Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علو ہمتی ، زندہ قوموں کا شعار

مسلمان بڑا ہی بلند ہمت ہوتا ہے، اسے جو مشن سونپا جاتا ہے وہ اس کی تکمیل میں اپنی جان بھی قربان کر دیتا ہے

 

عبدالمالک مجاہد ۔ ریاض

رفعت، بلندی، علو ہمتی اور بلند مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بلند ہمت لوگوں کا طریقہ عام لوگوں سے بڑا مختلف ہوتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے بڑے عمدہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ بعض لوگ غیر معمولی محنت، بعض اپنی ذہانت وفطانت اور بلند ارادوں کے باعث اعلیٰ مناصب حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کے سامنے ایک خاص گول ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ مہینوں، سالوں بلکہ کئی دہائیوں تک محنت کرتے ہیں۔

بعض لوگوں کی نظر سب سے اوپر والے ہدف پر ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے نصیب بڑے عمدہ ہوتے ہیں۔ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں۔ بعض سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ امتحان دیتے ہیں تو ان کے سامنے ہدف صرف پاس ہونا نہیں بلکہ اعلیٰ نمبروں سے پاس ہونا ہوتا ہے۔

یاد آیا کہ دارالسلام آسٹریلیا برانچ کے منیجر رفیع احمد میرے ساتھ ایک دن اپنی پرانی یادیں شیئر کر رہے تھے۔ یہ مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ کہنے لگے: جب ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو امتحانات کے نتائج نوٹس بورڈ پر لگا دیے جاتے تھے۔ نتائج قریب آتے تو لڑکوں میں شور مچ جاتا۔ ہم نوٹس بورڈ کی طرف بھاگتے۔ سب سے زیادہ نمبر لینے والوں کا نام سب سے اوپر ہوتا۔ کہنے لگے: عام لڑکے ہمیشہ نیچے سے اوپر کی طرف دیکھتے کہ نیچے سے ان کا کونسا نمبر بن رہا ہے مگر ہم چند ساتھی ہمیشہ اوپر کی طرف دیکھتے ہوئے نیچے کو آتے ۔ لڑکے نوٹس بورڈ کے نیچے اور ہم اوپر اپنا نام تلاش کر رہے ہوتے۔ پھر ایسا ہی ہوتا میرا نام پہلا یا دوسرا ہوتا یا پہلی چند پوزیشنیں لینے والوں میں سے ہوتا۔ راقم نے عملی زندگی میں دیکھا کہ بعض ہمارے جاننے والے یا کلاس فیلو آج بھی اسی جگہ بیٹھے ہیں جہاں پر وہ20،25سال پہلے تھے۔ ان کی سوچ اور فکر یہی ہے کہ جی ہمارے مقدر میں جو ہے، وہ ہمیں مل رہا ہے۔ نوکری ہے، تنخواہ مل جاتی ہے،گزارا ہو رہا ہے۔ مجھے اس وقت علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو بچپن میں ہم لہک لہک کر پڑھا کرتے تھے۔ محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند ظاہر ہے ستاروں پر کمند کوئی نہیں ڈال سکتا مگر جن کے ارادے بلند اور پختہ ہوں وہ طلاطم خیز موجوں سے گھبرایا نہیں کرتے۔

بچپن میں یا زمانہ طالب علمی میں ہم علامہ اقبالؒکے فلسفہ خودی اور اقبال کے شاہین کے تصور کو سمجھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس وقت ہمیں ان کی بات سمجھ آئی یا نہ آئی یہ ایک علیحدہ کہانی ہے مگر جب عملی میدان میں آئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ انسان کا مضبوط ارادہ اور علو ہمتی بہت بڑی قوت ہے۔ اگر ہدف مقرر ہو جائے یا انسان اسے مقرر کرنے کی کوشش کرے تو ایک دن آتا ہے جب قدرت اس پر ضرور مہربان ہو جاتی ہے۔

اللہ رب العزت اپنے بندوں کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ قرآن پاک نے چند لفظوں میںیہ فلسفہ پوری دنیا کو بتلادیا انسان کو وہی ملے گا جو اس نے کوشش کی۔ یزید بن مہلب 35ہجری میں پیدا ہوا۔ اس کا والد بنو امیہ کا ایک گورنر تھا۔ یہ امیر باپ کا بیٹا تھا۔ جب جوان ہوا تو اس کی بھی خواہش تھی کہ کسی علاقے کا گورنر بن جائے۔یہ اپنا گھر نہیں بناتا تھا۔ نہ ہی اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ تھا۔ ایک گھر سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں منتقل ہوتا رہتا تھا۔

ممکن ہے دوست احباب یا والد کے گھر ٹھہرتا ہو۔ اس سے سوال ہوا کہ اپنا گھر کب بناؤ گے؟ اس نے جواب دیا: میرا گھر یا تو گورنر ہاؤس ہے یا جیل یا پھر قبر ہے۔ اس کے علاوہ میرا کوئی گھر نہیں اور پھر وہ دن آیا جب اسے ایک علاقے کا گورنر بنا دیا گیا اور وہ گورنر ہاؤس میں مقیم ہو گیا۔ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے بڑے عجیب و غریب واقعات پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے دیکھا کہ وہ لوگ جو اعلیٰ مناصب پر پہنچے، ان کی اکثریت بچپن ہی سے بلند عزائم اور اعلیٰ صلاحیتیوں کی مالک تھی۔سعودی عرب کے شاہ سلمان کے والد گرامی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ بچپن ہی سے ان میں قائدانہ صلاحیتیں پائی جاتی تھیں۔ ایک روز ایک شخص ان کے والدامیر عبدالرحمن کے پاس آیا اور کہنے لگا: جناب! آپ کا بیٹا عبدالعزیز ایک دن ضرور بڑا آدمی بنے گا۔ انہوں نے پوچھا: تمہیں کیسے معلوم ہوا؟ کہنے لگا: میں گلی سے گزر رہا تھا، میں نے دیکھا کہ شہزادے کھیل رے ہیں۔ میں ان کو کھیلتا ہوا دیکھنے لگا۔ جو بھی شہزادہ آتا وہ آواز لگاتا کہ ہم کس کے ساتھ کھیلیںگے۔ تھوڑی دیر بعد میں نے شہزادہ عبدالعزیز کوآتے ہوئے دیکھا۔

انہوں نے آتے ہی آواز لگائی: ہاں بھئی! ہمارے ساتھ کون کون کھیلے گا؟ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ارد گرد کئی شہزادے اکٹھے ہو گئے اور ان کی قیادت میں کھیلنے لگ گئے۔ سندھ کے سابق چیف سیکرٹری غلام محمد میمن سے ملاقات ان کے نہایت قابل قدر اور عظیم صاحبزادے ڈاکٹر منصور میمن کے ہاں متعدد بار ہوئی ہے۔ وہ سندھ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے ۔ میں نے ان کو بڑاعالی ہمت پایا ہے۔ یاد رہے کہ بہت کم بچے ہوتے ہیں جو دنیا میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے خود مجھے بتایا: میں پانچویں کلاس کا اسٹوڈنٹ تھا کہ ہمارے اسکول میں انگریز کلکٹر مسٹر Buddبوڈ صاحب آئے۔ یہ لگ بھگ1923کی بات ہے۔ اس وقت ہندوستان میں انگریز کا طوطی بولتا تھا۔ کلکٹر صاحب نے سکول کا معائنہ کیا۔ کلاس رومز میں گئے۔ ہماری کلاس میں بھی آئے۔

مجھ سے پوچھنے لگے: جنٹلمین تم بڑے ہو کر کیا بننا چاہتے ہو؟ میں نے برجستہ کہا: میں آپ ہی کی طرح کلکٹر بننا چاہتا ہوں۔ اس وقت کلکٹر کا عہدہ بہت بڑا ہوتا تھا۔ وہ ششدر ہو کر رہ گیا۔ اس نے اپنی حکومت کو لکھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ہندوستان چھوڑ دیں کیونکہ جس قوم کے بچوں میں یہ شعور آ جائے کہ انہوں نے بڑے عہدوں پر فائز ہونا ہے تو وہ آزادی لے کر چھوڑتی ہے۔ یہ تو ان کے بچپن کی ایک بات تھی مگر غلام محمد میمن کے دل و دماغ میں یہ بات ضرور رہی کہ انہیں بڑا آدمی بننا ہے۔ ان کے والدا سکول ٹیچر تھے ،انہوں نے خوب محنت اور جدوجہد کی۔ ان کی کلاس میں اور بھی کتنے ہی بچے تھے مگر جب انسان عزم اور پختہ ارادہ کر لے تو تمام رکاوٹیں آہستہ آہستہ دور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ غلام محمد میمن جنہیں میں پیار اور محبت سے بابا سائیں کہتا ہوں، فرمانے لگے: مجاہد صاحب ایک دن آیا کہ میں سندھ حکومت میں کلکٹر کے عہدے پر فائز ہوا۔ بعد ازاں انہوں نے مزید ترقی کی، وہ ڈپٹی کمشنر بنے اور سندھ کے چیف سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

(مکمل مضمون روشنی 18نومبر کے شمارے میں ملاحظہ کریں)

شیئر: