ہے یعنی لوگوں نے اسے دیکھا ہے اور مفعول پر عربی زبان میں ہمیشہ فتحہ زبر آتا ہے اور تیسرے جملہ میں الھلال کی حرکت الکسرۃ یعنی زیر ہے اس لئے کہ اس پر ایک حرف ’’باء‘‘ داخل ہے۔ یہ حرف جب کسی لفظ پر داخل ہوتا ہے تو اس کے آخری حرف پر الکسرۃ یعنی زیر کی حرکت یپدا ہوتی ہے۔

مزید چند مثالیں۔ جاء خالدٌ خالد آگیا۔ رأیت خالداً میں نے خالد کو دیکھا۔ ذہبت مع خالدٍ میں خالد کے ساتھ گیا۔

ان تینوں جملوں میں خالد کی دال پر مختلف حرکتوں کا اظہار ہوا ہے یعنی الضمہ، الفتحہ اور الکسرۃ لیکن چونکہ خالد پر الھلال کی طرح الف لام یعنی ’’ال‘‘ نہیں ہے اس لئے ہر جگہ دو دو حرکتوں کا اظہار کیا گیا ہے جس کو تنوین کہتے ہیں۔تنوین کا مطلب ہے ’’نون‘‘ کی آواز پیدا کرنا دو ضمہ رجلٌ، دو فتحہ رجلاً ، دو کسرۃ رجلٍ یعن لُن ، لَن اور لِن کی یہ آواز تنوین ہے۔ جو لکھنے میں تو نہیں آتی لیکن بولنے میں آتی ہے۔

اب ہم تشریح اور توضیح کے بجائے صرف چند اور مثالوں سے اعراب کی مشق کرنا چاہتے ہیں۔

حضر محمودٌ محمود آیا۔ انصرف علیٌ علی چلاگیا۔ مَرِضَ حامدٌ حامد بیمار ہوگیا۔ بَرِیَٔ حسینٌ حسین صحت یاب ہوگیا۔ فَرِحَ خالدٌ خالد خوش ہوگیا۔ زَأرَ اَسدٌ ایک شیر دھاڑا۔

اَکْرَمتُ ضیفاً میں نے مہمان کی خاطر مدارت کی، رَحَّبتُ بضیف میں نے مہمان کا خیرمقدم کیا۔ خوش آمدید کہا۔ نَصَرتُ مظلوماً میں نے ایک کی مدد کی۔ اَلَّفَ علیٌ کتَاباً علی نے ایک کتاب لکھی، ایک کتاب تصنیف کی۔

اعراب ہی کی طرح الفاظ کی تذکیر اور تانیث کا جاننا بھی بیحد اہم ہے ۔ دوسری زبانوں کی طرح عربی زبان میں بھی مذکر و مؤنث کی ایک بہت بڑی قسم سماعی ہے۔ یعنی اہل زبان جس لفظ کو مذکر بولتے اور لکھتے رہے وہ مذکر اور جس کو مؤنث بولتے اور لکھتے رہے وہ مؤنث ھے اس کے علاوہ الفاظ کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو قیاسی ہے یعنی کچھ علامتیں جن کے ذریعہ ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ لفظ مذکر ہے یا مؤنث۔

ان علامتوں میں سب سے نمایاں علامت ’’تاء‘‘ مربوطہ ، یا گول تاء ہے جو کسی لفظ کے آخر میں رہتی ہے۔ اگر یہ تاء ہے تو لفظ مؤنث ہے ورنہ مذکر اس کو مثالوں سے سمجھئے:

فاطمۃُ ، امرأۃٌ عورت ، عالمۃٌ، کریمۃٌ مشہورۃٌ ، طالبۃٌ ، ذکیۃٌ ، مُشفقۃٌ ، ناقۃٌ اونٹنی ، لبوۃٌ شیرنی۔

مذکر کی کوئی خاص علامت نہیں ہے اس کی پہچان یہ ہے کہ وہ مؤنث کی علامتوں سے خالی ہو۔

اب ہم چند ایسے الفاظ کو بطور مثال پیش کردیتے ہیں جن کو اہل زبان مؤنث بولتے اور لکھتے ہیں۔ اُذُنٌ کان، عینٌ آنکھ، یدٌ ہاتھ، کف ھتھیلی، اصبعٌ انگلی، قدمٌ پاؤں، رِجلٌ پیر، ساقٌ پنڈلی

کَتِفٌ مونڈھا، سِنٌ دانت

فَخِذٌ ران، نارٌ آگ

شمسٌ سورج، حَرْبٌ جنگ 

جہنمُ جہنم

بئرٌ کنواں

کأسٌ پیالہ/کپ

دارٌ گھر، دَلْوٌ ڈول

فأسٌ کلہاڑی

انسانی جسم کے وہ اعضاء جو مثنیٰ یعنی دو ہیں وہ عام طور پر مؤنث ہیں ۔

بہرحال یہاں جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ مکمل قاعدہ یا ضابطہ کی ترجمانی نہیں کرتیں۔ ہم انشاء اللہ آئندہ مشقوں کے دوران تذکیر اور تأنیث کی وضاحت کرتے رہیں گے۔

آج کے درس میں ایک آخری اہم بات کا ذکر بھی باقی ہے اور وہ یہ ہے کہ عربی جملوں کی ترکیب دو اسموں یا ایک فعل اور ایک اسم سے مکمل ہوجاتی ہے۔ ان میں اردو کی طرح ’’ہے‘‘ یا فارسی کی طرح ’’است‘‘ یا انگریزی کی طرح ’’Is از‘‘کا اضافہ نہیں کرنا پڑتا مثالوں سے سمجھیئے۔

علیٌ مدرسٌ علی مدرس ہے، فاطمۃُ ذکیۃٌ فاطمہ ذہین ہے، خالدُ نبیہٌ خالد ہونہار ہے، غالبٌ شاعرٌ غالب شاعر ہے، زینبُ عفیفۃٌ زینب پارسا ہے۔ القاضیُ عادلٌ قاضی یاجج منصف ہے۔ ان جملوں کے ترجموں میں آپنے یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ ہر جگہ ’’ہے‘‘ کا ذکر ہوا ہے مگر عربی جملوں میں یہ لفظ نہیں ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ عربی میں دو اسموں سے جملہ مکمل ہوجاتا ہے اور اس میں ہے یا است یا از وغیرہ کا اضافہ نہیں کرنا پڑتا۔

آج کے درس میں جن تین بنیادی اور اہم باتوں کا ذکر کیا گیا ہے یعنی اعراب ، تذکیر و تأنیث اور جملوں میں خارجی رابطوں کا عدم ذکر ان کو یاد رکھنے کی کوشش کیجیئے تاکہ آپ آئندہ آنے والی مشقوں سے استفادہ کرسکیں۔

شیئر: