Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جہانگیر بدر، نظریاتی کارکن

آج کے سیاسی افق پر 60-70کی دہائی میں طلبہ سیاستدانوں کی آخری کھیپ اپنا کردار ادا کرتے رخصت ہو رہی ہے

 

محمد مبشر انوار

اے این پی کے حاجی عدیل اورجہانگیر بدربھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

پیپلزپارٹی کا منفرد جیالاجس کی تقریباً 5 دہائیاں پیپلز پارٹی کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی رہیں، جو دم ِآخر بھی اپنے رومانس کے سحر سے باہر نہ نکل سکا،قول و قرار کا سچا اور نظرئیے کا پکا رہا۔ دہلی گیٹ کا بانکا سجیلا ،زندہ دلانِ لاہور کے متوسط ترین طبقے کا فخر،جس نے اپنی زندگی کا سفراندرون لاہور کی گلیوں سے شروع کیا مگر اپنی محنت،لگن،جہد مسلسل،عزم و یقین سے سیاسی افق کی رفعتوں کو چھو گیا۔یوں تو شہر لاہور نے قومی سیاست کو بے شمار قابل ذکرفرزند دئیے مگر جو عزت و توقیر جہانگیر بدر کے حصے آئی،اس کا دعویدار شایدہی کوئی اور ہو۔1969میںکلی طور پر اپنے زورِ بازو، اخلاق اور سیاسی بصیرت نے اسے جامعہ پنجاب کا ہر دلعزیز امیدوار بنا دیا،گو کہ وہ یہ الیکشن نہ جیت پائے مگرایک لمبی سیاسی اننگز کی مضبوط بنیاد کے ساتھ اپنی شناخت کروا دی۔اُسی دور میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو جہانگیر بدر نے لبیک کہتے ہوئے اس جماعت کی ایسی رکنیت اختیار کی کہ آخر دم تک اپنی جماعت سے وابستہ رہے۔

طلبہ کسی بھی تبدیلی کا ہراول دستہ سمجھے جاتے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ جہاں بھی تبدیلی آئی وہاں طلبہ کا حصہ ہمیشہ قابل قدررہا۔ ہماری یہ بد قسمتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے جہاں دیگر کئی میدانوں میں نا عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کیا وہیں طلبہ سیاسی تنظیموں کو بھی بالعموم منفی سرگرمیوں میں الجھائے رکھا مگر اس کے باوجودملکی سیاست کے لئے یہ نرسری جنرل ضیاء کی بندش تک موجود رہی۔آج کے سیاسی افق پر 60-70کی دہائی میں طلبہ سیاستدانوں کی آخری کھیپ اپنا کردار ادا کرتے رخصت ہو رہی ہے اور اس کے بعد سیاست میں نیا خون آنے کی بجائے موروثیت کازہر اس کو بتدریج موت کی طرف دھکیل رہا ہے۔

جہانگیر بدر کا حقیقی سیاسی امتحان ذوالفقار علی بھٹو کی معزولی سے شروع ہوتا ہے،جب زندان میں ایک طرف اس کا محبوب سیاسی قائد مقید ہے اور دوسری طرف اسے پابہ زنجیر کھینچتے ہوئے ٹکٹکی کی جانب لایا جاتا ہے۔اس کی زبان پر قائد اور پارٹی کے نعرے ہیں، ٹکٹکی پر بندھے ہر کوڑے پر اس کی زبان سے یہی نعرے گونج رہے ہیں۔ جس راستے کا وہ مسافر بنا،زندان کی صعوبتیں،کوڑے اس کے پائے استقلال کو لغزش دینے سے قاصر رہیں۔ وہ ایک چٹان،دیوار کی مانند اپنے نظرئیے پر کھڑا رہا،کسی قسم کی تحریص بھی اسے اپنی جگہ سے ہلانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔بیگم نصرت بھٹو کی احتجاجی تحریک میں ،محترمہ بے نظیر کے ساتھ،ہر قسم کے احتجاج میں وہ صف اول میں نظر آیا،ایم آر ڈی کی تحریک میںسخت ترین ضیاء الحق کی مارشل لا میںبھی وہ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہوئے وفاقی صفوں میں سب سے آگے کھڑا نظر آیا۔1988کے سیاسی معرکے میں جواں سال جہانگیر بدر پورے ملک میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص محترمہ کے ہمرکاب تھے۔اس وقت تک یہی گمان تھا کہ متوقع کامیابی کی صورت میں جہانگیر بدر ہی وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ چونکہ انتخابات ایک دن منعقد نہ ہوئے تھے اور مقتدر حلقوں کو ابھی تک پیپلز پارٹی سے تحفظات تھے لہذا صوبائی انتخابات تک کھیل بدل چکا تھااورمنظورِ نظر آئی جے آئی کے امیدواران کو اتنی کامیابی مل چکی تھی کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں حکومت نہیں بنا سکتی تھی لہذا محترمہ کا خواب،جہانگیر بدر کی خواہش اور عوام کی جیت ممکن نہ ہو سکی لیکن ایک غریب کا بیٹا،اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچ گیا۔

وفاقی وزارت کا قلمدان اسے سونپا گیا۔بھٹوز کی زندگی تک مقتدر حلقوں نے کبھی ان پر اعتبار نہ کیا اور ہمیشہ ان کو لولا لنگڑا اقتدار ہی سونپا ،جس میں وہ عوامی بھلائی کے لئے کچھ زیادہ نہ کرسکے،ماسوائے پچھلی ’’زرداری‘‘ حکومت کے،جس میں غریب عوام کے رہے سہے خواب بھی چکنا چور ہو گئے۔ دوسری طرف اینٹی پیپلز پارٹی کے علمبرداروں کو پنجاب کو اپنی بھرپور گرفت میں لینے کا پوراپورا موقع فراہم کیا گیا کیونکہ واضح ہے کہ جو جماعت پنجاب سے جیتے گی،وہی مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہو گی۔بعد میں ہونے والے انتخابات اس امر کا ثبوت ہیں کہ عوام میں جڑیں رکھنے کے باوجود پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے امیدوار ہارتے چلے گئے اور شہر لاہور جو پیپلز پارٹی کا مضبوط ترین قلعہ تصور ہوتا تھا،آج اسے وہاں امیدوار بھی میسر نہیں اور جو میسر ہیں ان کی قسمت میں 819ووٹ ہیں۔ مقتدر حلقوں نے اقتدار کی غلام گردشوں میں جو مختلف کھیل رچائے،جہانگیر بدر ایسے نظریاتی سیاسی کارکن کے جنازے نے ان کا پول کھول دیا ہے۔

جہانگیر بدر کا جنازہ ان کے لئے ایک سبق ہے کہ ملکی سالمیت کے لئے ’’حقیقی ‘‘نظریاتی سیاسی کارکنوں کا وجود ،ان کے سیاست میں گھناؤنے کھیل سے زیادہ اہم ہے،انہیں سیاست میں مزید تجربات سے پرہیز کرنا چاہئے۔جہانگیر بدرنظریاتی سیاسی کا رکنوںکی کھیپ کا انمول ہیرا تھا جو چل بسا،اس کی سیاست ،اس کے نظرئیے سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس کا جنازہ اس امر کا گواہ ہے کہ اس کااخلاق بلا شک و شبہ اعلیٰ تھا کہ نہ صرف پورے ملک سے سیاست دان اور دیگر مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں نے اس میں شرکت کی بلکہ وزیراعظم بھی افسوس کرنے ان کے گھر گئے۔

شیئر: